Type Here to Get Search Results !

اشک موتی کروں : محفل شعر و سخن میں جگمگاتا ہوا چراغ



از : فردوس انجم شیخ آصف، بلڈانہ


اللہ عز و جل نے اس سجی سجائی دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازہ، اسے سکھایا، سمجھایا اور عقل و خرد سے مالا مال کیا۔ پھر اسے علم و شعورجیسی نعمتوں سے سر فراز کیا۔ انسان نے اپنے شعور کے ذریعے نہ صرف علم کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی بلکہ دنیا کے تمام علوم کو آگے بڑھانے میں اپنی مہارت اور قابلیت کا ثبوت دیا۔ اللہ تعالیٰ کی تمام تر نوازشات میں سب سے اعلی و افضل " علم " ہے۔ جس کی بناء پر بنی نوع انسان کو دنیا کی ہر شے اور تمام مخلوقات پر فضلیت دی گئی۔ اس علم کے بھی کئی زمرے ہیں۔جس میں " علم شعر و سخن " ایک اعلی مقام رکھتا ہے۔ جس کے توسط سے انسان اپنے مافی الضمیر کو شعر کے قالب میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ شعر گوئی من جانب اللہ است۔ دنیاۓ ادب میں چند مخصوص شعراء ہی اس وصف سے متصف ہوۓ ہیں۔برار کے کہنہ مشق شاعر " فصیح اللہ نقیب صاحب " کو بھی اللہ نے اس وصف سے متصف کیا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔


ہر ایک شخص کو حسنِ نظر نہیں ملتا 
ہر ایک شخص پہ شعر و ادب نہیں کھلتے


یوں تو ضلع بلڈانہ کی سر زمین ادب شناسوں سے زمانہء قدیم سے ہی ذرخیز رہی ہے۔ان ادب شناسوں میں فصیح اللہ نقیب صاحب آج کی فہرست میں صف اول میں نظر آتے ہیں۔ ان کی و لادت 5، اپریل 1948ء کو ضلع بلڈانہ کے قصبہ پپل گاؤں راجہ میں ہوئی۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد آکولہ کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا۔ 

میں ادب کی طالب علم بھلا کیا ذوق رکھتی ہوں کہ استاد الاساتذہ کے لیے اپنی قلم سے صفحۂ قرطاس پر کچھ تحریر کروں ۔بس ایک ادنیٰ سی کوشش کے طور پر چند سطور تحریر کر رہی ہوں۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ نام اچھا اور معنی دیکھ کر رکھیں۔ نام کے اثرات بچوں میں پنپتے ہیں۔ یہ بات فصیح اللہ نقیب صاحب کا نام آتے ہی میرے نزدیک صداقت کو پہنچی۔ محترم کے نام کے اثرات ، لگتا ہے ان کی پور پور میں سرایت کر گئے ہیں۔نام " فصیح اللہ " ( الفاظ کا وسیع ذخیرہ ) جہاں علم کا  اس قدر وسیع سمندر ہے۔ وہاں ہم طالب علموں کو پہنچنے میں زمانے لگ جائیں۔ یہ ان کے علم اور نام کے ہی اثرات ہیں کہ انھوں نے شعر و سخن میں ہی نہیں بلکہ نثر نگاری میں بھی اپنا منفرد اور اعلیٰ مقام بنایا۔آپ کی تربیت بھی ایسے ماحول میں ہوئی جہاں قدرتی مناظر اور فطرت خود بہ خود انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتی ہیں۔ آپ کو علم و ادب سے دلچسپی بچپن سے ہی رہی اس پر آپ کو میسر ماحول ، پر سکون فضا، قدرت کے نظارے ان سب نے آپ کے اندر موجود فنکار کو جلا بخشی۔ اور آپ دنیاۓ ادب پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب رہے۔

ماہنامہ اقراء میں شائع افسانے پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے


نقیب صاحب کا پہلا شعری مجموعہ " سیپیاں " 1994ء میں شائع ہوا۔ نثر میں پہلی کتاب کا اعزاز " ایک شخص،ایک شاعر ، غنی اعجاز " جو 1997ء میں شائع ہوئی کو حاصل ہوا۔ اس کتاب کے متعلق مجروح سلطانپوری نے اپنے خط میں نقیب صاحب کو لکھا تھا کہ۔۔۔۔

" کل پوری کتاب پڑھ ڈالی تو یہ عقدہ کھلا کہ ہر چند میں نے دنیا کے سارے تذکرے نہیں پڑھے مگر عقل سلیم کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسا سیر حاصلتذکرہ کسی شاعر کا  نہ پہلے لکھا گیا ہوگا نہ آئندہ ممکن ہے۔ "


2002 ء میں " شخص و عکس " منظر عام پر آئی ۔ اس کتاب کو آپ نے مرتب کیا تھا۔ 2015ء میں ضمیر ساجد کی مرتب کردہ کتاب " غزلستان برار " کے آپ معاون مرتب رہے۔ یہی کتاب آپ کی زندگی کی سب سے انمول کاوش ہے جو آپ کی ٹیم  نے برار واسیوں کو تحفہ میں دی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاۓ گا ادبی محققین کے لیے اس کتاب کی حیثیت دو چند ہوتی جاۓ گی۔ 2017ء میں آپ کی کتاب " تاثرات " خاکے اور ادبی مضامین کا مجموعہ شائع ہوئی ۔ اس کتاب نے آپ کو بہترین نثر نگار کے روپ میں دنیائے ادب میں مقبولیت بخشی۔ حال ہی میں شائع شدہ شعری مجموعہ " اشک موتی کروں " 2021ء میں منظر عام پر آیا ہے۔ اس کتاب نے آپ کو بہترین شعر و سخن کا تاج پہنا دیا۔  

 فصیح اللہ نقیب صاحب کی کتاب " اشک موتی کروں "نہ صرف شاعری کا حسین مرقع ہے بلکہ یہ کتاب  زندگی جینے کادرس بھی دیتی ہے۔ اس کی ہر سطر سے انسان کے تعمیری پہلو اجاگر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی ابتدا ء فصیح اللہ نقیب صاحب کے اس شعر سے ہوتی ہے...


خار ریشم کروں، آگ شبنم کروں، اشک موتی کروں، خون پانی کروں 
نظم کے گام پر یا غزل نام پر ، زندگانی تری ترجمانی کروں 


تعارف اور تبصرے کے طور پر  پروفیسر ڈاکٹر زینت اللہ جاوید ، شکیل اعجاز صاحبان  کے رشحات قلم دے گئے ہیں ۔ جس کے بعد موصوف نے " سخن ِ گفتنی " کے عنوان سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ جس میں انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پہلے شعری مجموعے " سیپیاں " جو 1994ء میں شائع ہوا تھا ۔ اس میں چند مخلصین نے ان کی غزلوں میں بحر و وزن کی لغزشوں کی نشان دہی فرمائ تھی۔ جسے وہ قبول کر کے اس سے تائب بھی ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۔۔۔۔

" کبھی کبھی قدیم اردو سے کچھ الفاظ اٹھا لینے کو ویسے ہی جی چاہتا ہے جیسے بزرگوں کی باقیات کو گاہے گاہے نکال کر دیکھ لینے کو ۔ 

مثلاً : تلک، ولے، ٹک، نئیں ، کئیں ۔۔۔وغیرہ 

یہ الفاظ اسلاف کے یہاں سکہ ہاۓ رائج الوقت تھے۔ آج متروکات سہی لیکن کبھی کبھی ان بھولے بسرے الفاظ کا استعمال مزہ دے جاتا ہے ۔میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں ۔جب میں نے اس کتاب میں شامل ان الفاظ کے شعر پڑھے تو واقعی ان کا لطف دو بالا محسوس کیا ۔ ملا خطہ فرمائیں۔۔۔

خوشبو ئیں روح میں بساتی نئیں 
محفلیں اب تو گل کھلاتی نئیں 
کچھ نئی ہو نقیب طرزِ ادا 
نئیں تو غزلیں نکھر کے آتی نئیں 


 اس کے بعد حمد پاک میں خدا کی عظمت کو بیان کیا ہے اور دل کو اللہ کا مسکن بتایا ہے ۔۔۔۔

 

 تیری تلاش ہر سو ہر سو ترے نظارے 
 ہر دل ہے تیرا مسکن ہر لب تجھے پکارے 

 

  مسلمانوں کے لیے عقیدت روحانیہ کے طور پر اللہ عز و جل کی ذات اقدس کے ساتھ ہی حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی ذات رحمت بھی ہے ۔ اس لیے شعراء نے اپنی بھر پور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ نقیب صاحب چونکہ  اسلامی سوچ رکھتے ہیں اور اصلاحی عنصر بھی آپ کی شخصیت میں شامل ہے اس لیے انھوں نے اپنے کلام میں حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کی صفات اور تعریف نیز ان کے تئیں عقیدت و احترام کے جذبات کو بھی سمویا ہے ۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

  

دست آدم نے رکھی قصر نبوت کی بناء 
آخری اینٹ لگانے کے لیے آپﷺ آۓ


خدا خدا ہے ، نبی نبی ہیں، لحاظ رکھوں جو نعت لکھوں 
یہ کام ویسے تو خیر کا ہے کہیں یہ کار دگر نہ ٹہرے 


نقیب صاحب نے نہ صرف حضرت محمد صلی اللہ و علیہ وسلم کے لیے اپنی عقیدت و احترام کو پیش کیا بلکہ ان کی آل پر " سلام " بھی بھیجا ہے ۔۔۔


عالم اسلام کے رخشندہ گوہر پر سلام 
آسمان صدق کے تابندہ اختر پر سلام 
منبع انوار مہر و ماہ و اختر پر سلام
نور عین فاطمہ سبط پیمبر پر سلام 


کتاب کا دوسرا حصہ غزل کے لیے مختص ہے ۔ اس حصے میں تقریباً 134 غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ غزل شعر و سخن کی وہ صنف ہے جس میں عموماً عاشقی، پیار و محبت اور حسن کی تعریف کے ساتھ محبوب سے ہجر و وصال پر مشتمل اشعار کہے جاتے ہیں۔ بیشک نقیب صاحب بھی جمالیاتی ذوق رکھتے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی غزلوں کو ایک نیا تخلیقی مزاج دیا ہے ۔اس کی عمدہ مثال اس کتاب میں شامل پہلی غزل ہے۔ جو انھوں نے کائینات کی سب سے عظیم ہستی کے لیے لکھی ہے، جس کی تخلیق کے لیے زمین سے ہر قسم کی مٹی یکجا کی گئی اور حکم ربی پر اس مٹی کو زم زم، فرات، دجلہ، نیل، تھیمس اور گنگ و جمن کے مقدس پانیوں سے گوندھا‌ گیا۔ اور تخلیق کار نے اس کی پیشانی پر تخلیق کے قلم کو چاندی کے گھول میں ڈبو کر ' ماں ' تحریر کیا ۔

 

جبیں صبح پر کرنوں کی اجلی جگمگاہٹ ماں 
شفق میں شام کے ماتھے پہ رنگوں کی گھلاوٹ ماں 


نقیب صاحب نے اپنی غزلوں میں اپنی تعمیری سوچ اور معیاری فکر کے ثبوت دیئے ہیں ۔اور زندگی کی حقیقتیں اجاگر کی ہیں ۔زندگی کی تلخیوں کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں ۔۔۔‌

خوشی کی زندگی کتنی ! خوشی کی جستجو کب تک 
جہان رنگ و بو میں ، رنگ و بو کی آرزو کب تک 


ہوتے ہوتے ہم جو بوسیدہ ہوۓ 
زندگانی نے ہمیں پہنا بہت 


کہا جاتا ہے کہ زندگی بہت خوبصورت ہے ۔ لیکن جب  تب ہم اسے ہر حال میں قبول کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کی خواہشات، اس کی آرزوئیں ہر وقت سر اٹھاتی رہتی ہے۔ اسی لیے انسان کی جینے کی خواہش دم نہیں توڑ تی۔ اور شاید اسی لیے وہ ہر شکست کے بعد ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ زندگی کے سفر پر رواں دواں ہونے لگتا ہے ۔ اسی لیے نقیب صاحب فرماتے ہیں ۔۔۔۔


آرزوئیں اڑان بھرتی ہیں 
یہ پرندے تھکا نہیں کرتے 

آرزوئیں تو ہیں بے حد و حساب
زندگی بھی چاہئیے ارمان بھر 


نقیب صاحب ایک درد مند دل  اور حساس طبیعت کے مالک ہیں ۔ آپ خلوص و محبت اور ہمدردی و شفقت کا پیکر ہیں۔ اسی لیے آپ کی شاعری بھی انسان دوستی کے جذبے سے معمور ہے۔ 

سب سے مسکراہٹ لیں ، سب کو مسکراہٹ دیں
شئے یہی گراں مایہ شے یہی تو سستی ہے


ہنگامۂ انوار میں ظلمات نہ بھولوں
مٹی مری کہتی ہے کہ اوقات نہ بھولوں


چونکہ نقیب صاحب جمالیاتی ذوق رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے ظاہری حسن کی تخلیق پر بھی اپنی قلم کو جنبش دی ہے۔ 



نظروں میں سجی ہے رنگولی سی 
یاد آگئی ہے صورت وہ بھولی سی 

ہونٹ گلابی بتیاں کومل کومل 
دانت اک دانی لڑیاں چار ولی سی 

اسی طرح وہ اپنے پیکر حسن کو اس کی خوبصورتی کا احساس دلاتے ہوۓ فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔


اہل محفل کی بے خودی دیکھی 
آپ نے آئینہ نہیں دیکھا 


جہان نقیب صاحب کی شاعری جمالیاتی حس سے پر ہے وہیں اس میں درد و رنج کی کسک بھی پائی جاتی ہے۔ 


حال دل کیا پوچھتے ہو
جیتے جی کا رونا ہے



نقیب صاحب ایک دور اندیش ، فکر مند اور قوم و ملت کی اصلاح کے پاس دار شخص ہیں۔ جدت پسندی کی لہر نے کس طرح نئی نسل کو بر بادی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے یہ ان کی ژرف نگاہی  سے چھپ نہیں پایا ہے۔ سچ کا نقاب پہنے ہوۓ جھوٹ کا بول بالاکرنے والوں کو وہ خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ خلوص و ہمدردی کی آڑ میں اپنا مطلب نکالنے والے بھلا کہاں پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے وہ کہتے ہیں۔۔۔۔


ہر ایک شخص بنا ہے خلوص کا پیکر 
یہاں کہاں کوئی چہرہ ریا کا لگتا ہے 


دوستی کے نئے آداب لیے پھرتے ہیں 
لوگ اب عطر میں تیزاب لیے پھر تے ہیں 


جو سچ کے نام کی تکرار کرنے والا ہے 
وہی تو اب جھوٹ کا بیوپار کرنے والا ہے 


ان اشعار سے صاف ظاہر کہ وہ ان کا مشاہدہ بہت دقیق ہے۔ اپنے تجربات کی روشنی میں انھوں نے آج کے ماحول کی بے حسی کو دیکھا ، جانا اور سمجھاہے۔ اسی لیے وہ  انسان دوستی ، محبت مساوات و بھائی چارہ کے فروغ پر زور دیتے نظر آتے ہیں ۔ 

بے حسی ، بے حیائی کی سرحد پہ ہے
چشم احساس کو با حیاء کیجیے 


اس طرح کتاب کا یہ حصہ رہنمائی ، اصلاح اور تر بیتی جواہر سے لبریز اور اخلاقی پھولوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ ان کے بعد " قطعات " پر مشتمل کتاب کا تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے ۔یہ قطعات زندگی کی سچائی کو پیش کرتے ہیں۔ اور ہمیں اتحاد و تمدن کا درس دیتے ہیں۔ ان کی شاعری تضیع اوقات اور فکر و فن کو بے ہودہ باتوں کی آما جگاہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ اپنے شعر و سخن کے ذریعے ایک تعمیری ذہن اور معیاری فکر قائم کرنا چاہتے ہیں۔ دور جدید کو سمجھتے ہوۓ انھوں نے اپنی سخنوری کے ذریعے اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور زمانے کو دیکھنے کا زاویہ دیا ہے ۔ جس کی جھلک ان کے قطعات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ بیٹی کی عظمت کو اس کے ماں باپ اور سسرال  میں اجاگر کرتے ہوۓ فرماتے ہیں ۔۔۔


سچ تو یہ ہے نور و ضیاء دیتی ہے خوشبو 
سسرال کی ہر شے میں بسا دیتی ہے خوشبو 
ماں باپ کے گلشن کی مہک ہوتی ہے بیٹی 
جاتی ہے تو گلشن کو رلا دیتی ہے خوشبو


کتاب کے آخری حصے میں چند نظمیں دی گئی ہیں ۔ آپ نے اپنی نظموں میں جن عنوانات کو منتخب کیا ہے ، ان میں' نئی صبح' کی آمدکی سر گوشیاں سنائی دیتی ہیں. ' بیتے پل' انسان کی زندگی کا بہترین اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن ان پلوں کی تاریکی کو' دامن شب' چاک کرتی ہوئی 'بوۓ گل 'کی مانند انسان خدا کی' فیاضی' کے ساتھ اپنی 'منشاؤں' کو حاصل کر نے کے لیے پھر سے کمر بستہ ہوتا ہے۔ ان نظموں میں ہمیں زندگی کی رمق دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ تر نظمیں شخصیت پر لکھی گئی ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں ۔ بلا شبہ نقیب اپنے نام کی طرح بہت فصیح جذبات رکھتے ہیں جو  ان کی تمام نظموں سے عیاں ہوتے ہیں۔ 


ماہنامہ اقراء کا تازہ شمارہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

فصیح اللہ نقیب صاحب ایک مشاق قلم کار اور کہنہ مشق شاعر ہیں۔ آپ بیک وقت ایک بہترین نثر نگار اور شعر و سخن دونوں میدانوں کے شہسوار ہیں۔' اشک موتی کروں 'میں آپ نے واقعی اشکوں کو موتی کرنے کا ہنر سمو دیا ہے۔آپ کی زبان اور شاعری کی دیگر باتوں پر کچھ کہنا دریا کو کوزے میں بند کرنا کے مصداق ہے۔ اللہ کریم نے آپ کے فن میں کمال عطا کیا ہے ۔ دنیاے ادب آپ کی گراں قدر خدمات کا قدردان رہے گا۔ 

حاصل نہ کر سکو گے کتابوں سے کوئی فن 
اللہ گر نہ صحبتِ اہل کمال دے

★★★★★


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.