از : حسین قریشی، بلڈانہ
"احمد
بھائی!!!۔۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جن مہمانوں کو میرے گھر بھیجا تھا۔ انھوں
نے میری لڑکی نازنین کو پسند کرلیا ہے۔ ہمیں بھی لڑکا پسند ہے۔ اب شادی کی تاریخ
طے کرنے کے لئے دو دنوں بعد وہ گھر آنے والے ہیں۔" ناظم نے اپنے دوست احمد کو
مسرت بھرے انداز میں کہا۔ ارے واہ !!!.... "تم نے یہ بہت اچھی خبر سنائی ہے۔
دراصل میں کچھ دنوں سے ناگپور گیا ہوا تھا۔ اس لئے ان سے ملاقات نہیں ہوپائی۔ اچھا
یہ بتاؤ شادی کی تاریخ کا کچھ مشورہ ہوا کہ کب کرنا ہے؟" احمد نے پوچھا۔
"شادی
مئی کے مہینے میں کرنا ہے۔ ابھی چار مہینے باقی ہیں۔ اس حساب سے ان سے مشورہ کرکے دن اور تاریخ طے کرلینگے۔ تم بھی تشریف لانا۔" ناظم نے
کہا۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ میں تو ضرور آؤنگا۔ کچھ ضرورت ہوتو مجھے بلا جھجھک بتاںا۔ تسلیم
میرا قریبی دوست ہے۔ ہم دونوں کا بچپن ساتھ ساتھ گزرا ہے۔ ہمارے گاؤں میں ان کا
پہلا گھرانہ ہے جو تعلیم یافتہ ہے۔ دین دار گھر ہے۔ معاشی اعتبار سے اوسط درجہ
رکھتے ہیں۔ انکا لڑکا عرفان بااخلاق اور فرمانبردار ہے۔ تسلیم بھائی خود دار آدمی
ہے۔ انکی جہیز وغیرہ کی کوئی فرمائش نہیں رہےگی۔ وہ فارماسِسٹ ہے۔ ابھی کرایے کی
دوکان میں میڈیکل چلا تا ہے۔ مگروہ شادی سے پہلے خود کی دوکان خرید ںے کی چاہ
رکھتا ہے۔ " احمد نے ناظم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ واہ!!!! "یہ تو بہت اچھی
بات ہے۔ ناظم نے کہا۔
ناظم اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی
سلطانہ سے وہ تمام باتیں شئر کی جو احمد نے انہیں بتائی تھی۔ یہ سن کر انکی سلطانہ
بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا "یہ۔۔۔ تو بہت اچھی بات ہے۔ ورنہ آج کل تو لڑکے والے
جہیز کی فرمائش میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ تم نے دیکھا ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
نا۔ عابدہ باجی کی لڑکی کی شادی میں کیا کیا چیزیں دی گئی تھی۔ شادی کے بعد معلوم
ہوا کہ سب بڑی بڑی چیزوں کی فرمائش لڑکے کی ماں نے خود کی تھی۔ کھانا کے پکوان اور
منڈپ کا ڈیکوریٹشن سب پہلے سےہی طے کیا ہواتھا۔ کتنا روپیہ فضول خرچ ہوا اسکا اندازہ
نہیں۔"
ہاں
۔۔۔۔۔۔ تم بالکل درست کہتی ہو۔ پورے گاؤں میں اس بات کی چرچا ہوئی تھی۔ خیر اللہ
تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہماری بیٹی کے لئے عزت دار, شریف اور تعلیم یافتہ اچھا گھرانہ
ملا ہے۔ ناظم نے دونوں ہاتھ اٹھا کراوپر دیکھتے ہوئے کہا۔ سلطانہ نے کہا " تم
نے بتایا کہ عرفان میڈیکل اسٹور کے لئے خود کی دوکان لینا چاہتا ہے۔"
ہاں!!!۔۔۔۔۔ ناظم نے جواب دیا۔ "میری ایک تجویز ہے۔ تم سمجھو اور اپنے ہونے
والے سمدھی جی کو سجمھاؤ تو بہت ہی اچھا ، پیارا اور مثالی کام ہوگا۔ اپنی بچی اور
ہونے والے داماد کا مستقبل روشن ہوگا۔ "ایسی کیا ۔۔۔۔۔ تجویز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تمھارے دماغ میں بتاؤ۔۔۔۔۔ مجھے۔" ناظم نے تجسّسی انداز میں پوچھا۔
دیکھو۔۔۔
وہ جہیز کی فرمائش نہیں کر رہے ہیں۔ تو میرا مشورہ ہے کہ ہم انھیں، شادی سادگی میں
کرنے کے لئے کہتے ہیں۔ اگر وہ مان جاتے ہیں تو شادی میں ہونے والا جو فضول خرچ،
بچے گا۔ اس رقم کو ہم اپنے ہونے والے داماد کو میڈیکل اسٹور خرید نے کے لئے تحفہ
دے دینگے۔ ان کی مدد بھی ہو جائے گی اوراپنی بیٹی کا مسقبل بھی بہتر گزرے
گا۔" ارے!!!! واہ ۔۔۔۔ واہ…… بہت خوب کیا تجویز ہے تمھاری ۔۔۔۔۔۔۔ بہترین
۔۔۔۔۔ ناظم بہت خوش ہوا ۔۔۔۔۔۔ لیکن چند لمحے کے بعد وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ خاموش
ہوگیا۔۔۔۔۔۔ اور اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو تھوڈی سےلگا کر سر جھکائے کچھ سوچ میں گم
ہوگیا۔۔۔۔۔ سلطانہ نے پوچھا " کیا ہوا؟ کیوں خاموش ہوگئے ہو؟ ناظم
بولا۔۔۔ مگر ہم ان سے یہ بات کیسے کرسکتے
ہیں۔ ہمیں اچھا نہیں لگے گا۔ ان کے دماغ میں کچھ غلط خیال پیدا ہوگیا ۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔
گڑ بڑ ہوسکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ناظم نے آہستہ سے مفکرانہ انداز میں کہا۔
"تمھیں
اپنے ہونے والے سمدھی جی سے یہ سب نہیں کہنا ہے۔" سلطانہ نے کہا۔ " تو
پھر کیسے کہنا ہے؟ ناظم نے فوراً پوچھا۔ "تم احمد بھائی۔۔۔۔۔ کو یہ تجویز
بتاؤ ان سے مشورہ لو۔ وہ اپنے دوست کو سمجھا سکتے ہیں۔ ان کی مدد سے کام بن سکتا
ہے۔" سلطانہ نے ناظم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ارے!!!۔۔۔۔۔ ہاں تم
صحیح کہہ رہی ہو۔ یہ کام احمد کرسکتے ہیں۔ میں کل ہی ان سے ملاقات کرتا ہوں اور یہ
ان تمام باتوں پر مشورہ لیتا ہوں۔ اگر وہ مان گئے تو آگے کی بات وہی سنبھال لینگے۔
ناظم نے خوشی کہا۔
دوسرے دن ناظم نے
احمد صاحب سے ملاقات کی اور تفصیلی بات انہیں سنائی۔ احمد صاحب کچھ وقت خاموش رہے
اور ڈولے، " تم نے اچھا مشورہ دیا ہے۔ میں تمھاری بات سے متفق ہوں۔ میں کل ہی
تسلیم کے گھر جاتا ہوں اور انھیں حکمت و دانائی سے یہ بات سمجھاتا ہوں۔ مجھے پوری
امید ہے کہ وہ اس مشورے کو قبول کرینگے۔ میں ان سے بات ہونے کے بعد تمھیں اطلاع
دیتا ہوں۔" ناظم نے کہا ٹھیک ہے۔
دودنوں بعد احمد نے
ناظم کو بتایا کہ "میں نے آپ کی بات تسلیم سےکہی اور تسلیم نے اپنے گھر والوں
سے مشورہ کرکے بخوشی بتایا کہ اس مشورے سے بچوں کا مستقبل یقیناً روشن ہوگا۔ میرے
بیٹے عرفان کو بینک سےقرض نہیں لینا پڑیگا۔ جس وجہ سے سود کا کافی روپیہ بھی بچ
جائیگا۔ پوری آمدنی ہاتھوں میں آئے گی۔ جس کے سبب بچوں کی زندگی خوشگوار گزرے گی۔
شادی میں بڑے کھانے پر ہونے والا خرچ، غلط و فضول رسومات پر ہونے والے اخراجات بچے
گے۔
ہم شادی سادگی سے کرینگے۔ بس گھر کے ذمدار افراد باراتی بن کر آئینگے اور نکاح کرکے دلہن کو گھر لے آئیں گے۔" یہ سن کر ناظم بہت خوش ہوا اس نے سلطانہ سےکہا کہ "تمھاری تجویز کام کر گئی۔ فضول اخراجات سے یہ بہتر ہے۔ اس سے بچوں کی دنیا و آخرت دونوں آباد رہے گی۔" سلطانہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ "اللہ تیرا شکر ہے۔ شادی میں فضول اخراجات سے کچھ حاصل نہیں ہے.