از : محمد شاہد اجمل
وہ کرتا بھی کیا؟ ۔۔۔۔دل کے ہاتھوں مجبور تھا ۔نفیسہ جو کہتی اسے ماننا ہی پڑ تا ! پیسوں کی مانگ کرتی تو فوراََ پیسے دے دیا کرتا ۔ کپڑے کی فرمائش کرتی تو دیدہ زیب قیمتی کپڑے دلوا دیتا ۔ سالگرہ پر مہنگے موبائل قیمتی زیورات سب حاضر کردیتا۔ بس نفیسہ کے اشارے کی دیر تھی ۔نفیسہ تھی بھی بلا کی خوبصورت اوپر سے اس کی قاتلانہ ادائیں ۔جس راہ سے گزرتی، دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جأ تا۔ایسی خوبصورت حسینہ پر کسی کا دل کیوں نہ آ تا ۔وہ بھی دیوانہ ہو گیا۔۔حالانکہ شادی شدہ تھا، دس سال کی بیٹی بھی تھی ۔ بیوی بھی خوبصورت تھی۔جب بھی نفیسہ کا فون آٔتا وہ باولا ہو جاتا ۔اکثر وہ آفس سے کئی کئی دنوں کی چھٹیاں لے کر اس کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا ۔ پوری پوری تنخواہ اس پہ خرچ کر دیا کرتا ۔گورنمنٹ جاب تھی اچھی خاصی تنخواہ تھی ۔ ابھی تک اس کے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں تھا ۔مگر گھر میں تنگی اور پریشانی کی ابتدا ہو چکی تھی ۔وہ بیوی سے بے اعتنائی برتنے لگا تھا ۔ذرا ذرا سی بات پر چڑ جاتا، لڑنا جھگڑنا ۔بیٹی کی پڑھائی پر دھیان نہ دینا۔ پھر بھی زندگی گذرتی رہی ۔وہ دیر رات گئے گھر آتا، اکثر کھانا نہیں کھاتا۔نہ بیوی، بیٹی کی کوئی خیر خبر لیتا ۔ جتنا وقت گھر پر گزارتا ۔ اپنی الجھنوں میں پڑا رہتا ۔گھنٹوں موبائل میں لگا رہتا ۔بیوی صبر والی تھی ۔شوہر کی ساری باتیں نظرانداز کرتی رہی ۔مگر کب تک ،اب تو پانی سر سے اوپر چلا گیا تھا۔دودھ والے، کرانہ والے، کام والی بائی، دھوبی وغیرہ وغیرہ سب کے پیسے رکے ہوئے تھے ۔۔کرانہ والے نے آج سامان دینے سے صاف انکار کر دیا ۔وہ تو شکر کہ ساس ، سسر کی پینشن تھی۔ اسی میں گزر بسر ہو رہا تھا ۔
ماہنامہ اقراء کا تازہ شمارہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے
وہ نفیسہ پر دل کھول کر پیسے خرچ کر رہا تھا ۔شہر سے کچھ فاصلے پر اس نے نفیسہ کے لئے ایک اچھا مکان بھی خرید لیا تھا ۔اکثر اس کی راتیں وہیں بسر ہوتیں ۔ نفیسہ بھی اس کے ساتھ ہی رہنے لگی تھی ، حالانکہ اب تک دونوں نے شادی بھی نہیں کی تھی ۔جب بھی وہ اس سے شادی کے لیے کہتا وہ کچھ نہ کچھ بہانہ کر دیتی مگرالگ الگ طرح سے اس سے پیسے ضرور اینٹھتے رہتی ۔دوپہر کا کھانا اکثر وہ نفیسہ کے ساتھ ہی کھایا کرتا ۔
ایک دن اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی ۔ بیٹی نے پہیلی دفعہ اپنے باپ سے کوٹی فرمائش کی تھی ۔مگر وہ سارے پیسے نفیسہ پر برباد کر چکا تھا ۔اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی بیٹی کی فرمائش پوری کر سکے ۔سالگرہ کے دن وہ بے صبری سے اپنے ڈیڈی کا انتظار کر رہی تھی ۔اخر رات میں باپ کیک لے کر گھر پہنچا ۔ماں اور بیٹی دونوں خوش ہو گئے ۔بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے کہا ۔بیٹا آپ کو گاڑی ہم اگلے سال دلا دیں گے ۔یہ سن کر بیوی کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا ۔وہ کہنے لگی آجکل آپ ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے ۔آپکی تنخواہ بھی اچھی خاصی ہے، مگر پیسہ کہاں جاتا ہے پتہ نہیں ۔لوگوں نے ہمیں کرانہ دینا بند کر دیا ۔کام والی بائی کام چھوڑ کر چلی گئی۔بیٹی نے زندگی میں آپ سے کچھ فرمأئش کی وہ بھی آپ نے پوری نہیں کی۔۔ اتنا سننا تھا کہ اس کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔تنتنا کر اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔رات کے گیارہ بج چکے تھے ۔اس نےگاڑی اٹھائی اور سیدھا نفیسہ کے گھر پہنچ گیا ۔ نفیسہ کے گھر کا دروازہ اندر سے بند تھا ۔ اندر روشنی کم تھی، ہلکی ہلکی فلمی گانے کی آواز آرہی تھی ۔اس نے کال بیل کئی بار بجائی مگر کوئی نہیں آیا ۔اسے روم میں نفیسہ کے علاوہ کسی اور کی موجودگی کا احساس بھی ہو رہا تھا۔۔نفیسہ سے مل کر سکون حاصل کرنے کی نیت سے آیا تھا۔وہ پہلے ہی اپنی بیوی سے غصے میں تھا یہ منظر دیکھ کر اور زیادہ غصے میں آگیا۔وہ بے تحا شہ دروازہ پیٹنے لگا نفیسہ ! نفیسہ ! کہہ کر چلانے لگا ۔کافی دیر بعد نفیسہ نے جھومتے ہوئے دروازہ کھولا ۔وہ شراب کے نشے میں دھت تھی ۔اس کی یہ حالت اس نے پہلی بار دیکھی تھی ۔خوشبو سے اس کا سارہ بدن مہک رہا تھا۔بال بکھرے ہوئے چہرے کا میک اپ پھیلا ہوا تھا ۔بیڈ روم میں نظر پڑی ۔ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نشے میں برہنہ اس کے بیڈ پر مستی میں چور پڑا ہوا تھا ۔یہ سب منظر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گیے، نفیسہ بے خوف اس کے سامنے کھڑی تھی ۔اس نے نفیسہ کے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا ۔جب دوبارہ مارنے کی کوشش کی تو نفیسہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور چیخ کر کہنے لگی ۔خبردار اگر تم نے دوبارہ ہاتھ اٹھایا ۔۔میں تمہاری بیوی یا لونڈی نہیں۔میں ایک آزاد عورت ہوں اور اپنی مرضی کی مالک ہوں ۔مجھے صرف دولت سے پیار ہے ۔میں اپنے بدن کی خود مالک ہوں ۔مجھ پر دولت خرچ کر کے کؤی بھی اسے حاصل کر سکتا ہے ۔ اس خوش فہمی میں نہ رہنا کے آپنے مجھے خرید لیا ہے اور ہاں یہ مکان بھی میرے نام پر ہے اور میری ملکیت ہے ۔
رخسانہ نازنین کا افسانہ انصاف پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے
آپ نے مجھ پر جو خرچ کیا وہ سب وصول کر چکے ہو۔ مجھے معلوم ہے آپ نے بھاری قرض لے رکھا ہے ۔ آپ کا مکان گروی ہے - آپ آفس سے اپنا سارا فنڈ نکال چکے ہیں اور آپ کی بےضابطگی اور غیر حاضری کی بنا پر آپ کو نوکری سے برخاست کیا جا چکا ہے ۔ مسٹر ! آپ پوری طرح کنگال ہو چکے ہیں اور مجھے کنگلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اب آپ یہاں سے دفع ہو جائیے ۔ نفیسہ بولے جا رہی تھی اور وہ خاموش سے سن رہا تھا ۔ نفیسہ نے اسے زور کا دھکا دیا اور دروازہ بند کر لیا ۔