از : الماس کبیر جاوید
جو حوصلہ ہے جواں اپنا، رہگزر کیا ہے
مصیبتوں میں نہ گزرے تو وہ سفر کیا ہے؟
شفق کا رنگ افق پر سہانا ہے، لیکن
جو تیرے ساتھ نہ بیتے وہ سہہ پہر کیا ہے
ہے سایہ دار ، شکم سیر کر نہیں سکتا
گل و ثمر نہیں جس میں تو وہ شجر کیا ہے
ارادہ کر لیا جب ہم سے دور جانے کا
تو کھل کے کیوں نہیں کہتے ،اگر مگر کیا ہے ؟؟
ہمارے سر پہ جو چادر ہی آسماں کی ہے
ہم ایسے خانہ بدوشوں کو بام و در کیا ہے
سکوں کا ایک ہی پل زندگی کا حاصل ہے
پھٹے لباس میں خوش ہو تو مال وزر کیا ہے
ہمارے ہونے سے رونق سی تیرے شہر میں ہے
جو ہم نہیں ہیں تو پیارے ترا نگر کیا ہے