وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گیاِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پَلکوں پرکوئی برسات کی جَھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھیپُھول کی ایک پنکھڑی ہو گی
زُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پرچاندنی سے صبا لڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو! ہُشیارراہ میں زندگی کھڑی ہو گی
کیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہےجاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گی
التجا کا ملال کیا کیجئےان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔزندگی کی کوئی کڑی ہو گی********
وہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں********
وہ بلائیں میں تو کیا تماشا ہوہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والےڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہےہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پرمسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہمبھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو********
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیںفرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میںلگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیںاٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیںجنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیںحقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں ********
بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیےتم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیںمنزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتامیں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے
نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سےاشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے
گُم صُم کھڑی ہیںدونوں جہاں کی حقیقتیںمیں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیے
ساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کیبہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے
(ساغر صدیقی)
وقت کی عُمر کیا بڑی ہو گی
اِک تیرے وصل کی گھڑی ہو گیدستکیں دے رہی ہے پَلکوں پر
کوئی برسات کی جَھڑی ہو گیکیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پُھول کی ایک پنکھڑی ہو گیزُلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گیاے عدم کے مسافرو! ہُشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گیکیوں گِرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کِسی پھول کی اَڑی ہو گیالتجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے دَر پر کہیں پڑی ہو گیموت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہو گیوہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغرؔ
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
********وہ بلائیں میں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغرؔ
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو
********متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہار نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں
********بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیےمنزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیےمیری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا
میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیےنغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے
اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیےگُم صُم کھڑی ہیںدونوں جہاں کی حقیقتیں
میں اُن سے کہہ رہا ہوں مجھے یاد کیجیےساغر کسی کے حُسنِ تغافل شعار کی
بہکی ہوئی ادا ہوں مجھے یاد کیجیے(ساغر صدیقی)