روبرو
◾میزبان:- اطہر کلیم انصاری
◾مہمان :- محترم احمد صفی صاحب
⚫اطہر کلیم:- السلام علیکم محترم.... سب سے پہلے تو معذرت خواہ ہوں کہ یہ انٹرویو تو آپ کا ہے مگر اسمیں لاکھ کوشش کے باوجود بار بار محترم ابنِ صفی کا تذکرہ آتا رہے گا...
◼احمد صفی صاحب:- میرے لیے باعثِ اعزاز کہ مجھے اس قابل سمجھا گیا کہ میری بات چیت سخن پارے پر شامل کی جائے۔ اس کے لیے میں شکر گزار ہوں
◼احمد صفی صاحب:- والد صاحب نے جب جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے تو ان کا قلمی نام دوستوں کی مشاورت اور جناب عباس حسینی صاحب کی سرپرستی میں ابن صفی تجویز کیا گیا۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کی دادا کا نام صفی اللہ تھا اس سے یہ نام نکالا گیا۔ ایسا با برکت نام لیا گیا تھا کہ آج تک اس کی گونج برقرار ہے۔ ابو کا اصل نام اسرار احمد تھا اور جب ان کی اولادیں ہوئیں تو لڑکوں کے نام اسی قافیے پر رکھے گئے۔ بالترتیب ایثار احمد، ابرار احمد ، اظہار احمد اور افتخار احمد۔
⚫اطہر کلیم:- جی اب آپ کیا اظہار کرسکتے ہیں... یا پھر یوں کہہ لیں کہ اب 'اظہار' آپ کیا کر سکتے ہیں...🤔 (مسکراتے ہوئے)
◼احمد صفی صاحب:- ابو نے ہم میں سے کسی بھی بہن بھائی پر کبھی کسی خاص شعبے میں جانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ تصنیف و اشاعت کے کاروبار کے معاملے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کامیابی کی سعادت بزورِ بازو نہیں لہٰذا ہم سب کو اپنے اپنے لیے خود کوئی کل وقتی پیشہ ورانہ سمت چننی چاہئیے اور زبان و ادب کی خدمت جز وقتی انداز میں کرنی چاہئیے۔ یقیناً یہ ایک والد کا اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خواہش کا قدرتی اظہار ہے۔ انہوں نے ہمیں اپنی راہوں کے تعین کی آزادی دی اور پھر معاون اور مددگار رہے۔ اسی لیے بھائی جان ایثار ڈاکٹر بن گئے، بھیا ابرار میرین انجنئیر، میں مکینیکل انجنئیر اور افتخار الیکٹریکل انجنئیر۔ مگر ادب سے ہم کسی نہ کسی طور جُڑے ہی رہے۔
⚫اطہر کلیم:- ابنِ صفی صاحب کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو...
⚫اطہر کلیم:- کس صنفِ سخن کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟
◼احمد صفی صاحب:- مجھے شاعری میں غزل اور نثر میں مختصر افسانہ بہت پسند ہے۔ اس کے علاوہ ادب کی ہر صنف سے دلچسپی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ہر صنف میں میں بھی کمال حاصل کر سکوں۔ فی الوقت یہ ایک خواب ہی ہے مگر والد گرامی نے خواب دیکھنے کی اہمیت کو ہمیشہ واضح کیا لہٰذا مجھے اس کے اظہار میں تامل نہیں۔ تعبیر بھی انہیں ہی ملا کرتی ہے جو خواب دیکھتے ہیں!
⚫اطہر کلیم:- بے شک بے شک... انھوں نے فریدی و عمران کے ذریعے ہمیں بھی نہ صرف حسین خواب دکھائے ہیں بلکہ خواب دیکھنے کی عادت ڈالی ہے... اور پھر انکی تعبیر کے لئے جدوجہد کرنا سکھایا ہے
بات پسند اور ناپسند کی نکلی ہے تو ایک سوال اور کرتا چلوں..... اکثر لوگ یہ سوال ابنِ صفی صاحب سے کرتے رہے ہیں میری بھی خواہش رہی کہ اگر وہ ہمارے درمیان ہوتے تو ان سے یہ سوال ضرور کرتا.... عمران یا فریدی...؟
◼احمد صفی صاحب:- پہلے تو اس سوال کا جواب دیتے ہؤے ہچکچا جاتا تھا مگر صاحبِ اولاد ہو جانے کے بعد سے اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے جواب۔ مجھ سے کوئی دوٹوک جواب طلب کرے ام ایمن یا اثمر تو میں فوراً کہوں گا دونوں! (یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے یہ دونوں میرے بیٹی اور بیٹا ہیں۔)
فریدی اور عمران ابو کی معنوی اولادیں ہیں اور ایک اولاد کو والدین کبھی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے بلکہ ہر ایک کے لیے دل میں وہی جذبات ہوتے ہیں۔ البتہ جس طرح ہر فرد میں کچھ خصوصیات منفرد ہوتی ہیں اور والدین بھی ان کا اظہار الگ الگ کیا کرتے ہیں اسی طرح فریدی اور عمران کا معاملہ بھی ہے۔ جب ابو کہتے ہیں کہ "فریدی ان کا آئیڈیل ہے" تو اس جملے کو یوں پڑھا کیجیے کہ "ان کا فریدی آئیڈیل" ہے۔ انہوں نے اس میں بہترین خصوصیات گوندھ دی ہیں- آئیڈیل یوں کہ شائد فی زمانہ ان تمام خصوصیات کا ایک شخص میں مجتمع ہونا مشکل نظر آتا ہے۔۔۔ لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔ فریدی سے ملتی جلتی خصوصیات اپنی تاریخ میں بہت سی شخصیات میں مل جاتی ہیں اور اگر ادب میں تلاش کریں تو نطشے کا فوق البشر (سپر مین) اور اقبال کا مردِ مومن سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ فریدی پر کون نہ مر مٹے گا-
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فریدی جیسا آئیڈیل سامنے آچکا تھا تو عمران کی کیا ضرورت تھی؟ ذرا غور کیجیے کہ اعلیٰ اقدار جن پر فریدی کاربند ہے عمران کی بنیادوں میں بھی وہی نظر آتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران فوق البشریت سے نیچے اتر کر بشریت کی حدود میں انہی اقدار کو نافذ کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی متنوع شخصیت میں کہیں نہ کہیں ہم آپ کو اپنی شخصیت کی جھلک نظر آہی جاتی ہے۔ بظاہر وہ لا ابالی اور کھلنڈرا ہی کیوں نہ نظر آئے کیا اس کی باتوں اور اس کی حرکتوں کے مضمرات ہماری شخصیت اور ہماری کردار سازی میں ممد و معاون نہیں ثابت ہوتے۔ جس دور میں عمران تخلیق کیا گیا اس کی ضرورت ایسے ہی کردار کی تھی کیونکہ نئی نسلیں جس تغیر سے گزر رہی تھیں ان کی توجہ ایسے ہی حاصل کی جاسکتی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ عمران ملینئیل نسل کی توجہ بھی حاصل کر لیتا ہے جو دلچسپ بات ہے۔
یقین کیجے ابن صفی کو اپنی دونوں معنوی اولادوں سے یکساں محبت تھی
⚫اطہر کلیم:- (ہنستے ہوئے) آپ نے پسند و ناپسند والی بحث ہی ختم کردی اور وقت کی بھی قلت ہے ورنہ میں تو 'قاسم و سلیمان'، 'سنگ ہی و جابر'، 'تھریسیا و نانوتہ' تک چلا جاتا.... پھر بھی دل نہیں مان رہا... پسند سے متعلق ایک سوال اور کردیتا ہوں....آپ کا پسندیدہ شاعر اور نثر نگار؟
◼احمد صفی صاحب:- اگر والد صاحب کا نام لے دیا تو پھر بات اقرباء پروری اور پدرم سلطان بود پر آجائے گی۔۔۔ وہ بہر حال میری پہلی پسند ہیں۔ ان کے علاوہ شعراء میں مجھے مرزا غالب بہت پسند ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے دور میں سمجھے نہیں جا سکے ۔۔۔ جو بات اقبال نے اپنے بارے میں کہی وہ غالب پر بھی صادق آتی ہے،
عصرِ من دانندہء اسرار نیست
یوسفِ من بہرِ ایں بازار نیست
نثر نگاری میں میری پسند مشتاق احمد یوسفی صاحب ہیں۔
⚫اطہر کلیم:- جی آپ کو اقرباء پروری جیسی باتوں کا ڈر ہے ورنہ ہم تو ببانگ دہل کہتے ہیں کہ شاعری میں اسرار ناروی، طنز و مزاح میں تغرل فرقان اور ناول نگاری میں ابنِ صفی ہی ہماری پہلی پسند ہیں😊
⚫اطہر کلیم:- موجودہ دور میں کون سا نثر نگار اور کون سا شاعر آپ کی نظر میں اپنے فن کی بلندیوں پر ہے؟
⚫اطہر کلیم:- ماشاءاللہ آپ ایک بہترین مبصر و ناقد بھی ہیں... اکثر و بیشتر آپ کے تبصرے پڑھتا ہوں اور ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے.... کیا آپ آج کے تنقیدی رویوں سے مطمئن ہیں؟
◼احمد صفی صاحب:- بھیا میں نے کبھی نقاد یا تبصرہ نگار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ کوئی اچھی تحریر نظر سے گزرتی ہے تو اس پر دل میں آنے والے خیالات ضرور رقم کرتا ہوں- جو تحریر میری سمجھ میں نہیں آتی اس پر تبصرے سے پرہیز کرتا ہوں مبادا وہ کوئی اوپر کی چیز ہو اور میری ناقص عقل کی پہنچ سے دور ہو۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تجریدی تحریروں پر بعید از فہم قسم کے تبصرے مجھ سے ہضم نہیں ہو پاتے۔ اور بعض اوقات جب کسی اچھی تحریر کی نقادوں کے ہاتھوں قطع و برید ہوتے دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس قسم کی تنقید تخلیق کے عمل کو روک دیتی ہے۔ لکھاری لکھتے وقت نقادوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور اپنی تخلیق کو ان کی قبولیت کے سانچے میں ڈھالنے لگتا ہے اور یوں قبولِ عام کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ جیسے صرف مشاعروں کا شاعر حاضرین کی واہ وا کے لیے شاعری کر نے لگ جاتا ہے۔۔۔
⚫اطہر کلیم:- آپ کی نظر میں ایک بہترین مبصر میں کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے؟
◼احمد صفی صاحب:- لکھ تو میں کسی بھی ماحول میں لیتا ہوں بس ڈر توجہ ٹوٹنے سے لگتا ہے۔ خیالات کا دھارا مڑ جائے یا ٹرین چھوٹ جائے تو واپس لانے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اس معاملے میں والد صاحب پر نہیں پڑا جو ہر ماحول میں ہر ہنگامے میں بغیر کسی تعطل کے لکھتے رہنے پر قادر تھے۔ میری دلی تمنا ہے کہ کبھی میں وہ مہارت حاصل کر پاؤں۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
⚫اطہر کلیم:- جی جی موبائیل نے جہاں کافی آسانیاں مہیا کی ہیں وہیں یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں قیمتی ڈاٹا ضائع نہ ہوجائے.... اور اکثر احباب اسکی شکایت بھی کرتے ہیں کہ اتنی غزلیں اور اتنے افسانے موبائل خراب ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے
الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادبی خدمات پر آپ کی کیا رائے ہے... کیا اسطرح بھی ادب کی ترویج ہو سکتی ہے؟
◼احمد صفی صاحب:- بھائی ہم آپ مانیں یا نہ مانیں ادب، خاص طور پر اردو ادب کی ترویج اب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ہی سے ہوگی۔ انسان آسانیوں کا عادی ہے اور ان کو جلد اختیار کرتا ہے۔ انسان نے ابلاغ کی ابتدا چٹانوں اور سِلوں پر اشکال و الفاظ کھود کر کی۔ پھر کھالوں اور درختوں کی چھالوں کا دور آیا۔ اگلا دور پیپیرس کا تھا اور پھر ہم کاغذ تک آ پہنچے۔ اس ترقی کی راہ میں ابلاغ عامہ کی آسانیوں کو ترجیح دی گئی ورنہ پتھر پر تحریر سب سے زیادہ محفوظ ہوتی تھی۔ اب برقی ذرائع ابلاغ کا دور ہے اور ہم اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تحریر و تصویر کی ترسیل اتنی آسان ہو چکی ہے کہ اب ہم بہت جلد کاغذ کی قید سے آزاد ہو جائیں گے۔ یاد کیجیے کہ آپ نے آخری بار تصاویر کھینچ کر فوٹو اسٹوڈیو سے دھلوا کر اسے پلاسٹک کی جیبوں والے البم میں لگا کر اپنے اعزا کو دکھایا تھا۔۔۔ اگر آپ نئی صدی کی پہلی دہائی میں پیدا ہوئے تو شاید آپ نے ایسا ہوتے دیکھا ہی نہ ہو۔ بس ایسے ہی اگلی نسل کتاب اور اس کی نشر و اشاعت کے موجودہ طریقوں سے نا بلد ہو گی اور اس کے لیے موبائیل ذرائع ہی سے کتاب پڑھنا ممکن ہوا کرے گا۔ اور مجھ جیسے لوگ دستخط شدہ کتابوں کو روتے رہیں گے۔
⚫اطہر کلیم:- جی محترم ہم تو بعض اوقات شکر ادا کرتے ہیں کہ نئی صدی کی پیداوار نہیں ہیں.... ورنہ نائنٹیز کے بچے آج جن یادگار کا ذکر کرتے ہیں ہم اس سے بھی محروم ہوجاتے
کوئی ایسا منصوبہ جس پر مستقبل میں عمل کرنا چاہتے ہوں...
◼احمد صفی صاحب:- میری دلی خواہش ہے کہ میں کبھی کوئی کتاب تحریر کر سکوں۔ کچھ آئیڈیاز ہیں میرے پاس اب صرف فرصت درکار ہے کہ میں ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکوں۔ ان میں ادبِ اطفال کے لیے بھی کچھ منصوبے ہیں کیونکہ مجھے اس میدان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دعا کیجے کہ میں ان خوابوں کو پورا کر پاؤں۔
⚫اطہر کلیم:- اللہ آپ کے تمام خوابوں کو پورا کرنے میں آپ کی مدد فرمائے... آمین ثم آمین
◼احمد صفی صاحب:- یہ آپ سب کی کرم فرمائی ہے کہ ابو کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی محبت سے نوازتے ہیں۔ پیغام تو رہنما اور فلسفی حضرات دیا کرتےہیں ہم تو بس فُل صفی ہیں۔۔۔ لہٰذا ایک صفی ہی کی بات دہرا دیتے ہیں:
گر رہا ہے تو کسی اور طرح خود کو سنبھالہاتھ یوں بھی تو نہ پھیلے کہ بنے دستِ سوال
◼احمد صفی صاحب:- آمین یارب العالمین... بارک اللہ فیہ۔۔۔ آپ کی محبت اور عنایت کے لیے ممنون