Type Here to Get Search Results !

روبرو ( احمد صفی صاحب سے خصوصی انٹرویو )

روبرو

◾میزبان:- اطہر کلیم انصاری
◾مہمان :- محترم احمد صفی صاحب




اطہر کلیم:- السلام علیکم محترم.... سب سے پہلے تو معذرت خواہ ہوں کہ یہ انٹرویو تو آپ کا ہے مگر اسمیں لاکھ کوشش کے باوجود بار بار محترم ابنِ صفی کا تذکرہ آتا رہے گا...

◼احمد صفی صاحب:- میرے لیے باعثِ اعزاز کہ مجھے اس قابل سمجھا گیا کہ میری بات چیت سخن پارے پر شامل کی جائے۔ اس کے لیے میں شکر گزار ہوں

اطہر کلیم:- یہ آپ کی انکساری ہے محترم.... اراکینِ سخن  پارے و گروپ انتظامیہ آپ کے بے حد مشکور و ممنون ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا....
ویسے تو آپ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں... مگر ہم نے کہیں پڑھا یا سنا تھا کہ آپ کے اور آپ کے برادران کے نام کے ساتھ جو لفظ "صفی" جڑا ہوا ہے اسکے پیچھے کوئی دلچسپ واقعہ ہے... واقعہ تو اب ہمارے ذہن میں نہیں ہے اگر آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں تو....

احمد صفی صاحب:-  والد صاحب نے جب جاسوسی ناول لکھنے شروع کیے تو ان کا قلمی نام دوستوں کی مشاورت اور جناب عباس حسینی صاحب کی سرپرستی میں ابن صفی تجویز کیا گیا۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کی دادا کا نام صفی اللہ تھا اس سے یہ نام نکالا گیا۔ ایسا با برکت نام لیا گیا تھا کہ آج تک اس کی گونج برقرار ہے۔ ابو کا اصل نام اسرار احمد تھا اور جب ان کی اولادیں ہوئیں تو لڑکوں کے نام اسی قافیے پر رکھے گئے۔ بالترتیب ایثار احمد،  ابرار احمد ، اظہار احمد اور افتخار احمد۔

دادا اور والد اس واقعے کا ذکر بڑی دلچسپی سے کیا کرتے تھے کہ جب میاں اظہار احمد یعنی خاکسار کو دادا اسکول میں داخلے کے لیے لے گئے تو ہیڈمسٹریس کے پوچھنے پر میں نے نام احمد صفی بتایا۔ انہوں نے دادا سے تصدیق چاہی تو انہوں نے فوراً ہاں کردی۔ سوچا ہوگا کہ بیٹے نے تو قلمی نام کا حصہ بنایا پوتا اصل نام میں ان کا نام جوڑ رہا ہے۔ لہٰذا اسکول میں نام احمد صفی درج ہو گیا (اظہار وہیں موقوف ہو گیا!)  اب یہی نام چل پڑا۔ برادرِ بزرگ ڈاکٹر ایثار احمد نے روم ، اٹلی سے ایک مؤقر جریدے کے لیے نامہ نگاری شروع کی تو ایثار احمد صفی کے نام سے لکھا۔ بعد کو قانونی کارروائی کے ذریعے اپنا نام سرکاری طور پر ایثار احمد صفی کروایا جو ان کی بعد کی تمام اسناد میں نظر آتا ہے۔ سب سے چھوٹے بھائی افتخار کے لیے راستہ صاف تھا اور ان کا سکول میں نام ہی افتخار احمد صفی لکھوایا گیا۔ یوں سب کے ناموں میں صفی کا اضافہ ہو گیا سوائے ابرار بھائی کے جن کا نام اب بھی ابرار احمد ہی درج ہے مگر جب لکھتے ہیں تو شائع کرنے والے ابرار صفی ہی درج کرتے ہیں (داداگیری سے بچ نہیں سکتے!!! )
مگر اب یوں ہے کہ لوگ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ آپ کا نام ادھورا کیوں ہے بتایے میں کیا اظہار کر سکتا ہوں؟

اطہر کلیم:- جی اب آپ کیا اظہار کرسکتے ہیں... یا پھر یوں کہہ لیں کہ اب 'اظہار' آپ کیا کر سکتے ہیں...🤔 (مسکراتے ہوئے)

ماشاءاللہ آپ نے انجینئرنگ کی ہے... مگر کیا کبھی والد صاحب کی جانب سے یہ تقاضہ ہوا کہ انجینئرنگ نہ کرتے ہوئے اسرار پبلیکشن اور اس سے متعلق کاموں میں خود کو لگائیں

احمد صفی صاحب:- ابو نے ہم میں سے کسی بھی بہن بھائی پر کبھی کسی خاص شعبے میں جانے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ تصنیف و اشاعت کے کاروبار کے معاملے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں کامیابی کی سعادت بزورِ بازو نہیں لہٰذا ہم سب کو اپنے اپنے لیے خود کوئی کل وقتی پیشہ ورانہ سمت چننی چاہئیے اور زبان و ادب کی خدمت جز وقتی انداز میں کرنی چاہئیے۔ یقیناً یہ ایک والد کا اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کی خواہش کا قدرتی اظہار ہے۔ انہوں نے ہمیں اپنی راہوں کے تعین کی آزادی دی اور پھر معاون اور مددگار رہے۔ اسی لیے بھائی جان ایثار ڈاکٹر بن گئے،  بھیا ابرار میرین انجنئیر،  میں مکینیکل انجنئیر اور افتخار الیکٹریکل انجنئیر۔ مگر ادب سے ہم کسی نہ کسی طور جُڑے ہی رہے۔

اطہر کلیم:- ابنِ صفی صاحب کی زندگی کا کوئی خاص واقعہ جس نے آپ کو بہت متاثر کیا ہو...

احمد صفی صاحب:- ان کے واقعات تو بے شمار ہیں۔ یوں سمجھیے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ان کے قول ، فعل اور تحریر سے رہنمائی حاصل ہوتی رہی اور ہورہی ہے۔ ایک آدھ واقعہ ایسا ہے جس نے براہ راست میری زندگی کو متا ثر کیا ان میں سے ایک یہاں دہراتا ہوں:
ایک بار ابو گاڑی سے اتر رہے تھے اور میں سڑک پر بائسکوپ کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک ریڑھے پر  فلمی پوسٹرز کا شو ہوتا تھا جو عموماً ایک آنے میں اس وقت دیکھا جا سکتا تھا۔ آنکھیں ایک لینز سے لگا  دیتے تھے اور تماشا دکھانے والا باہر سے رسی کھینچ کھینچ کر پوسٹرز بدلتا رہتا تھا۔ ابو نے دیکھا کہ میں تماشے میں مصروف ہوں اور میرا چھوٹا بھائی افتی اور چھوٹی بہن محسنہ پاس ہی کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میں فارغ ہؤا تو ابو نے گھر میں آنے کا شارہ کیا۔ اندر آنے پر مجھ سے کہا کہ  تم نے اکیلے تماشہ دیکھنا کیسے گوارہ کیا کہ جب تمہارے بھائی بہن حسرت سے تمہیں دیکھ رہے تھے۔ میں نے عذر پیش کیا کہ میرے پاس ایک ہی آنہ تھا۔ انہوں نے کہا، " تب تو انہی کو دکھانا چاہیئے تھا۔" میری شرمندگی کا حال نہ پوچھیئے۔ اس کے بعد سے مجھے سبق ملا کہ اگر وسائل محدود بھی ہوں تو پہلے دوسروں کا خیال کرو پھر اپنی فکر کرو۔ بڑے ہونے پر میں نے سوچا کہ ابو کےلیے اس وقت کیا مشکل تھا کہ دو آنے جیب سے نکالتے اور افتی اور موشی کو بھی تماشہ دکھا دیتے مگر ایسا کرنے سے میری تربیت کا وہ موقع ہاتھ سے نکل جاتا جس نے میرا اندازِ فکر ہی بدل ڈالا۔ واضح رہے کہ وہ ہم بچوں کی جائز خواہشات اور تفریحات کا خیال بھی رکھتے تھے اور ان کے لیے خرچ بھی کرتے تھے۔

اطہر کلیم:- ماشاءاللہ ماشاءاللہ... یقیناً والدین کے لئے یہی وہ چھوٹے چھوٹے مواقع ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی اولاد کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑ سکتے ہیں...
الحمدللہ گھر کے ماحول کے ادبی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے مگر تخلیقی کام کا آغاز کب ہوا؟.... نیز آغاز شاعری سے ہوا یا افسانہ نگاری سے؟

احمد صفی صاحب:- میرے اپنے تخلیقی کاموں کی ابتدا پرائمری جماعتوں ہی سے ہو گئی تھی۔۔۔ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھ کر چُھپا دیا کرتا تھا۔ ایک کاپی ابو کے ہاتھ لگی تھی جس میں میں نے ایک سیکرٹ سروس کی کہانی لکھی تھی میں غالباً چھٹی جماعت میں تھا۔ انہوں نے بہت حوصلہ افزائی کی مگر میں نے کبھی شائع کرنے کے لیے کہیں نہیں بھجوائی۔ ماہنامہ دھنک کے ایک انٹرویو میں ابو نے کہا "میرے بچے میری ناولیں پڑھتے ہیں بلکہ ایک صاحبزادے احمد صفی تو لکھتے بھی ہیں دیکھیے ہمیں لفٹ کراتے ہیں کہ نہیں-" یہ خواب ان کی زندگی میں شرمندہء تعبیر نہ ہو سکا۔" سن انیس سو اسی کے اوائل سے میں نے شاعری میں بھی ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے تھے مگر فطری شرم ابو کو دکھانے سے مانع رہی۔ ان کے انتقال کے بعد جب ایک موقع پر اپنی والدہ کے اصرار پر اپنی شاعری ان کو سنائی تو وہ آبدیدہ ہو گئیں کہ تمہیں یہ تخلیقات ابو کو ضرور دکھانی چاہئیے تھیں۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ سن اسی کے بعد بھی میں لکھ لکھ کر ڈائریوں کی نذر کرتا رہا- سن انیس سو ستاسی آٹھاسی میں جب میں امریکہ میں زیر تعلیم تھا تو لندن میں مقیم میری افسانہ نگار خالہ محترمہ صفیہ صدیقی مرحومہ نے میری تخلیقات کو روزنامہ جنگ لندن، ماہنامہ اردو ادب لندن اور ہفت روزہ راوی بریڈفورڈ میں بھجوا کر مجھے منظر عام پر لا رکھا۔(اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے،  آمین۔) اس کے بعد سے اب تک کہیں نہ کہیں میرے افسانے اور غزلیں نظمیں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

اطہر کلیم:- کس صنفِ سخن کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟

احمد صفی صاحب:- مجھے شاعری میں غزل اور نثر میں مختصر افسانہ بہت پسند ہے۔ اس کے علاوہ ادب کی ہر صنف سے دلچسپی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ہر صنف میں میں بھی کمال حاصل کر سکوں۔ فی الوقت یہ ایک خواب ہی ہے مگر والد گرامی نے خواب دیکھنے کی اہمیت کو ہمیشہ واضح کیا لہٰذا مجھے اس کے اظہار میں تامل نہیں۔ تعبیر بھی انہیں ہی  ملا کرتی ہے جو خواب دیکھتے ہیں!

اطہر کلیم:- بے شک بے شک... انھوں نے فریدی و عمران کے ذریعے ہمیں بھی نہ صرف حسین خواب دکھائے ہیں بلکہ خواب دیکھنے کی عادت ڈالی ہے... اور پھر انکی تعبیر کے لئے جدوجہد کرنا سکھایا ہے

بات پسند اور ناپسند کی نکلی ہے تو ایک سوال اور کرتا چلوں..... اکثر لوگ یہ سوال ابنِ صفی صاحب سے کرتے رہے ہیں میری بھی خواہش رہی کہ اگر وہ ہمارے درمیان ہوتے تو ان سے یہ سوال ضرور کرتا.... عمران یا فریدی...؟

احمد صفی صاحب:- پہلے تو اس سوال کا جواب دیتے ہؤے ہچکچا جاتا تھا مگر صاحبِ اولاد ہو جانے کے بعد سے اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہے جواب۔ مجھ سے کوئی دوٹوک جواب طلب کرے ام ایمن یا اثمر تو میں فوراً کہوں گا دونوں!  (یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے یہ دونوں میرے بیٹی اور بیٹا ہیں۔)

فریدی اور عمران ابو کی معنوی اولادیں ہیں اور ایک اولاد کو والدین کبھی دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے بلکہ ہر ایک کے لیے دل میں وہی جذبات ہوتے ہیں۔ البتہ جس طرح ہر فرد میں کچھ خصوصیات منفرد ہوتی ہیں اور والدین بھی ان کا اظہار الگ الگ کیا کرتے ہیں اسی طرح فریدی اور عمران کا معاملہ بھی ہے۔ جب ابو کہتے ہیں کہ "فریدی ان کا آئیڈیل ہے" تو اس جملے کو یوں پڑھا کیجیے کہ "ان کا فریدی آئیڈیل" ہے۔ انہوں نے اس میں بہترین خصوصیات گوندھ دی ہیں- آئیڈیل یوں کہ شائد فی زمانہ ان تمام خصوصیات کا ایک شخص میں مجتمع ہونا مشکل نظر آتا ہے۔۔۔ لیکن یہ ناممکن بھی نہیں۔ فریدی سے ملتی جلتی خصوصیات اپنی تاریخ میں بہت سی شخصیات میں مل جاتی ہیں اور اگر ادب میں تلاش کریں تو نطشے کا فوق البشر (سپر مین)  اور اقبال کا مردِ مومن سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ فریدی پر کون نہ مر مٹے گا-

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب فریدی جیسا آئیڈیل سامنے آچکا تھا تو عمران کی کیا ضرورت تھی؟  ذرا غور کیجیے کہ اعلیٰ اقدار جن پر فریدی کاربند ہے عمران کی بنیادوں میں بھی وہی نظر آتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمران فوق البشریت سے نیچے اتر کر بشریت کی حدود میں انہی اقدار کو نافذ کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی متنوع شخصیت میں کہیں نہ کہیں ہم آپ کو اپنی شخصیت کی جھلک نظر آہی جاتی ہے۔ بظاہر وہ لا ابالی اور کھلنڈرا ہی کیوں نہ نظر آئے کیا اس کی باتوں اور اس کی حرکتوں کے مضمرات ہماری شخصیت اور ہماری کردار سازی میں ممد و معاون نہیں ثابت ہوتے۔ جس دور میں عمران تخلیق کیا گیا اس کی ضرورت ایسے ہی کردار کی تھی کیونکہ نئی نسلیں جس تغیر سے گزر رہی تھیں ان کی توجہ ایسے ہی حاصل کی جاسکتی تھی۔ مزے کی بات یہ کہ عمران ملینئیل نسل کی توجہ بھی حاصل کر لیتا ہے جو دلچسپ بات ہے۔

یقین کیجے ابن صفی کو اپنی دونوں معنوی اولادوں سے یکساں محبت تھی

اطہر کلیم:- ماشاءاللہ بڑی خوبصورتی سے آپ نے فریدی اور عمران کا فرق بتایا... اور ابنِ صفی صاحب کے نزدیک دونوں کا مقام کیا تھا یہ بھی واضح کیا... پسند پر ہی ایک اور سوال کرتا چلوں... آپ کو کون پسند ہے... فریدی یا عمران...؟

احمد صفی صاحب:- اگلا سوال پھر یہ مت پوچھ لیجیے گا،  ایثار،  ابرار یا افتخار؟ 😀😊
میرے حقیقی برادران کی طرح میرے معنوی برادران بھی میرے لیے یکساں پسندیدہ ہیں۔۔۔ عمران ہنستے کھیلتے. میری تربیت کرتا ہے اور فادر ہارڈ سٹون تو بہر حال فادر ہارڈ سٹون ہی ہیں!!!


اطہر کلیم:- (ہنستے ہوئے) آپ نے پسند و ناپسند والی بحث ہی ختم کردی اور وقت کی بھی قلت ہے ورنہ میں تو 'قاسم و سلیمان'،  'سنگ ہی و جابر'، 'تھریسیا و نانوتہ' تک چلا جاتا.... پھر بھی دل نہیں مان رہا... پسند سے متعلق ایک سوال اور کردیتا ہوں....آپ کا پسندیدہ شاعر اور نثر نگار؟

احمد صفی صاحب:- اگر والد صاحب کا نام لے دیا تو پھر بات اقرباء پروری اور پدرم سلطان بود پر آجائے گی۔۔۔ وہ بہر حال میری پہلی پسند ہیں۔ ان کے علاوہ شعراء میں مجھے مرزا غالب بہت پسند ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے دور میں سمجھے نہیں جا سکے ۔۔۔ جو بات اقبال نے اپنے بارے میں کہی وہ غالب پر بھی صادق آتی ہے،

عصرِ من دانندہء اسرار نیست
یوسفِ من بہرِ ایں بازار نیست

نثر نگاری میں میری پسند مشتاق احمد یوسفی صاحب ہیں۔

اطہر کلیم:- جی آپ کو اقرباء پروری جیسی باتوں کا ڈر ہے ورنہ ہم تو ببانگ دہل کہتے ہیں کہ شاعری میں اسرار ناروی، طنز و مزاح میں تغرل فرقان اور ناول نگاری میں ابنِ صفی ہی ہماری پہلی پسند ہیں😊

کل اور آج کے شعراء و ادباء میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں.... کیا وجہ ہے کہ آج کے دور میں کوئی اقبال، غالب، پریم چند، ابنِ صفی وغیرہ کی سطح پر نظر نہیں آتا؟

احمد صفی صاحب:- شعراء و ادباء آج بھی موجود ہیں۔ ہر دور کی اپنی روایات اور محرکات ہوتے ہیں جن کے زیرِ اثر ادب تخلیق پاتا ہے۔ میرے خیال میں قبولِ عام کی کسوٹی پر کسے جانے میں وقت لگتا ہے۔ اور جب تک ایسا ہو عموماً اچھا شاعر یا ادیب اپنا وقت پورا کر چکا ہوتا ہے اسی لیے شاید ہمیں مردہ پرستی کا طعنہ بھی سہنا پڑ جاتا ہے۔ بہت کم ادیب ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی ہی میں قبولِ عام حاصل کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاصرین کو پڑھا جائے اور ان کی تحریروں کا موازنہ کسی سے کرنے کے بجائے ان کو معیار کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ مجھے یقین ہے کو آپ کو اج بھی اچھے ادیب اور شاعر مل جائیں گے جنہیں شاید ہم آنے والے کل میں دریافت کر رہے ہوں

اطہر کلیم:-  موجودہ دور میں کون سا نثر نگار اور کون سا شاعر آپ کی نظر میں اپنے فن کی بلندیوں پر ہے؟

احمد صفی صاحب:- مجھے مطالعے کا بڑا شوق ہے اور میں کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ مصنفین اور شعراء کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔ کسی ایک نثر نگار یا ایک شاعر کا نام لینا زیادتی ہو گی اس لیے کہ مختلف اصناف ادب و سخن میں مجھے مختلف نام بلندی پر نظر آتے ہیں۔ میری پسندیدگی کی فہرست طویل ہے مگر چند نام لینا چاہوں تو مشتاق احمد یوسفی،  مستنصر حسین تارڑ،  خرم علی شفیق،  امجد اسلام امجد،  انور مسعود اور سعود عثمانی ان میں شامل ہوں گے۔

اطہر کلیم:- ماشاءاللہ آپ ایک بہترین مبصر و ناقد بھی ہیں... اکثر و بیشتر آپ کے تبصرے پڑھتا ہوں اور ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے.... کیا آپ آج کے تنقیدی رویوں سے مطمئن ہیں؟

احمد صفی صاحب:- بھیا میں نے کبھی نقاد یا تبصرہ نگار ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ کوئی اچھی تحریر نظر سے گزرتی ہے تو اس پر دل میں آنے والے خیالات ضرور رقم کرتا ہوں- جو تحریر میری سمجھ میں نہیں آتی اس پر تبصرے سے پرہیز کرتا ہوں مبادا وہ کوئی اوپر کی چیز ہو اور میری ناقص عقل کی پہنچ سے دور ہو۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تجریدی تحریروں پر بعید از فہم قسم کے تبصرے مجھ سے ہضم نہیں ہو پاتے۔ اور بعض اوقات جب کسی اچھی تحریر کی نقادوں کے ہاتھوں قطع و برید ہوتے دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس قسم کی تنقید تخلیق کے عمل کو روک دیتی ہے۔ لکھاری لکھتے وقت نقادوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے اور اپنی تخلیق کو ان کی قبولیت کے سانچے میں ڈھالنے لگتا ہے اور یوں قبولِ عام کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ جیسے صرف مشاعروں کا شاعر حاضرین کی واہ وا کے لیے شاعری کر نے لگ جاتا ہے۔۔۔

اطہر کلیم:- آپ کی نظر میں ایک بہترین مبصر میں کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہے؟

احمد صفی صاحب:- تنقید و تبصرہ ایک الگ مضمون ہے جس کے یقیناً اپنے اصول ہوں گے۔ میں اپنی تعلیم اور شعبے کے لحاظ سے اس سے نابلد ہوں لہٰذا اس پر میرے کہے کی سند نہ ہوگی۔ البتہ میں یہ جانتا ہوں کہ مبصر میں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔ بصارت اسے درست مشاہدے کی صلاحیت بخشتی ہے اور بصیرت اسے تحریر میں اتر کر اس کے حسن و قبح کا اندازہ لگانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے بعد مبصر کیسے تبصرہ کرتا ہے یہ اس پر منحصر ہے۔ وہ ایک اچھے لکھاری کی تعریف کر کے اس کو مزید اچھا لکھنے کی طرف راغب کر سکتا ہے اسی طرح کسی متوسط درجے کے لکھاری کی حوصلہ افزائی کر کے اور اس کی رہنمائی کر کے اسے بہتر تحریر اور ابلاغ کی طرف لا سکتا ہے-


اطہر کلیم:- ماشاءاللہ آپ نے ایک مبصر میں پائی جانے والی خوبیوں کو آسان الفاظ اور بہت اچھے انداز میں بیان کیا... یقیناً ہمارے قارئین کا اس سے بہت فائدہ پہنچے گا-
لکھنے کے لئے آپ کسی خاص ماحول کے پابند ہیں یا کسی بھی ماحول میں لکھ لیتے ہیں؟

احمد صفی صاحب:- لکھ تو میں کسی بھی ماحول میں لیتا ہوں بس ڈر توجہ ٹوٹنے سے لگتا ہے۔ خیالات کا دھارا مڑ جائے یا ٹرین چھوٹ جائے تو واپس لانے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اس معاملے میں والد صاحب پر نہیں پڑا جو ہر ماحول میں ہر ہنگامے میں بغیر کسی تعطل کے لکھتے رہنے پر قادر تھے۔ میری دلی تمنا ہے کہ کبھی میں وہ مہارت حاصل کر پاؤں۔

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ


اطہر کلیم:-  آج بھی آپ لکھنے کے لئے کاغذ اور قلم کا ہی استعمال کرتے ہیں یا اسکی جگہ اب 'کی بورڈ' نے لے لی ہے؟

احمد صفی صاحب:- کاغذ قلم تو بھائی کبھی کا جاتا رہا۔۔۔ مگر میں کوشش کر رہا ہوں کہ واپس اس پر آیا جائے۔ پچھلے دنوں کچھ مضامین اور اشعار ایک موبائیل کے خراب ہونے پر ضائع ہو گئے۔ جب مرمت کرنے والے نے پوچھا "صاحب ٹھیک تو ہو جائے گا مگر ڈیٹا ضائع ہو جائے گا،  کر دوں؟" تو ایسا لگا جیسے قتل کی اجازت مانگ رہا ہو۔

اطہر کلیم:- جی جی موبائیل نے جہاں کافی آسانیاں مہیا کی ہیں وہیں یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں قیمتی ڈاٹا ضائع نہ ہوجائے.... اور اکثر احباب اسکی شکایت بھی کرتے ہیں کہ اتنی غزلیں اور اتنے افسانے موبائل خراب ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئے

الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ادبی خدمات پر آپ کی کیا رائے ہے... کیا اسطرح بھی ادب کی ترویج ہو سکتی ہے؟

احمد صفی صاحب:- بھائی ہم آپ مانیں یا نہ مانیں ادب، خاص طور پر اردو ادب کی ترویج اب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا ہی سے ہوگی۔ انسان آسانیوں کا عادی ہے اور ان کو جلد اختیار کرتا ہے۔ انسان نے ابلاغ کی ابتدا چٹانوں اور سِلوں پر اشکال و الفاظ کھود کر کی۔ پھر کھالوں اور درختوں کی چھالوں کا دور آیا۔ اگلا دور پیپیرس کا تھا اور پھر ہم کاغذ تک آ پہنچے۔ اس ترقی کی راہ میں ابلاغ عامہ کی آسانیوں کو ترجیح دی گئی ورنہ پتھر پر تحریر سب سے زیادہ محفوظ ہوتی تھی۔ اب برقی ذرائع ابلاغ کا دور ہے اور ہم اس کے عادی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ تحریر و تصویر کی ترسیل اتنی آسان ہو چکی ہے کہ اب ہم بہت جلد کاغذ کی قید سے آزاد ہو جائیں گے۔ یاد کیجیے کہ آپ نے آخری بار تصاویر کھینچ کر فوٹو اسٹوڈیو سے دھلوا کر اسے پلاسٹک کی جیبوں والے البم میں لگا کر اپنے اعزا کو دکھایا تھا۔۔۔ اگر آپ نئی صدی کی پہلی دہائی میں پیدا ہوئے تو شاید آپ نے ایسا ہوتے دیکھا ہی نہ ہو۔ بس ایسے ہی اگلی نسل کتاب اور اس کی نشر و اشاعت کے موجودہ طریقوں سے نا بلد ہو گی اور اس کے لیے موبائیل ذرائع ہی سے کتاب پڑھنا ممکن ہوا کرے گا۔ اور مجھ جیسے لوگ دستخط شدہ کتابوں کو روتے رہیں گے۔

اطہر کلیم:- جی محترم ہم تو بعض اوقات شکر ادا کرتے ہیں کہ نئی صدی کی پیداوار نہیں ہیں.... ورنہ نائنٹیز کے بچے آج جن یادگار کا ذکر کرتے ہیں ہم اس سے بھی محروم ہوجاتے

کوئی ایسا منصوبہ جس پر مستقبل میں عمل کرنا چاہتے ہوں...

احمد صفی صاحب:- میری دلی خواہش ہے کہ میں کبھی کوئی کتاب تحریر کر سکوں۔ کچھ آئیڈیاز ہیں میرے پاس اب صرف فرصت درکار ہے کہ میں ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکوں۔ ان میں ادبِ اطفال کے لیے بھی کچھ منصوبے ہیں کیونکہ مجھے اس میدان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق کام کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دعا کیجے کہ میں ان خوابوں کو پورا کر پاؤں۔

اطہر کلیم:- اللہ آپ کے تمام خوابوں کو پورا کرنے میں آپ کی مدد فرمائے... آمین ثم آمین

ہمارے قارئین میں کچھ احباب نے آپ سے ہمیشہ ہی بہت کچھ سیکھا ہے نیز ابنِ صفی صاحب کو اپنا روحانی استاذ بھی مانتے ہیں جن میں ناچیز بھی شامل ہے،، ان کے لئے، نئے لکھنے والوں... نیز ہمارے دیگر قارئین کے لئے کوئی پیغام؟

احمد صفی صاحب:- یہ آپ سب کی کرم فرمائی ہے کہ ابو کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اپنی محبت سے نوازتے ہیں۔ پیغام تو رہنما اور فلسفی حضرات دیا کرتےہیں ہم تو بس فُل صفی ہیں۔۔۔ لہٰذا ایک صفی ہی کی بات دہرا دیتے ہیں:

گر رہا ہے تو کسی اور طرح خود کو سنبھال
ہاتھ یوں بھی تو نہ پھیلے کہ بنے دستِ سوال

اطہر کلیم:- بہت بہت شکریہ محترم کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا اور تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی... جزاک اللہ خیراً کثیرا
دعا ہے کہ اللہ آپ کے تمام منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں آپ کی مدد فرمائے.... اور آپ کے والد، محترم ابنِ صفی صاحب و دیگر تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے.... آمین ثم آمین

احمد صفی صاحب:- آمین یارب العالمین... بارک اللہ فیہ۔۔۔ آپ کی محبت اور عنایت کے لیے ممنون

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.