از : واجدہ تبسم ناصر
سمندر کا کوئی ساحل نہیں ہے
مرے وہ حال سے غافل نہیں ہے
محبت جرم ہے تو یہ بتا دے
تو کیا اس جرم میں شامل نہیں ہے
میں اک مدت سے رستہ چل رہی ہوں
مگر میری کوئی منزل نہیں ہے
یہ مجھ سے کہہ رہا ہے اک ستم گر
ترے سینے میں کوئی دل نہیں ہے
نہ ہو اب ذکر تیرا اس جہاں میں
کہیں ایسی کوئی محفل نہیں ہے
کہا ہے آج اس نے یہ، مرا دل
تمھارے پیار کے قابل نہیں ہے
جسے زندان میں رکھا تبسم
کہے مقتول وہ قاتل نہیں ہے