Type Here to Get Search Results !

غزل


از : ناز پراوائی، امراوتی


 ترے سینے میں سچّا دل نہیں ہے 

مری چاہت کے تو  قابل  نہیں  ہے


 اسی کی بے قراری  تو  نہ سمجھا

 تری یادوں  سے جو غافل نہیں ہے


بہت   مشہور  ہے    جو   اک سخنور 

وہ میری بزم  میں شامل  نہیں ہے


چڑھے ہیں  لوگ  اتنے  دار   پر کیوں؟

تو کیا اس شہر میں  عادل  نہیں ہے؟


مسافت  لے  کے پھرتا ہے سفر  میں 

تری قسمت  میں کیا منزل نہیں ہے


جو تیری  آستیں  میں پل  رہے ہیں

تو کیا سانپوں کا کوئی بل نہیں ہے؟


رکھوں کیا  اس سے میں امید کوئی

جو  میرے  دکھ میں بھی شامل ہے


لگائے  تہمتیں   کردار     پر   جو

تری  نظروں  میں وہ  جاہل نہیں ہے


صدائیں دے رہا ہے دشت میں جو 

وہ اک عاشق ہے بس ' سائل نہیں ہے


شمار اس  کا ہوا ہے ملزموں میں  

مگر وہ شخص تو قاتل نہیں ہے


سنو اے ناز  توڑو  اس  سے رشتہ 

غلط صحبت سے کچھ حاصل نہیں ہے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.