از : تبسم حجازی/ مرزا صہیب اکرام
کتاب کیا ہے۔کسی کے لئے بہترین دوست کسی کے لئے علم کا منبع اور کسی کے لئے جذبات کا اظہار تو کسی کے لیے تفریح کا ذریعہ ۔کتاب ایک ایسا جادوئی کھلونا ہے جو قاری کو دنیا بھر کی سیر کرا دیتا ہے۔قاری کتاب کے ساتھ زمانوں میں گھومتا ہے وہ ماضی میں جھانکتا ہے اور مستقبل کے موہوم پردے سے پرے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
کتاب اور پڑھنے کی اہمیت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ قران کی پہلی نازل ہونے والی پانچ آیتیں پڑھنے اور قلم سے متعلق ہیں ۔کتاب تو انسان کی ابتدا سے اج تک اس کے ساتھ ہے لیکن وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ کتاب نے بھی ارتقائی مراحل طے کیے ہیں۔آج کتاب جدیدیت کے جس دوراہے پر کھڑی ہے یہ سوال بار بار اٹھنے لگا ہے کہ شاید کتاب اپنی زیست کے آخری سانس لے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ کتاب کے ختم ہونے کا ماتم منانے میں مصروف ہیں۔یہ شعر آج کل کانوں سے بار بار ٹکراتا ہے۔
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
یہ اور اس قسم کے دوسرے اشعار آج کل خوب کہے جا رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پرنٹڈ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا اور کاغذ کی خوشبو کو محسوس کرنے کا لطف ہی الگ ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ آئندہ سالوں میں شاید کاغذ کا استعمال کم سے کم تر ہوتا جائے گا اور انسان درختوں پر رحم کھا کر کاغذ کے لئے درخت کاٹنا اور ماحول تباہ کرنا چھوڑ دے گا لیکن کتابوں کے خاتمے کا سوگ منانے والے شاید کتاب کی موجودہ شکل کو ہی کتاب سمجھتے ہیں اور انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر پرنٹڈ کتاب نہ رہی تو پڑھنا لکھنا ختم ہو جائے گا جبکہ پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کتاب کیا کیا رنگ بدلتی رہی ہے یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
انسان نے لکھنے کی شروعات تقریبا 3200 قبل مسیح میں میسو پوٹیمیا میں کی۔جب چکنی مٹی کی سلیٹوں پر نوکیلے اوزار سے کرید کر تصویری زبان میں باتیں نوٹ کی جاتی تھیں۔ اس وقت لکھنے کا مقصد چیزوں کی تعداد اور لین دین کا حساب رکھنے تک محدود تھا اگلے 2000 سالوں میں نوکیلے اوزار کی جگہ بیمبو سے بنے مثلث نما قلم نے لے لی اور لکھنا پڑھنا عالموں اور شاہی خاندان کی روایت بننے لگا۔اس کے ساتھ ہی زبان میں بتدریج بہتری آتی چلی گئی یہ ابتدائی شکل تقریبا اگلے 3000 ہزار سال تک رہی۔۔لکھنے کے لوازمات مختلف خطہ زمین پر الگ الگ رہے مصر میں جہاں پتھر پر سیاہی سے لکھا جاتا تھا وہیں چائنا میں جانوروں کی ہڈی پر ۔ روم اور یونان میں موم کی بنی تختیاں استعمال ہوتی تھیں۔لکھنے کے لئے کہیں لکڑی کے اور کہیں دھات کے قلم استعمال ہوتے تھے اور کہیں پرندوں کے پروں کا بطور قلم استعمال ہونا بھی عام تھا ۔
لیکن کتاب کو وجود میں آنے کے لئے ابھی کئی صدیاں اور درکار تھی لکڑی کے بلاک سے پرنٹگ کا طریقہ آٹھویں صدی عیسویں میں چائنا میں دریافت ہوا اور پہلی مکمل کتاب "ڈائمنڈ سترا " 11 مئی 868 عیسوی کو وجود میں آئی ۔اس کے بعد لکڑی کے بلاک کا استعمال تیرہویں صدی تک چلتا رہا جب کوریا میں دھاتی بلاک سے پرنٹنگ کی ابتدا ہوئی۔ یورپ میں یہ کام جرمنی میں پندرہویں صدی میں ہوا جب جوہانس گوٹینبرگ نامی سنار نے پہلی مکمل بائبل 1455 میں چھاپی جو آج بھی دنیا کی مشہور ترین بائبل سمجھی جاتی ہے ۔اس کے بعد انیسویں صدی میں آنے والا روٹری پریس اور پھر آفسیٹ پرنٹنگ کی تکنیک کتابوں کی دنیا میں ایک انقلاب سا لے آئی ۔
کتابیں چھاپنے کا بنیادی مقصد تو معلومات دوسروں تک پہنچانا تھا لیکن پرنٹنگ پریس نے خبروں کی ترسیل سے لے کر مظلوموں کی آواز لوگوں کو سنانے تک سارے کام کئے۔انگریزی فلاسفر فرانسس بیکن کے مطابق ..
"جن تین چیزوں نے دنیا کی شکل بدل دی. وہ گن پاؤڈر،پرنٹگ پریس اور کمپاس ہیں " ۔
کتابوں نے جہاں لوگوں کے سیاسی و سماجی شعور کو جلا بخشی وہیں سائنس اور انڈسٹری بھی کتابوں کے باعث مضبوط ہوئی۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں کتابوں کے ذریعہ سائنسی معلومات کے تبادلے نے آنے والے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔صنعتی انقلاب میں جہاں اسٹیم انجن کا رول اہم ہے وہیں پرنٹگ پریس کے کردار سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔۔سائنسی کتب اور معلومات کے تبادلہ نے یورپ اور امریکہ کو ترقی کے میدان میں باقی دنیا پر جو برتری دی وہ کئی صدیوں تک قائم رہی۔
16 ویں صدی میں یورپ میں پرنٹگ پریس اور ٹائپ سیٹ کی آمد کے بعد پرنٹنگ تکنیک انڈیا میں 1556 میں عیسائی مشنریوں کے ذریعہ پہنچی اور پہلی کتاب گوا میں شائع ہوئی ۔
ٹائپ سیٹ والی کتابوں کو اس دور کے حکمران اکبر کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا لیکن اکبر نے اسے ناپسند کیا کیونکہ اس چھپائی میں وہ خوش نویسی اور خوبصورتی نہیں تھی جو ہاتھ سے لکھے ہوئے دلکش مسودے میں ہوتی تھی۔اسی باعث برصغیر میں علم کی ترقی و ترویج کا ایک آسان ذریعہ بروقت رائج نہ ہو سکا۔
اس کے بعد جب برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور آیا۔اس وقت کمپنی کے ملازمین کے لیے ہندوستانی اور بنگلہ سیکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے ملازمین کے لیے ان زبانوں کی کتابوں کو رومن میں شائع کیا۔ان میں اردو کتب بھی شامل تھیں۔یہ رومن اردو میں چھپی ہوئی کتابیں اردو کی ابتدائی طبع شدہ کتابیں تھیں۔
چاریس ولیکنس 1750 میں برطانیہ سے ہندوستان پہنچا۔اس نے سب سے پہلے مالوہ میں انگریزی فیکٹری میں فارسی زبان سیکھی کیونکہ وہ اس وقت دربار کی زبان تھی۔اس کے بعد بنگلہ زبان میں مہارت حاصل کی۔لیکن ان زبانوں کے ٹائپ سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب کتابیں رومن میں چھپا کرتی تھیں۔
ولیکنس سول سروس کا ذہین اور علم دوست انسان تھا۔مقامی زبانوں میں دسترس حاصل کرنے کی خاطر اس نے مقامی زبانوں کے ٹائپ تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔اس نے اپنی تجویز گورنر جنرل وارن ہیسٹنگ کے سامنے رکھی۔ جس نے اس تجویز کو پسند کیا اور اس کام کا آغاز شروع ہوا۔
اس نے دھات کو گلانے ، صاف کرنے ، کھودنے ، ڈھالنے اور چھاپنے تک کے تمام کام خود سر انجام دئیے اور بالآخر سب سے پہلے بنگلہ کا ٹائپ تیار کیا اس کے بعد 1778 تک سنسکرت اور فارسی کے ٹائپ بھی تیار کر لیے۔
اسی سال 1778ء میں سنسکرت گرامر کی کتاب ناگری ٹائپ سیٹ میں ہگلی میں چھپی تھی۔ولیکنس کا فارسی ٹائپ اردو زبان کا پہلا نمونہ تھا ۔اس کے بعد ہندوستان میں اٹھارویں صدی کے اختتام اور انیسویں صدی کے آغاز میں چھپائی کا کام باقاعدہ شروع ہوگیا۔
عبداللہ یوسف علی کی تحقیقات کے مطابق اردو ٹائپ پر سب سے پہلے کلکتہ گزٹ کا پہلا نمبر 4 مارچ 1784ء کو چھپا ۔ اس میں ایک کالم فارسی ٹائپ کا تھا ۔ یہ غالباً ہندوستان میں پہلی فارسی ٹائپ کی چھپائی تھی ۔ اسی ٹائپ کی مدد سے 1829ء میں عبدالقادر دہلوی کا قران کریم کا اردو ترجمہ مع متن عربی اور اردو میں چھپا تھا ۔ اسی ٹائپ یا ایسے ٹائپ جو بعد میں اسی نمونے پر بنائے گئے تھے کلکتہ اور بنگال میں استعمال ہونے لگے۔ ان پر نہ صرف سرکاری قوانین اور ضوابط چھاپے گئے بلکہ کلکتہ کے ولیم فورٹ کالج اور انگلستان کے ہیلی بری کالج کی اردو کتابیں اسی ٹائپ میں چھاپی گئیں ۔ نیز سید احمد بریلوی اور مولوی کرامت علی کی کتابیں 1820ء تا 1837ء اسی ٹائپ میں چھپیں ۔
سنسکرت بنگالی اور دیگر زبانوں میں ٹائپ سیٹ چھپائی ہو رہی تھیں ۔ کیونکہ سنسکرت یا ناگری کی چھپائی کے لیے ٹائپ زیادہ موزوں تھا ۔ اس لیے ناگری میں کتابیں کثرت سے چھپیں ۔ اس سے دوسری دیسی زبانوں میں ٹائپ کا راستہ صاف ہوگیا ۔ 1787ء کے لگ بھگ جب ولیکنس نے ناگری ٹائپ ڈھالا تو وہ اس وقت تک سنسکرت زبان کا مستند عالم بن چکا تھا ۔ اس نے بھگوت گیتا کا انگریزی ترجمہ کیا ۔ جس کی وارن ہیسٹنگ نے بڑی تعریف کی اور کمپنی کے ڈائریکٹروں سے سفارش کی کہ اسے انگلیند میں شائع کریں ۔ چنانچہ 1787ء میں یہ انگلینڈ میں شائع ہوا اور اس کی بدولت انگریزوں کو پہلی بار سنسکرت سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔ 1836ء میں ولیکنس انگلستان واپس چلا گیا۔وہ وہاں بھی مشرقی علوم کی نشر و اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لیا اور بعد میں اسے سر کا خطاب ملا۔
ٹائپ کی ایجاد کے تین سو سال بعد 1796ء میں لیتھوگرافی یعنی پتھر کی چھپائی ایجاد ہوئی ، صرف چالیس سال بعد یہ ہندوستان پہنچ گئی اور پورے ہندوستان میں اردو کی چھپائی کے لیے مقبولیت حاصل کرلی ۔ اگرچہ ٹائپ کی چھپائی سستی ہوتی تھی اور اس کی غلطیاں درست کرنا آسان تھا ۔ لیکن اردو داں طبقہ نے ٹائپ کی طباعتی سہولت کے بجائے اردو کی چھپائی کے لیے خوشنویسی کی وجہ سے لیھتو یعنی پتھر کی چھپائی کو اختیار کیا ۔ جو کہ مہنگی ہوتی تھی اور اس میں غلطیاں زیادہ ہوتی تھیں ۔ لیتھو میں کاتب پتھروں کی سلوں پر الٹی لکھائی لکھتا تھا۔جس کی غلطیاں چھپنے کے بعد نظر ٓآتی تھیں ۔ اس کے باوجود ٹائپ کی چھپائی کو بھلا دیا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ کتابیں رنگ روپ بدلتی رہیں ہیں معلومات کی فراہمی ،خبروں کی ترسیل ، تبلیغ اور تفریح مختلف مقاصد کے لئے کتابیں رسائل میگزین کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔۔سولہویں صدی میں نیوز پیپر اور اٹھارہویں صدی میں پہلا امریکی میگزین شائع ہوا اس کے بعد سے تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آج تک اخبار رسالہ میگزین و دیگر کتابیں ایک مخصوص انداز میں کاغذ پر مختلف سیاہی سے چھاپے جاتے ہیں اور بیسویں صدی کی آخری نصف صدی میں پیدا ہونے لوگ صرف اسی کو کتاب سمجھتے اور مانتے ہیں ۔۔
برصغیر میں کمپنی اور پھر باقاعدہ برٹش راج کے خلاف عوامی سطح پر اخبار،رسائل مجلے شائع ہوتے رہے۔ایک طرف آزادی کا شعور جگانے کے لیے ہندوستانی زعما لیڈرز اور رہنما کتابوں اور جدید سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے تھے۔دوسری جانب انگریز سرکار اپنے پروپیگنڈے کے لیے بھی اسی ہتھیار کا سہارا لے رہی تھی۔مولانا آزاد کے الہلال سے لے کر ظفر علی خان کے زمیندار تک اخبار اور رسائل چھاپ رہے تھے دوسری جانب مذہبی کتب اور شعر و ادب کا مقامی لٹریچر بھی دھڑا دھڑ شائع ہو رہا تھا ۔یہ سب اس قدر زور و شور سے جاری ہوا کہ آزادی اظہار اور انسانی قدروں کی نام لیوا حکومت اخبارات اور رسائل کو اکثر بند کرنے کے درپے رہتی تھی ۔
تقسیم ہند کے بعد آج تک جدید کتاب چھاپنے کا انداز بھی بدل گیا۔وقت کے ساتھ ساتھ دنیا نے تو بہت جلد جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات کو قبول کر کے استفادہ کرلیا لیکن اس خطہ میں ہر تبدیلی کو ہمیشہ ہی دیر سے قبول کیا جاتا ہے۔
کتابوں کی دنیا میں آج تک کی آخری بڑی ایجاد 1971 میں سامنے ائی جب امریکہ میں مائیکل ایس ہارٹ نے ای بک ایجاد کی اور امریکہ کے دستور کو ای بک میں تبدیل کیا ۔۔اس پراجیکٹ کو امریکی ڈیفینس ڈپارٹمنٹ نے ٹیکساس انسٹرومنٹ کے ساتھ آگے بڑھایا اور 1993 میں Adobe نے پی ڈی ایف فارمیٹ متعارف کرواکے کتابوں کے ایک نئے جہاں کی بنیاد ڈالی ۔۔1998 میں امریکہ کی کچھ لائیبریریوں نے ای بک مہیا کرنی شروع کردی اور 2008 تک 66 فی صد لائبریریوں میں یہ سہولت دستیاب ہوگئی ۔ امریکہ کی پانچ بڑی پرنٹنگ کمپنیوں نے ، جن میں پینگوئن اور مک ملن شامل ہیں، اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ڈیجیٹل پبلشنگ کے بزنس کے بڑے حصہ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔
ای بکس کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھنے کے لئے خاص ریڈر بھی تیار ہونے لگے جنھیں کتاب کی طرح ہاتھ میں لے کر پڑھا جاسکے۔ای بک ریڈر کے تجربات تو 1930 سے ہورہے تھے لیکن قابل ذکر ای بک ریڈر سونی نے 2004 میں متعارف کروایا جو Sony Reader کا پہلا ورژن تھا اس کے بعد آمیزان نے 2006 میں Kindle متعارف کروایا جو ریلیز کے پانچ گھنٹے میں سولڈ آؤٹ ہوگیا تھا ۔2010 میں Apple نے آئی پیڈ متعارف کروایا جو ای بک ریڈر کے ساتھ کافی کچھ اور بھی کرسکتا تھا ۔
امیزان کی رپورٹ کے مطابق 2011 تک ان کی ای بک سیل پرنٹڈ کتابوں سے آگے بڑھ گئی اور 2012 میں پورے امریکہ میں ای بکس کی فروخت پرنٹڈ کتابوں سے زیادہ ہوگئی اور 2018 میں امریکہ اور یورپ میں پبلشنگ بزنس کا ایک بڑا حصہ ای بکس سے آنے لگا ۔۔برطانیہ کے ایک سروے کے مطابق 55 سال سے زائد عمر کے لوگ نوجوانوں سے زیادہ ای بک ریڈر استعمال کرتے ہیں۔
ای بک کی افادیت اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 2000 میں امریکی نیشنل لائیبریری آف میڈیسن نے اپنے لاکھوں آرٹیکل اور ٹیکسٹ بک ڈیجیٹل فارمیٹ میں مہیا کرنے شروع کردئیے ۔اس کے بعد آکسفورڈ پریس نے بھی اپنی کئی کتابیں ڈیجیٹل فارمیٹ میں مہیا کردیں۔2000 میں اسٹفین کنگ نے اپنا ناول "رائڈنگ دی بلیٹ" صرف آن لائن شائع کیا جو پہلا کمرشیل ای بک تھا اور شائع ہونے کے اڑتالیس گھنٹوں میں اس کی پانچ لاکھ کاپیاں بک گئیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ آرکائیو اور اوپن لائیبریری نے تقریبا ساٹھ لاکھ ای بکس فری پبلک کو مہیا کی ہیں ۔پراجیکٹ گیوٹین برگ نے 1923 سے قبل چھپنے والی تمام کتابیں جن پر کاپی رائٹ کا قانون نہیں لگتا ای بک کی شکل میں پبلک میں فری شئیر کردیں ۔
کتابوں کے علاؤہ اخباروں پر بھی ڈیجثل پرنٹنگ کا اثر نظر آنے لگا ۔۔پہلا ان لائن نیوز پیپر 1987 میں برازیل میں آیا اس کے بعد نوے کی دہائی امریکہ ،یورپ ،اسٹریلیا کے کئی اخبارات پرنٹڈ کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی شائع ہونے لگے۔ابتدا میں یہ فری ہوا کرتے تھے لیکن پچھلے دس سالوں میں بڑے اخبارات نے سبسکرپشن کے پیسے چارج شروع کردئیے اور آج کئی اخبارات پرنٹڈ کاپی سے زیادہ فیس آن لائن اخبار کی چارج کرتے ہیں کیونکہ یہاں خبریں فوری مہیا ہوتی ہیں۔
نوے کی دہائی سے ڈیجیٹل کتابوں نے دنیا میں اپنا اثر جمانا شروع کیا سرکاری غیر سرکاری طور پر کئی پراجیکٹس شروع کئے گئے جن میں فری یا مناسب داموں پر لوگوں کو ڈیجیثل کتابیں میسر ہوں لیکن برصغیر میں خاص طور پر اردو کے حوالے سے دیکھا جائے تو ای بکس کی آمد بیک ڈور سے ہوئی ۔
یہ اکیسویں صدی کا ابتدائی دور تھا جب پی ڈی ایف فارمیٹ میں کتابیں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اور ویب سائٹس پر ملنے لگیں۔ غیر قانونی طور پر کتابوں ،رسالوں اور ڈائجسٹوں کو سکین کرکے پی ڈی ایف میں شئیر کیا جانے لگا۔۔جس نے لوگوں میں ای بک کا ایک منفی تاثر پیدا کردیا کہ یہ کتابوں کے حصول کا غلط ذریعہ ہے ۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ای بک ایک مارڈرن طریقہ ہے کتابوں کو شئیر کرنے کا اور یہ آج کی ضرورت ہے اس بات کو ماننے ،سمجھنے اور اسے اڈاپٹ کرکے اس سفر میں شامل ہونے کی جگہ بر صغیر کے پبلشنگ ادارے ای بک کی مخالفت میں اٌٹھ کھڑے ہوئے ۔۔بجائے اس کوشش کے کہ لوگوں کو مناسب داموں میں ای بکس مہیا کی جاتی ای بک کے خلاف مہم چلائی جانے لگی اسے کتابوں کی موت سے تعبیر دیا جانے لگا۔
ای بک کا غیر قانونی استعمال قابل مذمت ہے اور دوسروں کی محنت کا استحصال بھی ۔نئی کتب اور رسالوں کو پی ڈی ایف میں بنا اجازت تبدیل کرنا جرم ہے لیکن وہ کتابیں جو کاپی رائٹس کی حدود سے نکل چکی ہیں یا قیمت کے باعث یا دستیابی میں مشکل ہونے کے باعث قاری کی پہنچ سے دور ہیں اور کسی لائیبریری یا بک اسٹور میں گرد کی تہوں میں چھپ گئی ان کو ای بک میں بدل کر لوگوں تک پہنچانا دراصل ان کتابوں اور رائٹرز کا حق ادا کرنا ہے ۔اج ڈیجیٹل بکس کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی ادب کی کئی کتابیں لوگوں کو میسر ہیں جن کے بارے میں چند سال پہلے تک لوگ شاید سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔۔۔اج سے بیس سال پہلے تک اردو کی بیشتر کتابیں اپنی قیمت کے باعث مخصوص طبقہ تک ہی محدود تھی آج ای بکس کی شکل میں وہ ہر خاص و عام تک پہنچ گئی ہیں ۔
کتابوں کی بہ نسبت اخبارات نے ڈیجٹل فارمیٹ کو بہتر انداز میں اڈاپٹ کیا ۔۔آج بر صغیر کے سبھی مشہور اخبار آن لائن موجود ہیں بلکہ کئی ایسے بھی ہیں جو صرف ان لائن موجود ہیں ۔ برصغیر میں بھی مغرب کی طرح کچھ آن لائن اخبارات کے لئے سبکریپشن پیکج آگئے ہیں خاص طور پر انگریزی اخبارات اس معاملہ میں آگے ہیں ۔اردو کے چند ہی اخبارات ابھی اس دوڑ میں شامل ہوئے ہیں ۔آن لائن چارجز کے علاؤہ اشتہارات کے ذریعہ ہونے والی آمدنی نے ان آن لائن اخباروں کو ایک منافع بخش اور پرنٹ کاپی کے مقابلہ میں آسان ذریعہ آمدنی بنادیا ہے ۔
خوش قسمتی سے یہ ٹرینڈ رسالوں میں بھی نظر آنے لگا ہے کئی ان لائن رسالہ اور میگزین شائع ہونے لگے ہیں بلکہ کئی رسالے تو صرف ان لائن ہی دستیاب ہیں اور ان کے قارئین کی بڑھتی تعداد یہ بتاتی ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ہاں اب بھی ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو ان آن لائن رسالوں کو پرنٹ میں دیکھنے کا خواہش مند ہے ۔
جب کہ ہمیں اس وقت ضرورت یہ سمجھنے کی ہے ڈیجٹل ریڈنگ ایک حقیقت ہے اور ہم جتنی جلدی اسے تسلیم کرلیں گے ہماری آنے والی نسلوں کے لئے آسانی ہوگی ۔ہمیں اردو میں موجود مختلف دینی کتب کے ذخائر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کس طرح انھیں ڈیجیٹل فارمیٹ میں تبدیل کرکے اس سے استفادہ کیا جائے۔درسی کتابیں اور ادب و شاعری سے متعلق کتابوں پر بھی دھیان دینا چاہیے ہے کہ انھیں کس طرح سے نئی ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جائے تاکہ ہم دنیا سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔
دو سال پہلے اچانک کرونا نے لوگوں کو گھروں میں قید کرکے طلبا کو اسکول اور کالجوں سے دور کردیا تھا ایسے دور میں ان لائن کلاسز ، ڈیجیٹل ٹیکسٹ بکس ہی تھیں جنہوں نے بچوں کو تعلیم سے مکمل دور نہیں ہونے دیا ۔
سولہویں صدی سے اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران پرنٹٹگ ہریس کی دریافت نے امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں جو برتری دی تھی وہ آج تک قائم ہے اور جب پرنٹگ سے بات ڈیجیٹل بکس پر آئی تب بھی ان ممالک نے پوری پلاننگ اور تیاری کے ساتھ اس تبدیلی کو قبول کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں کتابیں پرنٹ سے ای بک میں تبدیل کرنے کے پراجیکٹس شروع کئے۔ اسکولوں میں بچوں کو سستے لیپ ٹائپ مہیا کئے تاکہ سبھی بچے ڈیجٹل بکس کو استعمال کرسکیں۔ ڈیجیٹل بکس کو لائیبریری کے ذریعہ شئیر کرنے کے طریقہ مروج کئے اور ایسے قوانین بنائے جو پبلشر اور رائٹر کے حقوق کو محفوظ رکھ سکیں ۔۔یہی ساری چیزیں ہمیں بھی سمجھنی ہوگی اور ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔۔ہم لوگ موبائل فون، فلم ، ڈراموں ، واٹس ایپ فیس بک وغیرہ ہر نئی ٹیکنالوجی کو باآسانی اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں لیکن جب بات کتاب کی ہوتی ہے تو ہم روایتی طریقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔جبکہ کتاب کے لکھنے سے لے کر کمپوزنگ کرنے اور پرنٹ کرنے کا طریقہ سب ہی روایتی سے ہٹ کر ڈیجیٹل ہوچکا ہے ۔۔
ان سب باتوں کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ ہمیں پرنٹڈ کتابوں کو بلکل ختم کردینا چاہیے ۔۔بہت سے لوگ ہیں جو کتابوں پر خرچ کرنا پسند کرتے ہیں اور حسب حیثیت کرتے بھی ہیں ایسے لوگوں کے شوق اور محبت کے لئے کتابیں چھپتی بھی رہنی چاہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں اس اکثریت کا سوچنا چاہیے جن کے لئے ان پرنٹڈ کتاب کا حصول ممکن اور آسان نہیں رہا۔وہ مطالعہ کی خواہش کے باوجود کتاب کی خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے یا زمینی فاصلوں کے باعث کتاب ان کی رسائی سے دور ہے ۔۔ان کے لئے مناسب قیمت پر ای بکس فراہم کرنا بھی اہم ہے ساتھ ہی ہمارے لوگوں میں یہ احساس اور شعور بھی پیدا کرنا چاہیے کہ ای بکس ایک نئی سہولت ہے جس کا استعمال ہمیں اپنی نئی نسل کو علم و ہنر ، سائنس ٹیکنالوجی اور ہمارے تہذیبی اور ادبی ورثہ سے متعارف کروانے کے لئے کرنا ہے نہ کہ غلط طریقوں سے ای بک بنا کر کچھ پیسے بٹورنے کے لئے۔
دنیا جب سے وجود میں آئی ہے مسلسل بدلتی رہی ہے اور وہ قومیں جو تبدیلی کے لئے خود کو تیار رکھتی ہیں وہی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھ جاتی ہیں ۔ نئی ٹیکنالوجی سے خوف زدہ ہوکر مزاحمت کرنے کی جگہ ہمیں اسے مثبت طریقے سے قبول کرنا ہوگا تاکہ ٹیکنالوجی بار گراں گزرنے کی جگہ فائدہ مند ثابت ہو سکے۔آج پی ڈی ایف اور ای بکس وقت کی ضرورت بن چکی ہیں ان کا انکار کیا جائے یا اقرار کیا جائے یہ کسی صورت بھی ختم نہیں ہو سکتیں۔اس لیے اسے قبول کرنا اور اس سے مستفید ہونے کا ارادہ ہی اس پورے شعبے کو جدیدیت عطا کر سکتا ہے اور پھر جلد ہی ایسے اصول و قوانین بھی وضع ہوں گے جن کے بعد جعل سازی اور غلط طریقے سے کتب کا حصول ممکن نہیں رہے گا ۔
طباعت کی تاریخ
لکڑی کے بلاک سے پرنٹنگ 200 CE
موویبل ٹائپ 1040
اںٹاگلیو۔ 1430s
طباعت خانہ۔ 1439
سنگی طباعت 1796
لون سنگی طباعت 1837
روٹری پریس 1843
فلیکسوگرافی 1873
مائیمو گراف 1876
لینو ٹائپ سیٹنگ 1886
آفسیٹ پریس 1903
اسکرین پرنٹنگ 1907
ڈائی سبلیمیشن 1957
فوٹو کاپی 1960s
پیڈ پرنٹگ 1960s
ترتاش مطبع 1969
ڈوٹ۔میٹرکس پرنٹر 1970
ای بکس۔ 1971
انکجیٹ پرنٹر 1976
تھری ڈی پرنٹنگ 1986
اسٹریو لیتھوگرافی 1986
رقمی طباعت خانہ 1993