Type Here to Get Search Results !

میری دو دنیائیں

 دلیپ کمار ایک انسان دوست کلاکار سے ادیب تک 

مرزا صہیب اکرام



دلیپ کمار کی رحلت کی خبر برصغیر میں بسنے والے تمام طبقات پر بجلی بن کر گری۔ایک ایسا انسان جس نے اپنے فن سے ایسا تاثر قائم کیا ہو کہ چھ دہائیاں گزرنے کے باوجود ہر فلمی شخصیت اور فلم بین کے دل میں تابندہ ہے ۔ بہت سے افراد دلیپ کمار کو فن اداکاری کے شہنشاہ کے طور پر جانتے ہیں۔ ایک بار کسی نے کہا تھا کہ ہندوستان سے اگر تاج محل اور غالب کو حذف کر دیا جائے تو پیچھے کیا بچتا ہے میں اسی خیال میں اضافہ کرتا ہوں کہا اگر دلیپ کمار کا نام نہ لیا جائے تو ہندوستان میں فنون لطیفہ کے پاس کیا بچتا ہے ۔ دنیا کے پہلے میتھڈ ایکٹر کا اعزاز بلاشبہ ان کے پاس ہے۔اسی وجہ سے وہ ہندوستان کی فلمی صنعت میں اس اوج کمال پر ہیں جس کی تمنا ہر دور میں ہر خواب دیکھنے والے نے کی ہے ۔ معین اختر نے ایک بار کہا تھا کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ عزت ہو تو دلیپ کمار جیسی ہو ۔

یہ دلیپ کمار کی عظمت اور بلندی کا اعتراف ہے جو ہر ایک  نے کیا ہے ۔اور اسی چیز نے ان کے چاہنے والوں کی فہرست کو لاکھوں سے تجاوز کیا ہے ۔ دلیپ کمار نے فلموں کو پتلی تماشے سے نکال کر انڈسٹری کا درجہ دیا تھا اسی وجہ سے آج تک ان کا کام زندہ ہے ۔

شہنشاہ جذبات کا ایک رخ تو وہ ہے جو فلمی پردے پر سب نے دیکھا لیکن ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔ جس میں انہوں نے ساری زندگی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر بے شمار رفاہی و فلاحی اداروں کو  سہارا دیا ۔ انہوں زندگی کے آخری سانس تک کسی نا کسی ادارے کی کفالت کی تاکہ وہ اپنی استعداد کے مطابق دکھی انسانیت کے کچھ دکھ کم کر سکیں ۔

اس کے علاؤہ دلیپ کمار کا ایک رخ اور بھی ہے جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں ۔ ایک بار دلیپ کمار نے کہا تھا کہ اگر وہ ایکٹر نا ہوتے تو وہ یقیناً ادیب ہوتے ۔ اس چیز نے مجھے چونکا دیا کیونکہ آج کل کے اداکاروں کے کام اور صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کی عملی عقلی وسعت کا اندازہ باخوبی ہوجاتا ہے ۔ لیکن جن افراد نے دلیپ کمار کے انٹرویوز سنے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کی زبان سے الفاظ پھولوں کی طرح جھڑتے تھے اور ان کی باتیں ان کے وسیع علم اور بلند سوچ کہ عکاس تھیں ۔ وہ صرف ایک اداکار نہیں تھے وہ ایک ایسے انسان تھے جس کے اندر بہت ہی جہتیں تھیں ۔ ان کے اندر کے لکھاری کی ایک جھلک میں پڑھنے لکھنے والوں کی نظر کرنا چاہتا ہوں ۔یہ انگریزی کا ایک مضمون تھا جس کا ترجمہ محترم سعید احمد نے کیا تھا ۔ اس کا عنوان میری دو دنیائیں ہے ۔اس کر پڑھیے اور سر دھنیے کہ ہم نے کس گوہر یکتا کو گنوایا ہے ۔ وہ کچھ یوں گویا ہوتے ہیں۔



" تم دوسروں کی طرح کیوں نہیں رہے

ہوا کے دوش پر اُڑنے والی گاڑیوں کی لگژری میں ڈوب جاؤ

ایک رسالے کے ٹائیٹل سے دوسرے تک چھا جاؤ اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچ کے چالیس کروڑ انسانوں کے دل پر حکومت کرو

کسی نے مجھ سے کہا اور سوچا

شہرت کی نئی بلندیاں

اور پھر میں نے زمین و آسماں کی وسعتوں کی طرف دیکھا اور کہا

لیکن میں اپنے آپ سے غیر، ہر دلعزیز ہونا نہیں چاہتا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی اپنے آپکو تو پسند نہ کرے اور چاہے کہ چالیس کروڑ انسان اسکو پسند کریں

میں نہیں ہوں جو کچھ میں ہوں تنہائی کے لمحوں میں کچھ دیر اپنے آپ کی طرف دیکھتے ہوئے

مختلف انواع کی چیزوں میں یگانگت کے پہلو تلاش کرتا ہوں

تضادات کے راز سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہ دریافت کرتا ہوں کہ

میں ابھی تک ایک نیم تحریر شدہ کتاب ہوں

برلن بالکل میری طرح ہے

دو حصوں میں تقسیم

کیا یہ انسانی سماج پر ایک داغ ہے

لوگ کیوں اسکو ٹریجڈی سے منسوب کر رہے ہیں اور بعض اوقات اپنے آپ سے بھی اس میں کوئی ٹریجڈی نہیں ہے

یہ دیوار دو مختلف نظریات رکھنے والوں کی نمائندگی کرتی ہے

یہ دلوں کو بھی کاٹتی ہے 

میں یہ دیوار دیکھنے کے لئے نہیں جانا چاہتا مجھے یہ دیوار انسان کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہے 

یہ دیوار انسانی فکر کے ارتقا کی نفی کرتی ہے لیکن اس حقیقت سے کیسے انکار کریں کہ یہ دیوار ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے 

ہم ہٹ دھرم نسل ہیں اور دنیا میں اپنی اپنی دیواریں اٹھائے پھرتے ہیں

دیوار برلن ٹوٹ چکی ھے دیوار برلن گرادی گئی

یہ دیوار فاشزم کا شیطانی کارنامہ تھا

انسان نے ہٹلر اور مسولینی جیسے شیطانوں کے نظریوں کو نیست ونابود کردیا ہے 

امریکی انتھک قوت کاردگی کے مالک ہیں مجھے انکی گرمجوشی اور مہمان نوازی کا احساس بے حد پسند ھے، مجھے نیویارک میں وال سٹریٹ کے اجارہ داروں میں بہت سے لوگوں نے یہ سوال کیا تھا کہ میں نے عام انتخابات میں کرشنا مینن کی حمایت کیوں کی، یہ سوال مجھ سے نیویارک برلن اور مختلف کانفرنسوں میں تقریبا ہر جگہ کیا گیا

میں نے بتایا تھا مثبت غیر جانبداری زندہ رہنے کے لئے بہترین پالیسی ہے 

اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نہیں ہم جسکو ٹھیک سمجھتے ہیں اس سے لاتعلقی کا اظہار کریں

یہ پالسیس استدلال کے دروزے ہر وقت اور ہر جگہ کھلے رکھنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے 

چاہے ہم کسی جزباتی بحران کا شکار ہوں یا کسی بڑی تباہی کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہوں، لیکن امریکہ اور یورپ والوں کی سوئی کرشنا مینن پر اٹک گئی تھی

میں نے ان پر واضح کردیا کہ کرشنا مینن آپکو اسلئے پسند نہیں کہ وہ آپ سے اختلاف کرتا ہے اور آپکو جی حضوریوں کی ضرورت ہے جو آپ سے اختلاف کرے وہ آپکا دوست نہیں ہوسکتا 

امریکہ اور یورپ کا انداز فکر خوف کی پیداوار ہے 

میں نے انکو کہا تم کمیونزم سے ڈرتے تھے ہم ہندوستانی کمیونزم سے نہیں ڈرتے اور حقیقت یہ ھے ایک صوبے میں ہماری کمیونسٹ حکومت برسراقتدار ہے 

مجھے شنگریلا کی یاد آتی ہے 

شنگریلا جہاں ظاہر اور حقیقت کے درمیان کوئی سایہ نہیں ہوتا 

اور یہ جگہ پراسرار ہمالیہ کے پہاڑوں میں کہیں واقع ہے 

یہاں پر محبت اپنی تمام تر عظمتوں کیساتھ حکمران ھے

انسان کے جسم اور روح کے لئے ایک جنت ہے 

ہر انسان کی زندگی میں ایک شنگریلا ہوتا ہے 

اس کا اپنا ایک شنگریلا ھے

میں دو دنیاؤں کے کنارے پر کھڑا ہوں 

کونسی دنیا میری ہے 

اپنے باپ کے سینے سے چمٹ کر روتا ہوا بھوک سے نڈھال بچہ یا صرف چمکدار رنگوں سے جگمگاتی دنیا

میں کون ہوں 

کیا میں خاموش تماشائی ہوں 

کیا یہ عورت جسکا بچہ بھوکا ہے میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی

محض ایک تماشائی

مجھے ان سب لوگوں کے لئے کیا کرنا ہے 

میں اس بچے کی طرف دیکھتا ہوں جو زندگی اور موت کے درمیان خطرناک جدوجہد کر رہا ہے 

لیکن میں اپنے دل کے اندر گہرے تہہ خانوں میں، میں ہی جانتا ہوں کہ زندگی فتح یاب ہوگی 

میں مسکراتا ہوں 

اور میری یہ مسکراہٹ

حالت کے پیش نظر کتنی بے وقعے اور بے محل ہے 

شدت احساس کے عظیم لمحات میں

مجھے اپنی ان دو دنیاؤں کا ادراک اور شعور حاصل ہوتا ہے 

میری اپنی دو دنیائیں ہیں

پہلی کی طرح دوسری بھی حقیقت ہے 

اور مجھے لاکھوں اور کروڑوں بننا ہے

مجھے خوشی اور غم میں ڈھل جانا ہے دو ناقابل تقسیم دنیاؤں میں

ایک بڑا اداکار اور تماشائی بننے کے لئے

ہر لمحہ نیا جنم لینا پڑے گا۔


نوٹ۔

دلیپ کمار کا وہ دعویٰ جس میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایکٹر نا ہوتے تو اپنے وقت کے ادیب ہوتے ۔ میں اس دعویٰ کی اس طرح نفی کرتا ہوں کہ اگر کسی انسان نے ان کی فلموں کو گہرائی میں اتر کر دیکھا ہے تو وہ جان سکتا ہے کہ دلیپ کمار کا کام اپنے دور کا ترجمان تھا ۔ان کی فلمیں وقتی ابال نہیں ہیں۔ وہ اپنی فلموں اور کرداروں کے زریعے معاشرے کی زبوں حالی اور مٹتی ہوئی اقدار کا نوحہ لکھتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ انسان کو جانچنے کا واحد پیمانہ انسانیت ہے ۔ اگر اس کے علاؤہ کوئی انسان گروہ یا طبقہ کسی وجہ سے سماج کو تقسیم کر رہا ہے تو یہ واضح رہے کہ وہ اس خطے کی ہزاروں سال سے چلی آ رہی اقدار روایات اور تہذیب کا دشمن ہے ۔ دلیپ کمار ٹھگوں مکاروں اور تاجروں کی دنیا میں الگ قسم کے انسان تھے ۔ وہ تا عمر محبت کا دامن تھام کر آگے بڑھتے رہے یہی وجہ ہے کہ ان کے چلے جانے کا غم ہر خاص و عام نے محسوس کیا ہے ۔ اور اپنی بساط کے مطابق ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ ان کا کام ان کے انٹرویوز اور ان کی یہ تحریریں گواہ ہیں کہ وہ کتنے بڑے ادیب تھے ۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئی کب اصلی دلیپ کمار کی کھوج کرے گا اور پرتوں کے اندر سے پرتیں نکالے گا ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.