Type Here to Get Search Results !

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

از : محمد مصعب




ساغر صدیقی ! نام محمد اختر ! قلمی نام ساغر صدیقی ! پیدائش  1928  انبالہ ! بچپن ہی سے ماں کے آنچل اور باپ کے سایہ سے محروم ، میانہ قد ، کشادہ پیشانی ، ٹیڑھی آنکھیں مٹی سے بھرے بال ، چپل سے محروم پاؤں ، کمزور و لاغر بدن پر ایک کالی میلی کچیلی چادر یہ ہے ساغر صدیقی جو دیوانگی کے عالم  میں لاہور کی گلیوں بھٹکتا رہتا ، لوگ اسے پاگل سمجھتے پر اسکے بہترین اور برجستہ شعر سننے والے کے وجود میں سنسنی پیدا کر دیتے لوگ حیرت میں پڑ جاتے کہ اتنے آسان اور خوبصورت شعر  اتنا میلا کچیلا انسان  کیسے کہہ سکتا ہے __


چشم تحقیر سے نہ دیکھ ہمیں 

دامنوں کا فراغ ہیں ہم لوگ

 

ساغر کی شاعری میں زندگی اور زندگی کے تلخ رویے بہت زیادہ نمایاں ہوتے ساغر نے جس طرح سے زندگی کو جیا اور زندگی نے جس طرح سے ساغر کو برتا اس نے ساغر کے لہجے میں تلخی انڈیل دی تھی 


*زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے*

*جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں*


ساغر صدیقی شروع سے ایسے نہیں تھے تقسیم ہند کے بعد جب وہ  امرتسر سے پاکستان آۓ تو ایک خوش لباس شاعر تھے عمدہ و شیریں گفتار کے مالک ،  ترنم میں شعر پڑھتے اور سامعین کے دلوں پر راج کرتے ، ساغر مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے  ، پھر حالات بدلے یاروں نے جفائیں کی چرس اور مارفیا کی لت پڑی ، رفتہ رفتہ ساغر گردش میں آۓ ۔ عمدہ لباس کی جگہ کھدر نے لی اور آخر کار ایک سیاہ چادر بدن پر رہ گئی ساغر اپنے آپ میں سمٹتے چلے گئے یار دوستوں سے دور ہوتے گئے حتی کہ ساتھیوں سے ایک چونی کے طلبگار ہو گئے خود کے لئے فقیر کا لفظ استعمال کرنے لگے __

 ایک دن ساغر سوتر منڈی میں ایک پان کی دکان کے سامنے سے گزر رہے تھے تو آل انڈیا ریڈیو کے کسی اسٹیشن سے کوئی گائیک ساغر کی  غزل ،، چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے ،،، گارہا تھا ساغر رک گئے غزل کے اختتام پر اناؤنسر نے جب یہ کہا ’’ ابھی آپ ہند و پاک کے مشہور شاعر ساغر صدیقی کی غزل سن رہے تھے’’ تو ساغر نے ہنس کر کہا‘‘ واہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ساغر کس حال میں زندہ ہے اور کہا !


ساقیا تیرے بادہ خانے میں 

نام ساغر ہے مئے کو ترسے ہے

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساغر کی  مجذوبانہ کیفیت اور بے سروسامانی سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اسکی غزلوں کا ایک بڑا حصہ چوری کیا گیا __

ساغر غزل کے میدان کے شہسوار تھے وہ جمال اور جلال دونوں کے شاعر تھے وہ مری ہوئی سماجی قوتوں کے نوحہ گر نہیں  بلکہ نئی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے نغمہ گر تھےساغر لفظوں کے ساتھ ایک ماہر کھلاڑی کی طرح کھیلتے نظر آتے ہیں ان کی شاعری چند روز کی شاعری نہیں بلکہ زمانوں کی شاعری ہوتی __


یقین کر کہ یہ کہنہ نظام بدلے گا

میرا شعور مزاج عوام بدلے گا 


آخر کار 19 جولائی 1974 کو اس درویش صفت  شاعر نے اس فانی دنیا سے رخت سفر باندھ لیا __


اس رہزن حیات زمانے سے دور چل 

مر بھی گئے تو دامن صحراء بری نہیں __


محمد مصعب کھیتاسراۓ بارہ بنکی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.