از : ڈاکٹر مبین نذیر
سوشل میڈیا پر شائع تحریروں کے توسط سے محمد دانش غنی سے روابط استوار ہوئے ۔ ان کی تحریروں کی ندرت بانکپن اور بے باکی نے متوجہ کیا ۔ وقفے وقفے سے شائع شدہ یہ تحریریں انفرادیت اورجرات کا جادو جگاتی رہیں ۔ اس دوران کچھ ایسے موضوعات بھی باصرہ نواز ہوئے جن پر خامہ فرسائی کرنا ایک زمانے کو اپنا مخالف بنانا ہے ۔ ان ہی کو دیکھ کر شعر کے پردے میں کے مطالعے کا شوق پیدا ہو ۔ ا جس کے مطالعے کے بعد تاثرات پیش خدمت ہیں۔
منفرد، دلکش اور جاذب نظر سر ورق رکھنے والی یہ کتاب پہلی ہی نظر میں قاری کو بھا جاتی ہے ۔ کتاب نام صاحب کتاب کے ادبی ذوق کا غماز ہے تو سرور ق کی ڈیزائن پرویز احمد کی خلاقانہ صلاحیتوں کا خوبصورت اظہار ہے ۔ کتاب میں اردو ادب کی مشہور و معروف شخصیات جناب شرف الدین ساحل، حقانی القاسمی، پروفیسر ابن کنول اور سید معراج جامی کے گراں قدر تاثرات شامل ہیں ۔ پشت پر اردو ادب کی ایک اور نابغہ روزگار ہستی پروفیسر یونس اگاسکر صاحب کے تاثرات اس کے حسن میں اضافہ کا سبب ہیں۔ مشمولات کی مناسبت سے کتاب کو چار حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ پہلا مضمون """"مولانا الطاف حسین حالی کی اصلاحی شاعری ہے ۔ جس میں حالی کی نظم گوئی غزل گوئی کے ساتھ ان کی تنقیدی بصیرت کا ذکر و دلچسپ انداز میں کیا گیا ہے۔ دوسرے مضمون محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری میں صنعت نعت کی تعریف سے مضمون نگار نے ابتدا کی ہے۔ اس کے بعد دلچسپ اور رواں اسلوب میں نعت کی تاریخ اہم نعت گو شعرا کے ساتھ ساتھ محسن کاکوروی کی نعت گوئی کی ابتدا سے لے کر ان کے کلام کی خوبیوں کا بطریق احسن جائزہ لیا ہے۔ ان کی اولیت و انفرادیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عقیدت و محبت کا ذکر و والہانہ انداز میں کیا ہے۔ تیسرے مضمون میں شاعر مشرق کو بچوں کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے پیش کر کے کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ان کی نظموں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے کے بحیثیت مجموعی اقبال کی بچوں کے لئے کہی گئی نظموں کو سدا بہار نظمیں قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بچوں کو اقبال کو بچوں کے لئے دلچسپ اور معاصر نظم کہنے پر قدرت حاصل تھی۔ لکھتے ہیں کہ کمیت کے اعتبار سے اگرچہ ادب اطفال میں اقبال کا حصہ مختصر ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے غیرمعمولی اور ناقابل فراموش ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کی شعر گوئی کو ایک منفرد زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ مولانا کی رفعت و عظمت کے باب وا کرنے والا یہ مضمون یقین جوہر شناسی میں قابل قدر اضافہ ہے ۔ اسی طریقے سے اگلے مضمون میں حسرت کی ذات و صفات اور شاعری و صحافت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ان کے انفرادی ابعاد کو روشن کیا گیا ہے۔
ساحر کی عشقیہ اور انقلابی شاعری میں ساحری اور شاعری کا بہتر انداز میں تجزیہ ملتا ہے۔ ساحر کی فکر و فن کے مختلف گوشے روشن ہوتے ہیں ۔ غنی اعجاز کی غزل میں ان کی غزلوں کے مطالعہ اور مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک عرصے تک روایتی شاعری کی زلفوں کے اسیر رہے لیکن بعد میں جدیدیت کی طرف ایک حدتک متوجہ ہوئے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں روایت و جدیدیت کا ایک دلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ خضر ناگپوری کی شخصیت و شاعری پر محیط مضمون خضر ناگپور ی زبان و بیان کا شاعر جس میں انہیں جدیدیت کی اولین آوازوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی طریقے سے قاضی فراز احمد سے متعلق مضمون میں مضمون نگار انہیں بنیادی طور پر غزل کا شاعر قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس کی توجیہ اور دلائل بھی ان کی غزلوں سے پیش کرکے اپنے مضمون کو مکمل کرتے ہیں ۔ شریف احمد کی شاعری کو عصری آگہی کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اس مضمون کے دو حصے ہیں اول حصہ میں ان کی نظم نگاری اور دوسرے حصے میں غزل گوئی کا محاکمہ کیا گیا ہے۔
شمیم طارق کے کے ضرب المثل اشعار اپنی نوعیت کا ایک منفرد مضمون ہے ۔جس میں صحافی محقق و ناقد شمیم طارق کے شاعرانہ کمال کا تذکرہ ان کے اشعار کی روشنی میں کیا گیا ہے سا؛تھ ہی ان کے وہ اشعار جو بر محل اور برجستہ موقع و محل محل کی مناسبت سے زبان پر جاری ہوجاتے ہیں ان پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔ یقینا ً یہ مضمون شمیم طارق کی شاعری کی شناخت میں اہمیت کا حامل ہوگا ۔
کتاب کے تیسرے حصے کا عنوان تحقیق ہے ۔ جس میں کوکن کے اردو لوک گیت، ودربھ میں جدید اردو غزل اور رتناگری کی شعری روایت پر تحقیقی و تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے ۔ یہ مضامین اگرچہ علاقائی نوعیت کے ہیں لیکن دانش غنی کی تنقیدی و تحقیقی بصیرت اور زمانہ شناس نگاہوں کی غمازی کرتے ہیں۔ اردو کے ادبی مراکز سے دور ان علاقوں اور یہاں کے فنکاروں پر کام کرنا وقت کی ضرورت اور ان کا حق ہے ۔ جیسے دانش غنی نے پورا کرنے کی سعی کی ہے۔ یقینا اس طرح کے مضامین سے ان علاقوں کے فنکاروں کو جاننے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا اور اردو دنیا نئے چہروں مضامین اور اسالیب سے روشناس ہو گی ۔ امید ہے کہ موصوف اس سلسلے کو یوں ہی دراز رکھیں گے اور مستقبل میں علاقائی نوعیت کے ان کے مزید تحقیقی مضامین منظر عام پر آئیں گے۔
کتاب کا چوتھا حصہ دانش غنی کی بے باکی جرات و ادب کے تئیں ان کی دقیق نگاہی کا مظہر ہے ؛جس کا ذکر مضمون کی ابتدا میں کیا گیا ہے ۔ یہ مکتوبات ان کے شخصی نظریات و افکار پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ ساتھ ہی ا ن کی عمیق نگاہی اور فن شاعری پر دسترس کی نشاندہی بھی کرتے ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔
آج کل کے مدیر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں،
ستمبر کا شمارہ نظر نواز ہوا ۔اس شمارے میں کئی شاعروں کی غزلیں اور ایک شاعر کی کئی رباعیات شائع ہوئی ہیں مگر کوئی غزل یا رباعی متاثر نہیں کرتی۔ غزل تغزل سے اور رباعی چوتھے مصرعے کی برجستگی سے محروم ہے۔
اسی طریقے سے ایک خط میں مدیر آج کل کو منور رانا کے اشعار کی غلطیوں سے آگاہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں،
میں آپ کا اور آج کل کا مداح ہوں۔ چڈی پہن کرپھول کھلا ہے جیسی شاعری کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ اس لئے میں نے چند سطور لکھ دیے۔ مجھے منور رانا سے کوئی کد نہیں ہے۔
اسی انداز کے دو خطوط مدیر انقلاب کے نام بھی کتاب میں شامل ہیں۔ ایسے ہی غیر جانبدارانہ تبصرے اور تجزیے ان کی فیس بک وال پر بھی نظر آتے ہیں۔ جس سے ان کی زبان و ادب سےعقیدت اور بے باکی و جرات عیاں ہوتی ہے۔ جس کی فی زمانہ اشد ضرورت ہے کہ ہر قسم کی بندشوں ، پابندیوں اور گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر کھرے کھوٹے میں تمیز کی جائے۔
مختصر یہ کہ شعر کے پردے میں اردو کے ادبی افق پر ایک ایسے نقاد، مبصر اور تجزیہ نگار کی آمد کا اعلان ہے جو زبان و ادب کی باریکیوں سے واقف ہے جس میں اپنی بات کو سنجیدگی اور مدلل انداز سے کہنے کا سلیقہ ہے جو فن پارے کی خوبیوں کی پذیرائی کرتا ہے تو نقائص پر نکیر بھی کرتا ہے۔ادب شناسی کی کئی خوبیاں اسے وراثت میں ملی ہیں تو اس نے اپنی محنت اور مطالعے سے بہت ساری خوبیوں کو حاصل بھی کیا ہے۔ جس کی وجہ سے زبان و ادب کے تئیں اس کا اپنا ایک نقطہ نظر تشکیل پاچکا ہے۔ وہ اس میدان میں مقلد نہیں بلکہ مجتہد بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہمیں قوی امید بلکہ یقین ہے کہ ڈاکٹر دانش غنی کا یہ سفر یوں ہی کامیابی سے جاری رہے گا اور وہ میدان نقد میں خوش رنگ گل بوٹے کھلاتے رہیں گے۔
ڈاکٹر مبین نذیر
شعبہ اردو آرٹس کامرس اینڈ سائنس کالج مالیگاؤں سٹی