Type Here to Get Search Results !

"روبرو"؛ مہمان : صائمہ نور



اقراء کے خاص پروگرام "روبرو" میں آج ہماری مہمان ہیں ایک نثر نگار، جنھوں نے افسانے، مضامین، مائکروفکشن، ادبی تعارف جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے، ہم بات کر رہے ہیں محترمہ صائمہ نور صاحبہ کی، جن کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انھیں لکھنے کا کچھ زیادہ شوق نہیں تھا، مگر اب یہ عالم ہے کہ "خوب" لکھتی ہیں، یہ کچھ نہیں سے بہت کچھ تک کا سفر کیسا رہا، آئیے انھیں سے معلوم کرتے ہیں۔۔۔


٭اطہر کلیم : خوش آمدید محترمہ صائمہ نور صاحبہ، سب سے پہلے تو اپنے ادبی سفر کے متعلق مختصرا بتائیے، کیسے شروع ہوا اور اس درمیان کن مراحل سے آپ کو گزرنا پڑا؟

٭ صائمہ نور :  سب سے پہلے تو آپکا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جو مجھ ناچیز کو اس قابل سمجھا کہ خیالات سے آگاہی جاننے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا۔ادبی سفر کے بارے میں اگر میں کہوں کہ اچانک شروع ہوا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ ریڈر میں ہمیشہ سے ہوں شاید نہیں یقیناً بچپن سے۔ہر طرح کے اخبارات جرائد کالمز کہانیاں پڑھنا میرا معمول تھا اور میرا واحد مشغلہ بھی۔لیکن کبھی بھی لکھنے کا خیال تک نہ آیا تھا۔ بس اچانک کچھ سال پہلے یوں لگا جیسے میرے آس پاس لفظوں کے قافلے سے گزر رہے ہوں۔ نئے نئے کردار میلہ سا لگائے رکھتے ہوں۔ پھر بھی مصروفیات کے سبب میں یہ سب نظر انداز کرتی رہی مگر پھر کچھ بات آگے بڑھی اور میرے لیے اس ہجوم کو پس پشت ڈالنا نا ممکن سا ہو گیا۔عجیب سی بات لگتی ہے مگر سچ یہی ہےکہ کبھی لکھنے کا نا شوق تھا نا ہی سوچا تھا۔ لیکن شاید "لکھنے کا شوق میری جینز میں کہیں موجود تھا جس کی وجہ سے میں چاہ کر بھی اپنے اندر کے حساس لکھاری کو چھپا نہیں سکی۔ایک دن آدھی رات کو ایک کہانی اچانک لکھی "خلائی مخلوق" اور ڈائجسٹ میں بھیج دی جو اگلے چھ ماہ میں چھپ بھی گئی۔پھر سلسلہ شروع ہو گیا مختلف اخبارات میں کالمز لکھے۔ آنلائن کہانیاں اور مائکروف لکھے۔لکھنے کے دوران سب سے مشکل اور صبر آزما مرحلہ کسی بھی نگارش کے اچھے جریدے میں پبلش ہونے کا ہے۔اگرفی زمانہ آپ لکھنا چاہتےہیں تو آپکو صبر کا دامن صبر سے تھامنا پڑے گا۔


٭ اطہر کلیم : آپ نے کہا کہ آپ پڑھتی بہت زیادہ تھیں، پھر ایک رات اچانک سے ایک کہانی لکھی اور کسی ڈائجسٹ کو بھیج دی۔۔۔ اس اچانک تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے، کیا اسکے پیچھے آپ کا وسیع مطالعہ تھا۔۔ یا گھر کا ادبی ماحول، یا کوئی اور وجہ جو آپ کو سمجھ آتی ہو؟

٭صائمہ نور : اصل میں جیسے میں نے پہلے کہا کہ کافی عرصہ سے ذہن پر لفظوں کی دستک ہوتی رہی جسے میں ایک حد تک نظر انداز بھی کرتی رہی مگر پھر ایسا لگا کہ اب بس "اب لکھنا ہی چائیے "۔ مجھے میری چھوٹی بہن نے کہا کہ تم یہ زیادتی کر رہی ہو خود کے ساتھ اور ایک طرح سے یہ نہ شکری بھی ہے۔ سو اچانک اسی سینس میں کہا کہ کہانی ضرور اچانک لکھی مگر اسکے پیچھے جو محرکات تھے انکا دورانیہ کافی طویل تھا۔ مطالعہ تو ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ رہا تھا اسکے علاوہ گھر میں بلکل ادبی ماحول دیکھا بچپن سے ہی والدہ کو مختلف اخبار و رسائل کا مطالعہ کرتے دیکھا۔اسی طرح چھوٹی بہن اور بھائیوں کو بھی ہمیشہ کتابوں سے جڑا ہی دیکھا۔اس لیے مجھے ایک دن اپنے حقیقی مقام پر آنا پڑا یعنی میں نے قلم تھام لیا۔


 ٭اطہر کلیم : جی میں یہی جاننا چاہ رہا تھا کہ اچانک سے آئی تبدیلیوں کے پیچھے بھی کچھ محرکات ہوتے ہیں، آپ نے مائکروفکشنس بھی لکھے ہیں، اردو میں اس صنف کو متعارف ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، سب سے پہلے تو قارئین کو یہ بتائیے کہ مائکروفکشنس ہوتے کیا ہیں؟۔۔ نیز بعض حلقوں نے مائکروف کو بھی مزید "کیٹیگری" میں بانٹا ہے، تو آپ نے اب تک کس طرح کے مائکروف لکھے؟

٭ صائمہ نور : یہ بہت ہی دلچسپ سوال ہے۔ماجرا کچھ یوں ہے کہ آج کل کے ڈیجیٹل دور میں قاری اور لکھاری دونوں ہی نہایت عجلت پسند ہو گئے ہیں۔وقت کی قلت ہے سو افسانے اور ناول کو وقت دینا ایک مشکل امر ہو گیا ہے۔ سو اسکی ایک آسان سی صورت یہی مائکرو فکشن ہے۔یعنی کم لفظوں میں زیادہ اور اہم بات کو سہل پسندی سے کر لیا جائے۔ کہیں کہیں یہ اچھا بھی لگتا ہے۔ پھر مائکرو فکشن سے بھی اسکی ہیت کچھ سکڑ کر "مائیکروف "کی صورت اختیار کر گئی جیسے پچاس لفظی کہانی ،سو لفظی اور تیس لفظی کہانی یعنی بس دو ٹوک بات کی جائے اور ایسے دلچسپ پیرائے میں کہ پڑھنے والے داد دئیے بنا نہ رہ سکے۔ میں نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔مشہور مصنفہ عمیرہ احمد کے ایک آنلائن جریدے میں پچاس لفظی کہانی کے نام سے ایک مقابلہ ہوا کرتا تھا میری تمام مائیکروف اسی معروف سلسلے کی "تخلیق شدہ منتخب و فاتح " کہانیاں ہیں۔ سو لفظی کہانیاں بھی لکھیں اور مائکرو فکشن جیسے پانچ سو لفظ اور ہزار لفظی کہانیاں لکھیں۔


 ٭ اطہر کلیم : آپ نے وقت کی قلت اور عجلت پسندی کی بات کی، مجھے لگتا ہے اسے نکتے کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم نے پہلے ہی افسانوں کو مختصر کرکے افسانچے کا نام دے دیا تھا، حالانکہ کچھ حلقوں نے ابھی تک افسانچے کو ہی تسلیم نہیں کیا، پھر یہ نئی صنف کی اختراع کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ نئی اصناف کی اختراع سے قلمکاروں کو نئی راہیں ملتی ہیں یا وہ مزید کنفیوز ہوجاتے ہیں؟

٭ صائمہ نور : اس سوال کے بابت میری رائے سن کر آپ حیران ہونگے کیونکہ میں میری نظر میں افسانچے کی کچھ اہمیت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ افسانچہ کوئی بیچ کی ایسی چیز ہے جس میں غیر ضروری وضاحت بھی دی جاتی ہے۔ بات کا مقصد اتنا واضح نہیں ہوتا جس کے باعث کہانی پھیکی ہو کر دلچسپی کھو دیتی ہے۔میں مائکرو فکشن یا مائیکروف کو افسانچے سے بہتر خیال کرتی ہوں وجہ پھر وہی کہ "مائکروف میں دو ٹوک حتمی بات دلچسپ پیرائے میں فوراً کہہ دی جاتی ہے ".شاید میری طرح اور لوگوں نے بھی اس فرق کو محسوس کیا ہو تو افسانچے کو مزید مختصر اور بہتر بنانے کی غرض سے مائیکروف وجود میں آیا ہو۔جہاں تک قلمکاروں کو نئی راہیں ملنے سے مراد ہے تو اسکا ایک ہی جواب ہے "جب کسی قلم کار کے پاس لکھنے کی طاقت ہو اور اسکا مطالعہ وسیع ہو تو اسکے لیے کسی بھی صنف میں لکھنا کوئی مشکل بات نہیں"۔۔ ہاں بالکل نو آموز محض شوقیہ بغیر سمجھے لکھنے والوں کی مشکلات میں ضرور اضافہ اور کنفیوڑن ہو جائے گی۔


٭ اطہر کلیم : اووہ مجھے واقعی حیرت ہوئی، افسانچے کی مخالفت تو دیکھی ہے مگر اس طرح کے خیالات اور اتنی شدید مخالفت شاید پہلی بار سامنے آئی ہے۔۔ خیر۔۔! مجھے یہ بتائیے شعر و شاعری سے بھی آپ کو شغف ہے یا صرف نثر میں ہی طبع آزمائی کرتی ہیں آپ؟اسکے علاوہ پڑھنے کی حد تک شاعری سے دلچسپی ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو کن شعراءنے آپ کو زیادہ متاثر کیا ہے؟

٭ صائمہ نور : دیکھیں آپکی حیرت بجا ہے۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا اصل میں ادب کا مقصد کیا ہے؟۔۔معاشرتی تربیت ۔۔!!،اگر یہی جواب صحیح مان لیا جائے تو پھر جو بھی صنف اس معاملے میں بغیر کسی ابہام کے درست سمت میں لے جائے وہی سب سے بہتر ہے۔بس یہی میرا افسانچے سے اختلاف ہے۔مجھے شعر و شاعری سے بے حد شغف ہے۔ ابتداءمیں جب لکھنے پڑھنے کا کوئی شعور نہیں تھا تب صرف شعر پڑھنا میرا محبوب مشغلہ تھا۔میں نے بہت کم سنی میں کچھ اشعار کہے بھی تھے لیکن افسوس وہ محفوظ نہ رہ سکے۔شعر و شاعری کی سب سے پہلی کتاب جو میرے مطالعے میں رہی وہ بانگ درا تھی۔ پھر بہت بچپن میں امجد اسلام امجد ،احمد فراز ،میر تقی میر،میر درد ،مرزا غالب ،منیر نیازی اور سید وصی شاہ میرے پسندیدہ شعراءمیں شمار ہونے لگے۔ اور بھی شاعر ہیں جن کے نام اس وقت ذہن سے محو ہیں۔

 جیسے جنہوں نے وہ نظم تحریر کی 

”ہونٹوں پہ کبھی انکے میرا نام ہی آئے“

ابن انشاءکا نام نہ لینا زیادتی ہوگی انکی کئی غزلیں مجھے بے حد پسند ہیں۔


٭ اطہر کلیم : ہونٹوں پہ کبھی انکے میرا نام ہی آئے آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے

ادا جعفری کا یہ شعر ہے، مجھے ایک بار پھر سے آپ نے حیرت زدہ کردیا ہے پروین شاکر کا نام نہ لے کر،(مسکراتے ہوئے)۔۔۔ اور جہاں تک آپ کی تخلیقات کی بات ہے، میں نے ان میں بھی ایک خاص بات نوٹ کی ہے کہ آپ کے یہاں نسوانیت کا وہ مخصوص ٹچ نظر نہیں آتا، آپ نے کئی مختلف اور اچھوتے موضوعات کو چنا اور ایک الگ ڈگر پر نظر آئیں، ایسا کیوں ہے؟۔۔ کیا آپ عام ڈگر سے ہٹ کر اپنی الگ راہ بنانا چاہتی ہیں، یا اس طرح کا خاص اسلوب بھی آس پاس کے ماحول وغیرہ پر منحصر ہوتا ہے؟

 ٭ صائمہ نور : یہ سوال عمیق مشاہدے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔۔! آپ میری تحاریر پڑھتے رہے ہیں یہ جان کر اچھا لگا۔ حوصلہ افزائی کے لیے مشکور ہوں۔پروین شاکر ایک عمدہ تخلیق کار تھیں انکے بھی کئی شعر میرے پسندیدہ ہیں۔لیکن یہ بات سچ ہےکہ میں ادب ایک مقصد کے تحت تحریر کرنا چاہتی ہوں۔وہ مقصد ہے معاشرتی اصلاح۔کیا کوئی ادیب یا افسانہ نگار اپنی ذہنی تسکین کے لیے لکھتا ہے؟ یا صرف اسی مقصد کے لیے لکھنا چائیے ؟۔۔یہ اتنی معیوب بات تو نہیں مگر میں ذاتی طور پر یہ سوچتی ہوں کہ قلم جسے عطا ہوتا ہے اس پر رب کی خاص عنایت ہوتی ہے۔کوئی بھی لکھاری عام انسان سے زیادہ شعور رکھتا ہے اور یہ بات طے ہے جس میں جتنا زیادہ شعور ہوتا ہے اس پر زمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ عائد ہوتی ہے۔سو ہمارا کام ہے کہ اس ڈھب سے لکھیں کہ ابدتری میں کچھ کمی ہو سکے۔اور یہ تو ایک واضح فارمولا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہمارا قلم بھی وہی تصویر بناتا ہے۔میرے موضوعات اور کہانیاں بھی اسی دنیا اور معاشرے کی ہیں جو میرے ارد گرد بکھری پڑی ہیں بس ان کو مرکزیت عطا کرنےکے لیے تھوڑی سی ہمت چاہئے۔


٭ اطہر کلیم : یقینا، آپ نے درست کہا کہ ایک مقصد کے تحت ہی ادب کی تخلیق ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، بلکہ جو لوگ شوقیہ یا یونہی بے مقصد لکھتے ہیں انکی تخلیقات بھی اگر معیاری ہوں تو کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے پر چھوڑتی ہیں، ہر دور میں حالات اور انکے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، تو پھر کیوں آج بھی ہم ہر دوسرے قلمکار میں منشی پریم چند، منٹو، عصمت وغیرہ ڈھونڈتے ہیں، کیا ہمیں اب معیاری ادب پرکھنے کے پیمانے بدل لینے چاہئے یا نہیں؟؟

٭ صائمہ نور : بہت اچھا سوال۔بالکل درست ہر بدلتے دور کے حالات واقعات یقیناً مختلف ہوتے ہیں تو پھر کہانیاں یا انداز ایک جیسے یا مماثلت لیے کیسے ہو سکتے ہیں؟۔۔ دنیا یا ادوار میں بدلاو¿ آنا ایک خوش آئند اور نا گزیر سی بات ہے اس سے گریز یا انکار حماقت ہے !!۔ سو اگر ہم نئے لکھاریوں میں پرانا رنگ دیکھنا چائیں تو یہ سراسر نئے لکھنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ ہمیں جو جیسا ہے جہاں ہے کی بنیاد پر نئے لکھنے والوں کو نہ صرف قبول کرنا چائیے بلکہ قلمی حیثیت کا فی زمانہ کوئی لکھاری مستحق ہے اسے دینی بھی چاہئے۔۔


٭ اطہر کلیم : ماشاءاللہ۔! آپ نے بہت ہی اچھے انداز میں اس گفتگو کو آگے بڑھایا ہے اور کئی اہم موضوعات پر مختصر مگر جامع جوابات دئیے۔۔۔ اب ہم کلائمیکس کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ بتائیے کہ عصر حاضر کے وہ کون سے نثر نگار یا شعراءہیں جنکا مستقبل آپ کو انتہائی تابناک نظر آتا ہے، اور لگتا ہے کہ ان قلمکاروں کو آنے والی دہائیوں میں دنیا یاد رکھے گی؟

٭ صائمہ نور : میں اگر ایمانداری سے جواب دوں تو بے شمار نئے نام ہیں جو ابھی منظر عام پر نہیں مگر بہترین لکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ شعراءکرام بھی جدت لیے ہوئے بہترین طرز پر شعر گوئی کر رہے ہیں۔ اگر میں کسی ایک کا نام لوں گی تو زیادتی ہوگی۔جہاں تک یاد رکھنے کی بات ہے تو میرے خیال سے آج کل کے دور میں کہانی کار اسلوب سے زیادہ کہانی سے یاد رکھا جائے گا۔


٭ اطہر کلیم : جی، ایسے کئی ایک نام میرے ذہن میں بھی ہیں، بہر حال۔۔۔ یہ بتائیے کہ آج کے ”ڈیجیٹل دور“ میں پی ڈی ایف رسالوں، ویب پورٹلس اور ای بکس کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں، آیا یہ ایک مثبت قدم ہے یا ان سے کتابوں کی اہمیت ختم ہورہی ہے؟

٭ صائمہ نور : دیکھیں بدلتے ادوار کے ساتھ انداز بھی یقیناً بدلے جاتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں اس میں کوئی مضائقہ نہیں اصل مقصد تو مطالعہ ہے اب چاہے وہ کسی صورت بھی ہو۔ اور ویب پورلٹس اور ای بکس سے دیکھا جائے تو پڑھنے میں کچھ آسانی بھی ہوئی ہے کہ جب دل چاہا جہاں چاہا آرام سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا لیا گیا۔ لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ کچھ لوگ اب بھی صرف کتاب کی ورق گردانی ہی پسند کرتے ہیں۔ ورق کی خوشبو اب بھی انہیں اپنے دام میں کئے ہوئے ہے۔بہرحال میں اگر صرف اپنے بارے میں کہوں تو میں اس معاملے میں نیوٹرل ہوں۔ لیکن مجھے اپنی بک شیلف کو سجانا بے حد محبوب ہے جو یقیناً ڈیجیٹل کتابوں سے ممکن نہیں۔


٭ اطہر کلیم : ماشاءاللہ۔! صائمہ نور صاحبہ، آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا، اور مختلف موضوعات پر جس طرح آپ نے اطمنان بخش اور سیر حاصل گفتگو کی ہے، اسکے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں، آپ اقراءکی مستقل قاری ہیں، نیز آپ نے اقراءکے لئے بہت کچھ لکھا بھی ہے، جاتے جاتے اقراءکی ٹیم کو اپنے مفید مشوروں سے ضرور نوازئیے، کہ ہم اقراءکی بہتری کے لئے مزید کیا کرسکتے ہیں۔۔ نیز اب تک کا ہمارا یہ سفر آپ کو کیسا لگا اس پر مختصر روشنی ڈالیئے۔۔

٭ صائمہ نور : بہت شکریہ، محترم اطہر کلیم !!۔۔ مجھے بھی بہت اچھا لگا۔گو کہ ابھی طفل مکتب ہوں اور خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ انٹرویو دوں۔مگر آپکا بہت شکریہ کہ آپ نے یہ عزت مجھ نہ چیز کو بخشی۔ بالکل درست نہ صرف میں اقرا کی مستقل قاری ہوں بلکہ مجھے اسکا انتظار بھی رہتا ہے۔اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جب سے اقرا کا اجراءہوا ہے میں نے اسکو بتدریج بہتر سے بہترین پایا ہے۔آنلائن جریدے بہت سے دیکھے بہت کم ہی مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے ہیں۔میری اللہ سے دعا ہے کہ اس جریدے کو مستقل کامیابیوں سے نوازے اور بہترین سے بیسٹ کا سفر جاری و ساری رہے امین۔


٭ اطہر کلیم : ایک بار پھر سے آپ کا بہت شکریہ ، سلسلہ”روبرو“ میں آپ سے ملاقات شاندار رہی، اب اس امید پر آپ سے رخصت لیتے ہیں کہ اقراء اور آپ کا ساتھ آئندہ بھی اسی طرح قائم رہے گا، نیز آپ کی مخلص خدمات اقراءکو ہمیشہ میسر رہے گی۔۔۔ مستقبل کے لئے اقراءکی پوری ٹیم کی جانب سے آپ کو نیک خواہشات، اور ہم دعا گو ہیں کہ اللہ آپ کو مزید کامیابیوں، کامرانیوں اور ترقیوں سے نوازے۔۔ آمین

اب اجازت دیجئے، اللہ حافظ

٭ صائمہ نور : مجھے بھی اقرا کے توسط سے ہونے والی یہ ملاقات ہمیشہ یاد رہے گی۔ اقرا کے شاندار مستقبل کے لیے دعا گو ہوں۔

Tags

Post a Comment

3 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.