Type Here to Get Search Results !

”مجھے میرے اعزاء سے بچاٶ“

ناہید اختر بلوچ پاکستان



رشتے دار جنہیں آج کل کے زمانے کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے عرفِ عام میں سی سی ٹی وی کیمرے کہا جاتا ہے ،کبھی کسی دور میں انہیں پیار سے منکر نکیر بھی کہتے تھے کیونکہ یہ آپ کے اعمال کا حساب کتاب رکھنے میں ہر وقت مستعدی سے دائیں بائیں چپکے رہنے کی ڈیوٹی تمام عمر بڑی خندہ پیشانی سے ادا کرتے تھے ۔

رشتہ داروں کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ خون چوسنے والی مخلوق خاص طور پر ایشیائی ملکوں مثلا پاکستان اور ہندوستان میں بکثرت پائی جاتی ہے ۔۔کیونکہ بھلا ہو مغربی معاشرتی سماجی ڈھانچے کا انگریزوں نے یہ رشتے داروں والا ٹنٹا کبھی پالا ہی نہیں ۔۔ذرا بڑے ہوئے تو خود کمایا خود کھایا ۔۔۔اس لیے آپ کو ان کے ہاں چچیا ساس ، تایا سسر ، دیورانی کی سوتیلی کزن ، نند کی جٹھانی کی چچیری بہن جیسے رشتے کبھی دکھائی نہیں دیں گے ۔وہاں کا راوی صدیوں سے رشتے داروں کے بارے چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔

آپ نے اکثر ہندوستانی ،پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں یہ سنہری ڈائیلاگ ضرور سنا ہوگا کہ ۔۔۔

”لوگ کیا کہیں گے“

تو کئی سالوں کی تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ ”لوگ“ دراصل ہمارے رشتے دار ہوتے ہیں جو ہمارے پیدا ہونے سے لے کر ہمارے مرنے تک ہمارے بارے میں کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔اور میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ لوگ ہمارے مرنے کے بھی بہت کچھ کہتے رہتے ہیں جو کہ ہم سن نہیں پاتے ۔

ایک شاعر کے بقول (جو اپنے رشتے داروں سے بہت ہی تپے ہوئے تھے )

کچھ تو لوگ کہیں گے 

لوگوں کا کام ہے کہنا۔۔۔!!


یوں تو اس رشتے دار نامی مخلوق کی کئی قسمیں ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں مگر آپ کی تفننِ طبع کے لیے چیدہ چیدہ مشہور اقسام حاضر ہیں ۔


(1) پھپھا رپھڑی (فسادی) رشتے دار


جب سے یہ رشتے دار وجود میں آئے ہیں ان کا کام ہی ہر موقع پر رپھڑ یعنی فساد ڈالنا ہے ۔۔۔اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ پورے طمطراق سے اپنی پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں ۔۔اور کسی رشتے دار کی جراءت نہیں کہ ان سے یہ منصب چھیننے کی کوشش کرنے بھی سوچے کیونکہ پھر یہ اس معاملے میں بھی فساد ڈال کر بیٹھ جائیں گے ۔۔۔

ہر شادی ،غمی کے موقع پر فساد ڈالنا ان کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے ۔۔۔بابائے قوم کے مشہورِ زمانہ چودہ نکات کی طرح ان کے بھی ہر شادی اور غمی کے لیے ساڑھے سولہ نکات چار دانگ عالم میں شہرت رکھتے ہیں ۔۔

جیسے کہ بریانی اور پلاٶ میں ان کو کم بوٹیاں ملنا ۔

دلہے اور دلہن کے ساتھ بارات والی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر نہ بٹھانا ۔۔

دلہن کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر دھڑا دھڑ صرف اپنی تصویریں کھنچوانا ۔

شادی میں ملنے والی پہناٶنیوں پر سب سے پہلے ہاتھ صاف کرنا ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ

کسی بھی فوتگی کا سب سے پہلے انہیں بتانا آپ پر فرضِ عین ہے اور اگر آپ نے سب سے پہلے انہیں اطلاع نہیں دی تو پھر سمجھ لیں کہ آپ نے اپنے مردے کا آخری سفر اور بھی مشکل بنا دیا ہے ۔۔اب آپ فسادات کے نہ رکنے والے سلسلے سے نمٹنے کے لیے کمر کس لیں ۔


(2) بڑے پہنچے ہوئے رشتے دار


یہ وہ رشتے دار ہوتے ہیں جن کی روحانی کشف و کرامات کا پورے خاندان میں ڈنکا بج رہا ہوتا ہے ۔۔یہ اور بات کہ یہ ٹین ڈبے والا ڈنکا وہ خود بجا بجا کر نہیں تھکتے ۔

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو  صرف جمعے کے جمعے ہی عطر لگا کر اور سفید کرتا زیب تن کر کے جامعہ مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں ۔۔۔مگر صرف اسی جمعے کی حاضری پر ہی ان پر روحانیت کے وہ در کھل جاتے ہیں جن میں داخل ہو کر یہ ہر رشتے دار کے بارے میں سارے واقعات کی پیشین گوئیاں کر کے آپ کو حیران کرتے رہتے ہیں ۔۔

یہ اپنی روحانی کرامات کی بدولت تھوڑا بہت دم درور خود بھی کر لیتے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کے دم سے اکثر لوگ دم بخود رہ جاتے ہیں ۔

یہ خاندان میں ہونے والے ہر واقعے کو وقت سے پہلے خواب میں دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔خاندان کے سارے فوت شدہ رشتے دار اپنی اپنی قبروں سے خفیہ پیغام رسانی کا کام انہی کے خوابوں کے ذریعے ہی کر پاتے ہیں ۔

بس یوں سمجھیے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو پھر دادی جان عالمِ رویا سے دلاور تایا کے پپو اور انور چچا کی منیا کی شادی کا حکم نامہ بھلا کیسے سناتیں ۔۔

اس لیے ایسے رشتے داروں کو محض رشتے دار نہیں بلکہ نقارہ خدا کہیے ۔


(3) شغلی رشتے دار


جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بڑے شغلی ہوتے ہیں ۔۔۔ان کی زندگی کا اولین مقصد ہی شغل ہوتا ہے ۔۔اب چاہے یہ شغل آپ کی شادی پر ناگن ڈانس کے زریعے پورے پنڈال میں تھرتھلی مچانی ہو یا پھر سوئے ہوئے باراتیوں کے چہرے کا نقشہ بگاڑنا ہو یہ شغلی رشتے دار رنگ میں رنگ ملا دیتے ہیں ۔۔۔

مگر بھلا ہو ان کی شغلی طبیعت کا یہ موت فوت پر بھی شغل لگانے کا موقع نکال ہی لیتے ہیں  ۔۔۔

کیا کہا موت پر کیسا شغل ۔۔۔؟

جی ہاں بالکل یہ اس موقع پر بھی شغل لگانے سے باز نہیں آتے ۔۔۔مرحوم کی چارپائی کو پکڑ کر ایسے لمبے لمبے بین ڈالیں گے کہ بیچاری موت بھی رو پڑے گی کہ کس نیک پاک روح کو لے جا رہی ہوں ۔۔۔

اور پھر انہی لمبے لمبے بین ڈالنے کے دوران مرحوم کی ایسی ایسی خوبیاں بیان کریں گے کہ اگر مرحوم زندہ ہوتے تو خود بھی لاکھ خواہش کے باوجود انکار کر دیتے ۔۔۔۔اور ساتھ ہی گھر والے الگ پریشان کہ دادا جی کی ایسی خوبیاں تو ہم نے نہ کبھی دیکھیں نہ سنیں مگر چونکہ بولنے کی جا نہیں اس لیے منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر چپ کھڑے رہتے ہیں اور ان شغلیوں کا شغل جاری رہتا ہے۔

کچھ شغلی تو اس موقع سے اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ دو چار بین ڈالتے ہی پٹ سے گر کے بیہوش ہوتے ہی مرحوم کی ساتھ ہی چارپائی پر شفٹ ہو جاتے ہیں ۔گھر والے مردے کو چھوڑ کر ان کے سر ہوجاتے ہیں کہ مرنے والا تو مر گیا کہیں یہ بھی آج ہی عدم نہ سدھار جائیں۔۔

اور یہ مزے سے چارپائی پر لیٹ کر جوس کی چسکیاں لیتے ہوئے ہلکے پھلکے بین مرحوم کی خدمت میں برابر پیش کرتے رہتے ہیں ۔۔۔اور چند لواحقین کی طرف سے انہیں وہ وہ داد ملتی ہے کہ رہے نام اللہ کا ۔


(4)میں نے کہا تھا نا ٹائپ دانشور رشتے دار ۔


رشتے داروں کی یہ قسم مشورہ مفت ہے جیسے دانشوروں پر مشتمل ہوتی ہے ۔۔۔یہ ہر معاملے میں آپ کو ایک عدد مفت مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔۔نئی گاڑی خریدنی ہو ، بچے کا نام رکھنا ہو یا شادی کی تاریخ طے کرنی ہو ان کی پٹاری میں سے ہر موقع کی مناسبت سے مشورہ برآمد ہو جاتا ہے ۔

اور اگر آپ نے خدانخواستہ ان کا مشورہ نہ مانا تو پھر یہ خاندان بھر کے سامنے ہر موقع پر یہ تاریخی جملہ کہنا نہیں بھولتے ۔

میں نے کہا تھا نا ۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا کہ میری بات مان لیں ۔۔۔۔۔مگر سچ تو یہ ہے کہ اگر ان کا مشورہ مان بھی لیا جائے تب بھی یہ وہی جملہ دہرانا نہیں بھولتے ۔

کہ میاں میں نے تو کہا تھا یوں نہیں یوں کرنا ہے ۔


رشتہ داروں کی ان  تمام گوناں گو اور نایاب خوبیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے بس ایک ہی دعا ہے کہ ۔۔۔۔۔

ان بیچاروں سے اللہ بچائے 

ان کے واروں سے اللہ بچائے

ان کی معصوميت پر نہ جانا

ان کے دھوکے میں ہرگز نہ آنا

لوٹ لیتے ہیں یہ گھر میں آ کے

رشتہ داروں سے اللہ بچائے


مگر سچ تو یہ ہے ڈان کو پکڑنا اور رشتہ داروں سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.