جوہر عباس ممبئی
رشتہ دار... یہ ایک ایسی عالمگیر صفت ہے جو بلاتفریق مذہب و ملت دنیا کے ہر انسان میں پائی جاتی ہے, آپ کچھ بھی نہ ہوں لیکن کسی نہ کسی کے رشتہ دار ضرور ہوں گے حتی کہ یہ صفت مجھ میں بھی پائی جاتی ہے لہذا ثابت ہوا کہ رشتہ دار ہونا کوئی بری بات نہیں.
اگرچہ کہ یہ تحریر ہر اردو پڑھنے والا پڑھ سکتا ہے مگر فی الحال موردِ نظر ہیں، "بچپن کی یادیں".
اسلئے کہ یہ مخلوق بچپن ہی میں زیادہ اچھی لگتی ہے، خصوصا جب یہ مع اہل و عیال تشریف لاتے ہیں تو خوشی کا عالم نہ پوچھیے.
مدتوں بعد آپ کو وہ بے پناہ پیار ملتا ہے جس کا ایک فیصد بھی اگر والدین خرچ کردیں تو بچے کے بگڑنے کا اندیشہ رہتا ہے.
بزرگوں کی دعائیں، انکلز کے چٹکلے، آنٹیوں کے پیسے، کزنس کے ساتھ کھیل کود... کوئی بلائیں لے رہا ہے، کوئی آپ کو پچھلی ملاقات کی بہ نسبت زیادہ بڑا بتارہا ہے، کوئی گود میں اٹھا کر کہتا ہے،،، ماشاءاللہ کافی بھاری ہوگئے ہو... الغرض کون کون سی نعمتیں گنائی جائیں آپ خود انکل آنٹی ہوں گے سمجھ سکتے ہیں، نہ ہوں گے تو بن جائیں گے اور اگر بننے کا بھی امکان نہیں ہے تو پھر یقین جانئے آپ کے اوپر کبھی ایک اچھا انشائیہ نہیں لکھا جا سکے گا.
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب تک یہ رشتہ دار گھر میں موجود ہیں آپ کوئی بھی شرارت کرلیں ان کے وجودِ نازنیں کی برکت تمام آفاتِ ارضی، سماوی، دستی اور چوبی کو ٹالتی رہتی ہے.
آپ ٹی وی کی آواز تیز کردیں، پیار سے آواز آتی ہے بیٹا ہم بات کررہے ہیں نا.
کتابیں پھاڑ دیں، بیٹا گندی بات ایسا نہیں کرتے.
مردانے کی ضیافت والا ڈبہ لاتے وقت پورے بسکٹ صاف کردیں، کوئی کچھ نہیں بولے گا.
ماموں کو بکرا اور ممانی کو ڈائنا سور کہہ دیں، سب مسکراکر ٹال جاتے ہیں...
اللہ اللہ! اظہارِ رائے اور آزادی بیان کا کیا روح پرور نظارہ ہوتا ہے سقراط اور کارل مارکس دیکھیں تو اپنی "ماڈل سٹی" بھول جائیں.
ایسے ہی وقت دل چاہتا ہے کہ احترامِ والدین کی ساری آیات مع ترجمہ حفظ کرڈالیں.
اکثر ہوتا تھا کہ بازار میں پیسے گرجانے پر دل سے دعا نکلتی تھی، یا اللہ فوقیت تو پیسے کی بازیابی کو ہے لیکن اگر وہ مصلحت یزدانی میں نہ ہو تو کم از کم خالہ کو ہی بھیج دے.
لیکن جو چیز پریشان کرتی ہے یا آپ کو انشائیہ لکھنے پر مجبور کردیتی ہے وہ ان کا رویہ ہے.
خون جل جاتا ہے جب وہ سنجیدہ گفتگو میں اچانک روئے سخن آپ کی طرف موڑ دیتے ہیں... اور ہاں! دخل در معقولات کا یہ خطرہ آپ کے سنِ بلوغت کے بعد اور شدید ہوجاتا ہے لہذا اگر بارہویں پاس کرچکے ہیں تو رشتہ داروں والے دالان سے قطعا نہ گزریں، اور اگر خدانخواستہ گریجویشن کے بعد بے روزگار بیٹھے ہیں تب تو بلانے پر بھی نہ جائیں.
لیکن اگر کبھی پھنس جائیں اور سلام کے بعد گلوخلاصی نہ ہورہی ہو تو ایک بات پہ توجہ مرکوز رکھیں کہ سوالوں کے جوابات ہمیشہ سوچ سمجھ کر دیں، کیوں کہ انہیں ہرحال میں منفی کمنٹ ہی دینا ہے. لہذا جوابات نہ اتنے مختصر ہوں کہ وہ آپ کو منھ چور کہہ دیں اور نہ اتنے زیادہ مفصل کہ وہ ٹوک دیں، بیٹا زرا سانس لے لو.
اب چونکہ ان کے سوالات محض بوریت مٹانے کیلئے ہوتے ہیں اور دریافتِ حال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا لہذا آپ سنجیدہ جواب دینے کی قطعی کوشش نہ کریں کیوں کہ پھر وہ اگلا سوال داغ دیں گے اور اس کے بعد اس سے اگلا... لہذا غیر سنجیدہ جواب دے کر خود کو نہایت بگڑا ہوا بچہ ثابت کردیں اور آئندہ چند برسوں تک کیلئے خود کو محفوظ کرلیں.
ایک دافعِ بلیات اور مجرب نسخہ، مفادِ عامہ میں پیش خدمت ہے:
اور بیٹا کہاں ہو آج کل؟
جی انکل سامنے ہی بیٹھا ہوں
اور آج کل کیا پڑھ رہے ہو؟
جی! نماز کے علاوہ سب کچھ
مستقبل کا کیا ارادہ ہے؟
انکل میں اپنے پڑوسی مستقیم کے تمام خطرناک ارادے جانتا ہوں لیکن یہ مستقبل کون ہے؟
امید ہے اتنے میں وہ چہرہ گھما کر اخبار یا ریموٹ اٹھالیں گے یا میز پر پڑے خلال سے شغل کرنا بہتر سمجھیں گے.
لیکن اگر اس ڈھٹائی کے بعد بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ ہو اور وہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں آپ کے "ایمبیشنز" اور "آبجیکٹیوز" پوچھنے لگیں تو تیزی سے اٹھیں... پوری قوت سے دوڑ لگائیں.... اور صدر دروازے سے نکلتے ہی گلا پھاڑ کر چلائیں...
"مجھے میرے اعزہ سے بچاااااااااااااو"