Type Here to Get Search Results !

ٹکٹ

ابوقتادہ بلال مہاراشٹر




"اماں اچار ملتا ہے بمبئی میں" وہ ہنستے ہوئے بولا۔

" ارے اتنا!!"

"چپ رہ لے تھوڑی دیر تو میں کام کرلوں" اماں اسے گھورتے ہوئے بولیں۔

"ماموں"، وہ احتجاجاً چارپائی کی طرف مڑا۔

 "بیٹے، رکھ لینے دے اسے اچار، آج ماں خوش ہے تیری"ماموں مسکرا رہے تھے۔

"اور ہاں"، اماں آدھا کلو کے ڈبے میں پونا کلو حلوا ٹھونستی ہوئی بولیں،" وہ ارجن سے ٹکٹ لے لیا نا"

"ہاں اماں"

"ہاتھ میں؟"، اماں نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"اماں! ہاتھ میں بھی آجائے گا"۔

 یہ امائیں اتنا گھبراتی کیوں ہیں۔ گھبرا تو وہ بھی رہا تھا مگر بتا نہیں سکتا تھا۔


وہ کمرے سے باہر آگیا۔ 

"ماموں ذرا فون دیجئے"

اس نے ایجنٹ کو فون لگایا۔ کالر ٹون میں ایک خاتون کسی چیز کی بدھائی دے رہی تھیں۔ مگر اسکا ذہن اپنے کنفرم ٹکٹ کی طرف تھا۔

"ہلو، ہلو ہاں شرما" اسنے فون اٹھتے ہی بات شروع کردی"ہلو ہم ہیں بھائی،انل ، یار ہمارا کنفرم ٹکٹ کب ملے گا"۔

"ابے فکر مت کر، کل تیرے ہاتھ میں ہوگا" بے فکرے لہجہ میں آواز آئی۔

"یار  مل جاتا تو تسلی ہو جاتی" انل روہانسے لہجہ میں بولا۔

"یار ٹینشن مت لو تم، کنفرم ٹکٹ میں معاملہ تھوڑا ٹیکنکل ہوتا ہے، تمہارا پہلی بار ہے اس لئے بتا رہا ہوں، ورنہ ہم لوگ زیادہ بات نہیں کرتے "۔

"ہلو۔۔۔۔" فون کٹ چکا تھا۔ شرما ایسے ہی نئے نئے الفاظ بولتا رہتا تھا۔ کہا بھی سچ تھا اس نے، انل بیچارے کو کیا پتا، کنفرم بھی تو پہلی ہی بار ہوا تھا۔ کیا لفظ کہا تھا اسنے؟ ہاں ٹیکنکل۔ وہ اس لفظ کو دہرانے لگا۔


ارجن شرما سے اسکی جان پہچان نئی نئی ہوئی تھی۔ انل اس سے خاصا متاثر تھا۔ شرما ایک دفع بمبئی جا چکا تھا۔ وہ کپڑے بھی تھوڑے چمکیلےپہنتا، بمبئی کے انداز کے۔ انل نے بھی سوچ لیا تھا کہ وہ بھی بمبئی میں کئی جوڑے خریدے گا۔ انل کے ماموں جو اپنی بہن کے بیوہ ہونے کے بعد سے انکے گھر کی سرپرستی کررہے تھے، ایک بڑھئی کے یہاں ملازم تھے۔ انکو انل کا شرما سے ملنا جلنا پسند نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا  آدمی اپنے برابر والوں کے ساتھ اٹھے بیٹھے۔ اور اس شرما کی چال ڈھال پر انکو اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ اسی لئے انکی بہن بھی گھبرا رہی تھیں۔ مگر کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔اس پورے علاقہ میں کنفرم ٹکٹ کا مل جانا کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ اور شرما نے کنفرم ٹکٹ کی گارنٹی لے لی تھی، اپنے جگاڑ پر اسے بڑا ناز تھا۔ بھانجا پہلی دفعہ بمبئی جارہا تھا اس لئے ماموں نے انل کی بات مان لی۔ شرما دوسروں کے مقابلے پیسے بھی کم لے رہا تھا، اس لئے انل اسکا تیز لہجہ سہہ لیتا تھا۔


۔۔۔۔

اگلے دن انل اسٹیشن کے باہر اپنے ماموں کے ساتھ کھڑا تھا۔ 

"بیٹا پوری سیٹ میں آرام سے لیٹ کر جانا"، ماموں سمجھا رہے تھے۔ انکی آنکھوں میں ایک عجیب سا فخر تھا۔ انکا بھانجہ ان سب کو پیچھے چھوڑ کر کنفرم ٹکٹ میں سفر کرنے جارہا تھا، جہاں اسے  کوئی دھکا لگے گا نہ کوئی حقارت سے سیٹ سے اٹھائے گا۔ سیٹ اسکی اپنی ہوگی۔ انہیں اپنا وقت یاد آگیا تھا۔ 


تھوڑی دیر میں شرما اپنے کسی دوست کے ساتھ ٹکٹ لیکر آگیا۔ 

"پرنام ماموں"، وہ انل کی طرف مڑا،"یہ لے ٹکٹ، بہت جلدی مت کرنا ٹی سی کو دکھانے کی ،بہت مشکل سے کنفرم کا جگاڑ کیا ہے تیرے لئے" شرما نے کہا۔

ٹرین آنے میں ابھی بیس منٹ تھے۔ انل اپنے ماموں کے ساتھ اسٹیشن کی جانب چل دیا۔ ٹرین آئی، بوگی میں زیادہ لوگ نہ ہونے کی وجہ سے اطمینان سے سامان چڑھ گیا۔


 ٹرین چل دی۔

"سیٹ نمبر 33" انل ایک بار اپنا ٹکٹ دیکھتا اور ایک بار اپنی سیٹ۔ آج وہ بہت خوش تھا۔ ماموں نے اسکو اپنا موبائل بھی دے دیا تھا کہ بمبئی میں کام آئے گا۔

"ہم موبائل کا کیا کریں گے، تم لے جاؤ، بغل کے گپتا جی ہیں انکا نمبر ہے اس میں، اماں سے بات کرنی ہو تو انکو فون لگا دینا وہ بات کرا دیں گے"


اسنے گپتا جی کے گھر فون لگایا۔ تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد اماں سے بات ہوگئی۔

"ہاں اماں۔۔۔۔ ہاں چڑھ گئے ہیں۔۔۔ہاں ٹکٹ مل گیا تھا۔۔۔۔ہم بولے تھے گھبراؤ نہیں۔۔۔ ماموں پہنچ گئے؟۔۔۔۔ نہیں ابھی زیادہ لوگ نہیں ہیں بوگی میں۔۔۔ شائد اگلے اسٹیشن میں آئیں ۔۔۔۔بڑا اسٹیشن ہے نا آگے۔۔۔۔ہاں کھالیں گے۔ چلتے ہیں "، اس نے فون شرٹ کے اندر کی جیب میں رکھا اور لیٹ گیا۔ وہ سیٹ کو آہستہ آہستہ سہلا رہا تھا۔ آج اسے کوئی سیٹ سے نہیں اٹھا سکتا تھا۔ 

اسکی آنکھ لگ گئی۔


۔۔۔۔۔

کوئی اسکے پیر  زور زور ہلا رہا تھا۔

"اووو بھائی، اٹھو۔۔۔۔۔ او بھائی"

" یار یہ ویٹنگ والے کہیں بھی سوجاتے ہیں"، کئی لوگ زور زور سے بات کر رہے تھے۔

انل گھبرا کے اٹھ بیٹھا۔

"اٹھو بے، یہ ہماری سیٹ ہے"، انل ہی کی عمر کا ایک لمبا لڑکا اسے گھور رہا تھا۔ وہ کئی تھے۔

"یہ سیٹ ہماری ہے"، وہ گھبراتے ہوئے بولا۔ 

"ابے، ہمارا کنفرم ہے یہ دیکھو، 33,34,35، بوگی بھی یہی ہے" ان میں سے ایک لڑکےنے کہا۔


"ابے پڑھنا آتا ہے تمہیں؟"

 وہ سب ہنسنے لگے۔

اب انل کو غصہ آگیا۔ 

"۳۳ ہماری ہے، تم غلط  بوگی میں چڑھ گئے ہو" انل ہمت جٹاتے ہوئے بولا اور اپنا کنفرم ٹکٹ آگے بڑھا دیا۔

ٹکٹ دیکھ کرلڑکے سکتے میں آگئے۔


بات بڑھنے پر بغل کی بوگی سے کسی نے ٹی سی کو بلا لیا تھا۔ سب ٹی سی کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ٹی سی اسی سیٹ پر بیٹھ کر دونوں ٹکٹوں کا معائنہ کرنے لگا۔

"سر اپنی لسٹ میں نام دیکھئے نا"، آئے ہوئے لڑکے بھی پریشان لگ رہے تھے۔

"ہاں بھائی یہ انُج کمار کون ہے؟" ٹی سی لسٹ دیکھتے ہوئے بولا۔ "اپنا آدھار کارڈ دکھائیے"، لمبا لڑکا آگے بڑھ کر اپنی آئی ڈی دکھانے لگا۔ 

"ہاں تو بھائی"،ٹی سی انل کی طرف مڑ گیا، "یہ سیٹ تمہاری نہیں ہے، مگر ٹکٹ تو بہت صفائی سے بنایا گیا ہے" ٹی سی کے چہرے پر حیرانی صاف دیکھی جاسکتی تھی۔

 انل کا ٹکٹ اس لمبے لڑکے نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کافی دیر کے معائنہ کے بعد اسنے انل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا " دوست تمہارے ساتھ کسی نے بڑا ٹیکنکل قسم کا فراڈ کردیا ہے"


"ٹیکنکل" انل بڑبڑیا۔

اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ سیٹ سے ہٹ کر الگ کھڑا ہوگیا اور شرما کو کال کرنے لگا ۔

کالر ٹون بج رہی تھی، کوئی خاتون کہہ رہی تھی،

"ریلوے کی ایمانداری کے  ستر سال پورے ہونے پر دیش واسیوں کو بد۔۔۔۔" فون کاٹ دیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.