آئمہ بخاری پاکستان
رات کا آخری پہر تھا۔ بادل بہت زور سے گرج رہے تھے اور موسلا دھار بارش کے ساتھ ساتھ تیز آندھی بھی جاری و ساری تھی۔ خراب موسم کے پیش نظر شہر بھر کی بجلی بند کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے سارا علاقہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور بجلی کڑکنے کے باعث پیدا ہونے والی لمحے بھر کی روشنی سے کسی بھوت بنگلے کے مترادف لگتا تھا۔ نواحی بستی میں موجود ایک تاریک گھر کے ایک کمرے میں انتہائی پرانی لالٹین کی روشنی ٹمٹما رہی تھی۔ یہ مدھم روشنی بتا رہی تھی کہ لالٹین کا تیل ختم ہونے کو ہے اور آنے والے کسی لمحے میں یہ ٹمٹماہٹ دم توڑ جائے گی۔ ان سب باتوں سے بے نیاز ایک شخص اسی کمرے میں ٹوٹے ہوئے شیشوں والی کھڑکی کے پاس رکھی بوسیدہ کرسی پر براجمان تھا۔ ہاتھ میں قلم تھا جو ویسی ہی بوسیدہ میز پر بکھرے کاغذوں پر باری باری اپنی سیاہی کو الفاظ کی شکل میں ڈھال رہا تھا۔ کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے شیشوں سے بارش کی پھوار کمرے کے اندر بھی آرہی تھی لیکن آج وہ ان سب چیزوں سے بے نیاز اپنا کام کرنے میں مگن تھا۔ یہ شخص اس پرانے گھر کا مالک شیر دل تھا۔ اس کے ماں باپ ایک حادثے کی نذر ہوچکے تھے۔ شیر دل ابھرتا ہوا قلم کار تھا۔ اخلاقیات سے بھرپور کہانیاں اور افسانے لکھنے پر اس کی خوب حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ وہ اپنے اس عمل سے بہت خوش تھا کہ اس بے راہ روی کے دور میں وہ اپنے قلم کی طاقت سے بھلائی کے پھول کِھلا رہا ہے۔
"بلاشبہ تمہارے لفظوں میں جادو ہے شیردل۔ میری شدید ترین خواہش ہے کہ تم محبت پر ایسا شاہکار لکھو جو ادب کی دنیا میں تہلکہ مچادے۔"
ایک مشہور اِدارے کے سربراہ نے اپنی شاطر آنکھیں اس پر جماتے ہوئے اسے سراہا تھا۔ اس بات پر شیر دل نے صرف مسکرانے پر اکتفاء کیا تھا۔ اس کےلیے یہی بہت بڑی بات تھی کہ اِتنے بڑے اِدارے کے مالک نے اسے ملاقات کےلیے بلایا تھا اور اپنے لفظوں سے سراہ رہا تھا۔
"میں چاہتا ہوں کہ تم ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے محبتوں سے لبریز ایک ایسا ناول لکھو جسے پڑھ کر ہر عمر کے قارئین متاثر ہوں۔ ایسا محبتوں کا امین ناول جسے پڑھنے کے بعد سب لوگ محبت کرنے لگیں۔"
اس نے شیر دل پر نظریں جماتے ہوئے اپنی بات مکمل کی تھی جب کہ اب اُسے اِن نظروں سے خوف محسوس ہوا تھا۔
"لیکن سر۔۔۔ایسی محبت پر؟"
شیردل نے الجھن سے صرف اتنا ہی کہا تھا۔ وہ ایسی محبتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا کجا کہ اس پر ناول لکھ ڈالے۔ وہ صرف اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مثبت کہانیاں لکھنا جانتا تھا جو دلچسب اور مقصدیت سے بھرپور ہوتی تھیں۔ لیکن اب اِسے جس شاہکار کی فرمائش کی جا رہی تھی اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
"جی بالکل۔ ایسی محبت کے حق میں بہترین ناول، جسے لکھنے پر نہ صرف تمہیں ہمارے ادارے میں مستقل ملازمت ملے گی بلکہ تمہارے لیے پُر آسائش زندگی کی راہ بھی ہموار ہوگی۔"
اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے شیر دل کی طرف دیکھا اور ایک بھرپور مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی۔وہ شیر دل کے حالات سے واقف تھا اس لیے ملازمت کا لالچ دینا نہیں بھولا تھا۔
"سر میں ضرور کوشش کروں گا۔"
شیر دل نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اپنا جواب دے دیا تھا۔ مستقل ملازمت اور پُرآسائش زندگی کا سن کر اس نے اخلاقیات کو پسِ پُشت ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
"ویری گڈ مائی بوائے۔۔۔کچھ اور رائٹرز بھی لکھ رہے ہیں۔ سب کے پاس یہ ناول لکھنے کےلیے دو ہفتے ہیں۔ یکم فروری شام پانچ بجے تک آپ یہاں اپنے ناول کے ساتھ موجود ہوں۔"
سربراہ نے اسے شاباشی دیتے ہوئے ساری تفصیل سمجھا دی تھی۔
دن بہت کم تھے اور وہ دن رات ناول لکھنے میں مشغول رہتا۔ اُس کے دل کا سکون اس سے روٹھ کر کوسوں دور چلا گیا تھا۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ عجیب سی بے چینی اس کے دل میں گھر کر گئی تھی اور وہ اپنے لفظوں میں حرام محبتوں کو جائز قرار دیتا جارہا تھا۔ آج آخری رات تھی اور یہ بات خوش آئند تھی کہ اب وہ مطلوبہ ناول کی آخری سطور لکھ رہا تھا۔ ایک دم کمرے میں تیز روشنی پھیلی اور بجلی اتنا زور سے کڑکی کہ اس نے بےاختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔
"آج بے سکونی کی آخری رات ہے۔ اس کے بعد مستقل ملازمت اور خوشیاں ہی خوشیاں۔"
کچھ لمحے بعد اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے مسکرا کر سوچا اور کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
صبح ہوئی تو ہرچیز نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھ کھلی تو ہاتھ منہ دھویا۔ موبائل پر شام چار بجے کا الارم لگایا اور ناشتہ کیے بغیر ہی ناول پر نظر ثانی کرنے لگا کیوں کہ اس کے پاس شام پانچ بجے تک کا وقت تھا اور اس نے ہر حال میں پہنچنا تھا۔ سارا دن وہ اسی میں لگا رہا۔ اسے اپنی دو ہفتے کی مسلسل محنت کا پھل ملنے والا تھا۔ ناول دیکھ لینے کے بعد دیوار گیر گھڑی پر وقت دیکھا اور کچھ دیر آنکھیں موند کر آرام کرنا چاہا۔ کچھ ہی دیر میں الارم بج اٹھا۔ وہ جانے کےلیے تیار ہونے لگا۔ نسبتاً اچھے کپڑے پہنے، ناول کی فائل سکوٹر پر رکھی اور سرشار سا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ بڑی سڑک پر پہنچتے ہی تیزرفتار گاڑیوں اور بے ہنگم شور نے اس کا استقبال کیا۔ کچھ دیر وہ یونہی سفر کرتا رہا اچانک کسی چیز سے ٹکرایا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔
اس کی آنکھ کھلی اور سر میں شدید درد کا احساس ہوتے ہی بے اختیار اس کا ہاتھ اپنے سر تک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سوچتا، ایک آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
"مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ آپ نے عام نوجوانوں کی طرح حادثے کے وقت تصاویر بنانے کے بجائے انہیں ہسپتال لے آئے اور ان کی جان بچ گئی۔"
تقریباً پچاس سالہ ایک آدمی جو حلیے سے ڈاکٹر لگ رہا تھا وہ ایک لڑکے کو سراہتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"میں بھی پہلے تصاویر بنا کر آگے چلا جاتا تھا۔ لیکن اب اپنے پسندیدہ مصنف شیر دل صاحب کی اچھی باتیں پڑھ کر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔"
لڑکے نے جیسے ہی جواب دیا ایک مسکراہٹ نے شیردل کے لبوں کا احاطہ کیا۔ شیردل کے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ وہ دونوں اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ لڑکے نے آگے بڑھ کر اس کو موبائل اٹھا کر دے دیا۔
"ہیلو مسٹر شیردل ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔"
اس کے کال اٹھاتے ہی کہا گیا تھا۔
"بہت معذرت میں ویلنٹائن کے حق میں ناول نہیں لکھ سکتا۔ بہت شکریہ۔"
شیر دل نے سکون سے جواب دے کر کال کاٹی تو کمرے میں موجود دونوں نفوس اس کےلیے آنکھوں میں احترام لیے مسکرا دیے۔