Type Here to Get Search Results !

مجھے میرے اعزہ سے بچاؤ

قاسم حمید (ابنِ اعجاز اعظمی)



                             بارہویں کا رزلٹ اور "75 فی صد" ، ہمیں ذرا اطمینان ہوا اور ذہن میں چچا جان کی طیش بھری تصویر کا رنگ اترنے لگا ۔ مگر وہ حضرت بھی موقع کیونکر گنوا سکتے تھے ، تمام ہی رشتہ داروں کی ایک فہرست تیار کی اور بارہویں کا رزلٹ ، پھر بہت تلاش و جستجو سے ایک رزلٹ ملا  "77فی صد" ۔ اب تنبیہ و نصیحت کا پیمانہ چھلک کر ابل پڑا اور ہم نیم جان سوچتے رہ گئے کہ اس حالتِ زار کا سبب چچا جان ہیں یا وہ نامراد لڑکی ، کمبخت   77  کیا  97 فی صد  لے آتی لیکن ہماری "رشتہ داری " میں رہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ 

اگلے دن چھوٹے ماموں دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگے ، دل چھوٹا نہ کرو ، وہ تو اردو آرٹس سے تھی اور تم انگلش سائنس ، تمہارا معاملہ اس سے کافی مشکل ۔۔۔۔ 

" کیا ۔۔۔۔ اردو آرٹس ؟ ، یہ آپ نے کل چچا جان کو کیوں نہیں بتایا ؟ "

"ہم نے کہا نصیحتیں فائدہ ہی پہنچاتی ہیں اور یوں بھی اتنی تیز رفتار گاڑی کو بریک لگانا خطرناک ہوتا ۔

تب سمجھ آیا کہ اصل الزام تو ہمارے خیرخواہ چھوٹے ماموں کے سر ہے ۔ 


        اب کہیے کہ یہ کیسی تمہید ہے ؟ ، تو جناب ! رزلٹ کے حادثے پر رشتہ داروں کی فکرمندی نے دماغ کی چولیں ہلائی نہیں بلکہ اکھاڑ کر رکھ دی ہیں ، اسلئے"اعزہ" لفظ سامنے آتے ہی بس یہی واقعہ قلم پر گردش کررہا ہے ۔ خیر ! 


       اب یہ رزلٹ بصورتِ نقیب اعلانِ جنگ کرنے لگا ، پھر رشتہ داروں کی فوج بھی نصیحت و مشورے کا ہتھیار نکالے ٹوٹ پڑی ۔ 

بڑے خالو کی تلوار نکلی ۔۔۔ "کیا ارادہ ہے ؟ " 

پھوپھا نے نیزہ سنبھالا ۔۔۔۔ " مستقبل کا کوئی منصوبہ ؟ "

چھوٹے خالو نے پیشین گوئی کی تیر چلائی ۔۔۔۔" دیکھو لڑکے ، کتنا ہی پڑھ لکھ لو آگے دکان ڈوری ہی کرنی ہے ، اس لئے ابھی سے لگ جاؤ " 


پھر باری آئی ہمارے خیر خواہ چھوٹے ماموں کی ،  حضرت پہلے تو عینک آنکھوں سے ذرا نیچے کیے ہوئے دیر تک گھورتے رہے پھر نہایت سنجیدگی سے فرمانے لگے ۔۔۔۔ "جتنے منہ اتنی باتیں ، سب کی سنو گے کنفیوز ہو جاؤ گے ، ہماری مانو صرف اپنے دل کی سنو اور دماغ کی کرو ، ۔۔۔۔۔۔ " 

(کچھ وقفے بعد ) ۔۔۔۔ " جہاں تک میں سمجھتا ہوں تمہارے اطوار بالکل ڈاکٹروں جیسے ہیں اچھا پیشہ ہے قوم کی خدمت کا ، البتہ تم نے دماغ تو انجینئروں والا پایا ہے لیکن میں کہتا ہوں انجینئر بننا تو بڑے پیمانے پر ، ۔۔۔ ویسے تمہارا ایک دوست کہہ رہا تھا تم نے بی ایس سی کا ارادہ کیا ہے ، تو فزکس سے کرنا ، میتھمیٹکس سے بھی ٹرائی کرسکتے ہو لیکن آگے کافی دماغ کھپانا ہوگا ، آرٹس کا تو نام ہی نہ لینا ویسے بھی تم نے بارہویں سائنس سے کیا ہے ۔۔۔ اور  ہاں ۔۔۔۔۔  آئی اے ایس وغیرہ کے متعلق کچھ جانکاری ہے ؟ " 


اگر ہمیں قدرت ہوتی تو ان کے آنے والی چار نسلوں تک کی روحیں ضبط کرلیتے ۔۔۔ یا قبض کرلیتے  (شدتِ غصہ کے سبب الفاظ بھی صحیح ادا نہیں ہورہے ) ، 


بہر کیف ! ۔۔۔  اخیر میں نصیحتوں کا پشتارا ڈھوتے ہوئے نہ اپنا رزلٹ یاد رہ گیا نہ منصوبہ ، پھر سمجھ آیا غالب کیوں کہتے تھے ۔۔۔۔۔ 

       " کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غم گسار ہوتا "


           لیکن معاملہ یہیں کیونکر ختم ہوجاتا ، ایک  " دور کے رشتہ دار "  اپنے خلوص و فکر مندی کے "تیور" دکھاتے ہوئے کہنے لگے ، " تمہارے لیے علی گڑھ کا آپشن سب سے اچھا ہے ، ضرور ٹرائی کرو "  ۔۔۔

ہم نے مشورے کے احترام میں یونہی کہہ دیا  ۔۔۔

"جی ۔۔۔۔ کوشش کرتے ہیں " ، اور بھول گئے ۔  پر اگلے ہی دن ایک صاحب کہنے لگے "اچھا پلان ہے " 

"کیسا پلان ؟ " 

" علی گڑھ جانے کا "

(دوسرے صاحب ) ۔۔۔

"کون سا کورس لیا ہے علی گڑھ میں "

(ایک اور ) ۔۔۔۔

" ذوالفقار بھائی سے ٹکٹ کی بات کرلو  ، سلیپر سستا تو ہے لیکن اے سی (A.C) کا بہتر ہوگا

 ..... ہم نے ابھی سوچا ہی تھا کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے تبھی اس "دور کے سازشی" نے نیا مژدہ سنایا ۔۔

" بھئی ہم نے وہاں  ایک پہچان والے سے بات چیت کرلی ہے ، رہنے کھانے کی ذرا فکر نہ کریں "  ۔ 


اس وقت ہم نے دادی سے سنی ہوئی بددعائیں ، کوسنے (۔۔اور سراپنے) وغیرہ کے متعلق جو بھی یاد تھا تمام ہی آں جناب کی طرف منسوب کردیا ( ۔۔۔ اور یقیناً اگلے دن جناب کو ہونے والی پتھری کی درد اور زبان میں چھالے کی تکلیف کا سبب ہم ہی رہے ہوں گے ۔۔۔ بڑوں سے سیکھی باتیں بڑی پر تاثیر ہوتی ہیں ) 

 

۔

           ہمارے رشتہ دار نہایت مخلص  ہیں ، اور  یہ  خلوص برف کی طرح شفاف ہے .... جو  وقتِ ضرورت آسانی سے پگھل بھی جاتا ہے ، اکثر   "بے تحاشہ" ہمدرد بھی ہیں اور اسی ہمدردی میں ہمارے سارے ہی گھریلو معاملات جاننے کا حق بلکہ اختیار رکھتے ہیں ، کچھ تو ایسے نیک خو ہیں جو ہماری  ذاتیات سے اس درجہ پیوست ہیں کہ اب اپنی روح میں بھی ان ہی کے فرشتے نظر آتے ہیں ۔ تلخ تجربات ، دوہرا مزاج ، چاپلوسی ، لگائی بجھائی ، طنز و تشنیع وغیرہ کی اعلیٰ مثالیں ان کے یہاں بڑے پیمانے پر موجود ہیں ، بلکہ بعض دفعہ تو  اشعار کی صحیح وضاحت بھی انہیٖں کے رویوں سے سمجھ آتی ہے ۔ 


          گھر میں خالہ زاد بھائی کا سخت ضرورت کے تحت ایک دو دن کا قیام ہوتا ہے ، پھر عرصے تک یہ مصرعہ ہی رہ رہ کر  "ابھرتا"  ہے ، 

           "حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے"

           ہمارے  بڑے ماموں کے بقول ان کے سارے ہی لڑکے "مطالعے کے شوقین" ہیں ، پس کتابوں کی منتقلی جائز ٹھہری ۔ ۔۔۔۔۔ ایک دفعہ بڑے بھائی نے جوش میں آکر محکمہُ آثارِ قدیمہ کو ساتھ لیا اور ماموں کے یہاں کھدائی کرنے پہنچ گئے ، لیکن مجال کہ ہماری ایک کتاب بھی دریافت ہوسکتی ۔ ہم تو اخیر تک صرف ممانی کی صورت پر نظر ڈالے رہ گئے جن کا  "کتابی سا چہرہ"   اس مصرعے کی غمازی کر رہا تھا ۔۔۔۔۔

           " ........ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم "


    کسی بھی بڑی تقریب میں پہلے تو رشتہ داروں میں مشورے ہوتے ہیں ، پھر سازشیں ہوتی ہیں اور اخیر میں معاملات بگڑ جاتے ہیں ۔ ایک دفعہ ساری پھوپھیاں بیک وقت ناراض ہوگئیں ، سبب یوں ہوا کہ والد صاحب نے چھوٹے چچا کا رشتہ ہمارے  نانہال میں کردیا تھا ، اب شادی کے موقع پر ہر کوئی کچھ نہ کچھ کام میں لگا ہوا ہے اور ہماری پھوپھیاں اپنی تمام لڑکیوں سمیت چھت کے ایک گوشے میں "کھسر پھسر" کئے جارہی ہیں ، ساتھ ہی کھائے جارہی ہیں ۔ غصہ کو وجہ بناکر  ایک بھی زمہ داری نہ اٹھائی گئی البتہ ایک پوری دیگ کی صفائی میں آپ ہی لوگوں کی سعیٔ پیہم کار فرما تھی .....

اب یہ کیسی ناراضگی ہے ؟ 

ایک پھوپھی نے تو خود پر شادی کا ایک گھونٹ پانی حرام کررہا تھا ، لیکن عین ولیمہ کئی درجن روٹیاں چکن فرائی کی پوری ایک تھال اپنے سسرال والوں کو "باندھ" دیا اور ہم منہ تکتے رہ گئے ......

بہرکیف! اس موضوع کو زیادہ کھولنا مناسب نہ ہوگا


           ارادہ کیا کہ مضمون ختم کرتے ہیں  تبھی بڑے ماموں ٹکرا گئے ، حضرت "کئی فن کے  ماہر " سمجھے جاتے ہیں (ہمیں تو فنونِ لطیفہ ہی معلوم ہوتے ہیں) ، البتہ ایک فن ایسا بھی ہے جس کے سبھی قائل ہی ، حضرت بیک وقت کسی سے بات بھی کر رہے ہیں اور تسبیح بھی پڑھ رہے ہیں (ایسے نیک بندے کم ہی ہوتے ہیں) ۔

 ہمیں دیکھ کر کہنے لگے ، " کیوں بے ؟ پچھلی بار تو گاؤں کا بہانہ کرکے ٹال گیا تھے ، اب چار ماہ نہ سہی کم از کم ایک چلّہ تو لگاؤ ۔ " 

"اگلے ہفتے ایڈمیشن .... "

" تمہیں یقین ہے کہ اگلے ہفتے تک زندہ رہ پاؤ گے ؟ " 

" غالباً ممانی صاحبہ نے آواز دی ہے "

( اور ماموں اپنی ہی موت دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے )


بہر کیف ! ہم  اپنے رشتہ داروں کے رنگ و روپ اور خد و خال بدرجہ اتم الفاظ کے سہارے ضبطِ تحریر کرچکے ہیں ۔ اور آپ اس تحریر کی روشنی میں کسی نتیجے پر بآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔ 

                                             

                                         ........والسلام

 


( مضمون پڑھ کر ہمارے دوست احسن فرمانے لگے ، " موضوع "اعزہ" کے متعلق ہے اور آپ رشتہ داروں کو پریشان کئے جارہے ہیں ؟ "

" اصل میں اعزہ کا  "ع"  اور  "ز"  نکالنے میں دشواری ہوتی ہے اسلئے رشتہ داروں پر ہی اکتفاء کرلیا گیا ۔ )

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.