زیبا خان, لکھنؤ
" سرکار.... کچھ دن کی موہلت (مہلت) اور دے دو ہم سارا کرج ( قرض) چکا دیں گے" ، کلیانی رام سنگھ کے پیروں پر گر گئی۔
" چار سال سے تم یہی کہتی چلی آ رہی ہو۔ اگر حساب کر دیا تو سارا کھیت ہمارا ہو جائے گا۔
یہ آخری موقع دے رہا ہوں کلیانی..! اگلی فصل پر اگر پیسے نہیں ملے تو کھیت نہیں جوت سکو گی" ، پیر کی ٹھوکر سے کلیانی کو کنارے کرتے ہوئے وہ جاکر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ گاڑی دھول اڑاتے ہوئے نکل گئی۔
کلیانی ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھی اور اپنی جھوپڑی کی طرف چل دی۔ ایک ایک پیر سو سو من کا ہو رہا تھا، اگر اس بار بھی فصل نہیں ہوئی تو وہ پیسے کہاں سے دے گی۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔
کلیانی مہران داس کی بدھوا ہے، مہران کو مرے ہوئے چار سال گزر چکے ہیں۔ ان چار سالوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب کلیانی کو مہران کی یاد نہ آئی ہو۔
کشن پور گاؤں کا سب سے غریب گھر مہران داس کا ہی تھا۔ اس کے پاس صرف چار بیگھا زمین تھی۔ جو اسے اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھی ۔ دو بھائی اور تھے جو سب کچھ بیچ کر روزی روٹی کی تلاش میں شہر چلے گئے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انھوں نے مہران داس کو بھی شہر بلانے کی لاکھ کوشش کی لیکن مہران کو اپنی زمین سے بے حد محبت تھی۔ وہ گاؤں چھوڑ کر کسی بھی قیمت پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ کھیتوں سے جو بھی اناج لگان دے کر بچ جاتا اسی پر گھر کا خرچہ چلتا تھا۔
مہران کی ایک بیٹی روپا تھی۔ جس کی عمر چودہ سال تھی۔ کلیانی کو روپا کی بڑی فکر تھی۔
"ہماری تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا، کیسے سادی (شادی) بیاہ ہوگا..؟ "،
" تم کاہے کو اپنے ماتھے پر بل ڈال رہی ہو، بھگوان نے دی ہے وہی اس کا وارا نیارا کریں گے...ہم نے سب ان کے ہاتھوں میں چھوڑ رکھا ہے" ، کہہ کر مہران کلیانی کو دلاسا دینے کی کوشش کرتا۔ لیکن دل ہی دل میں بیٹی کی شادی کو لے کر بہت پریشان رہتا ۔
اس دن پوری رات موسلا دھار بارش ہوئی، جھونپڑی سے ٹوٹ کر پانی اندر بھر رہا تھا۔ کلیانی اور مہران رات بھر جاگ کر پانی نکالتے رہے۔ صبح ہوتے ہی مہران کھیتوں کی اور بھاگا۔ وہاں کا نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ پچھلے سال گاؤں کے مکھیا نے اس کے کھیت سے بیسیوں کنتل مٹی نکلوائی تھی۔ گہرائی میں ہونے کی وجہ سے پورا کھیت لبالب بھر چکا تھا۔ ساری فصل تہس نہس ہو چکی تھی۔ روپا کی شادی، اپنا علاج، اور رام سنگھ کا لگان.... یہ سب سوچ کر مہران کو چکر آ گیا، وہ سر پکڑ کر مینڈ پر بیٹھنے لگا، لیکن وزن سنبھال نہ سکا اوندھے منھ کھیت میں گر گیا۔
کافی دیر ہو گئی جب مہران گھر نہیں آیا، کلیانی کو فکر ہوئی۔ وہ ڈھونڈنے کے لیے نکل پڑی، کھیت پہنچ کر جب اس نے مہران کو اوندھے منہ پڑے دیکھا پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ کافی ہلانے ڈھلانے کے بعد جب کوئی حرکت نہیں ہوئی ، کلیانی چیخ چیخ کر رونے لگی۔ تھوڑی دور پر بھولا اپنے کھیتوں سے پانی نکال رہا تھا، آواز سن کر دوڑا آیا۔ مہران کو اٹھا کر گھر لایا گیا۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی، مہران ناک اور منہ میں مٹی بھر جانے سے سانس نہیں لے پایا اور اس کی موت گئی۔
کلیانی پر دکھوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اب اس کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ تھا۔ کیسے کیا کرے گی۔ روپا کا بیاہ کیسے ہوگا۔ یہی سوچ سوچ کر کلیانی کے دماغ کی نسیں پھٹی جا رہی تھیں۔
" روپا ...او ..روپا... سر بہت گھوم رہا ہے، کچھ لگا دے۔ جا تیل لے کر آ..!
" اماں... وہ ...تیل تو سارا بابو جی کی تیرہویں میں ختم ہو گیا تھا "، روپا دھیمی آواز سے بولی۔
تو گھر میں اب کچھ بچا نہیں ہے، سب بابوجی لے کر چلے گئے۔ کلیانی درد کی شدت سے پریشان تھی۔ قدرے تیز لہجے میں بولی۔
روپا چپ چاپ سرہانے بیٹھ کر اس کا سر دباتی رہی۔
یہ بڑے گھروں کے چونچلے ہوتے ہیں۔ شوہر مر گیا تو مہینوں گھر کی دہلیز نہ پار کی۔ کلیانی بیٹھ کر سوگ مناتی تو کھاتی کیا۔ دو دو پیٹ پالنے تھے ۔ کچھ دن رو پیٹ کر کلیانی واپس اسی ڈھرے پر لوٹ آئی۔ روپا کے ساتھ مل کر کھیت کی صفائی کی ۔ رام سنگھ سے کچھ پیسے ادھار لے کر کھیت کی بوائی کر دی۔ کلیانی بہت محنت کرتی، سارا سارا دن دھوپ میں جلتی رہتی۔ کبھی کھیت میں پانی لگا رہی ہے تو کبھی گھاس نکال رہی ہے۔ روپا برابر ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
کہتے ہیں کہ غربت میں نیند اچھی آتی ہے۔ جو بھی روکھا سوکھا بن پڑا کھا لیا اور سو گئے۔ پیسے والے لوگوں کو تو نیند کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں ۔ لیکن کلیانی کو نیند نہیں آتی، وہ رات بھر کروٹیں بدلتی رہتی۔ جس کے گھر میں جوان بیٹی ہو اسے نیند کیسے آئے گی۔ رات اور دن کلیانی بس اسی سوچ میں ڈوبی رہتی ۔ روپا کا بیاہ کیسے کرے ...؟
مہران زندہ ہوتا تو اسے اتنی فکر نہیں ہوتی۔ اب تو اسے ہی سب کرنا تھا ۔
روپا جب کھیتوں میں کام کرنے جاتی ، آس پاس کے کھیتوں میں کام کر رہے لوگوں کی نظریں اسی کے ارد گرد گھومتی رہتیں۔ کلیانی یہ دیکھ دیکھ کر اور پریشان ہوتی۔ کوئی رشتہ بھی تو نہیں آ رہا تھا جو اس کے ہاتھ پیلے کر دیتی۔ ایک روز بھولا سے کہنے لگی،
" بھولا بھیا.... اپنی روپا سیانی ہو گئی ہے ، کوئی لڑکا اس کے لائق ہو تو بتانا، کھیت پر روپے لے کر اس کے ہاتھ پیلے کر دوں گی۔"
بھولا نے ہاں میں سر ہلایا ...ہاں بھوجائی تم انتظام کرو میری نظر میں ایک لڑکا ہے۔ میں بات کرتا ہوں...
"اب تمہارے مہران دادا تو ہیں نہیں ورنہ وہ چھان پھٹک کرتے۔ اب تو جیسا بھی ملے بس بھگوان کی کرپا سمجھ کر قبول کرنا ہے" ، کلیانی بھولا سے کہہ کر خوش ہوتی ہوئی اندر چلی گئی۔
دوسرے دن بھولا اپنے سالے کو لے کر کلیانی کے گھر آیا، کلیانی کو بھولا کے سالے کا رشتہ پسند آیا ۔ اس نے روپا کی شادی طے کر دی۔ بھولا بہت خوش تھا کلیانی کے مرنے کے بعد اس کی زمین سالے کو مل جائے گی۔ اس کا بھلا ہو جائے گا ، اور بھولا کا بھی رسوخ قائم رہے گا۔
جب سے مہران داس کی موت ہوئی تھی کلیانی کو ایک ایک پیسے کی قلت ہو گئی تھی۔ کھیت کی ساری فصل پانی بھر جانے سے برباد ہو جاتی تھی۔ چار سالوں سے کلیانی رام سنگھ سے یہی کہہ کر پیسے لاتی اگلی فصل پر سارا پیسا چکا دوں گی سرکار...! لیکن ہر بار فصل دھوکا دے جاتی اور کلیانی رام سنگھ کی گالیاں سن کر آنسو پونچھ لیتی۔ اب کی بار اسے روپا کی شادی کے لئے کچھ زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی ۔
کلیانی صبح صبح رام سنگھ کی حویلی پر پہنچ گئی۔ نوکروں سے معلوم ہؤا کہ رام سنگھ آج صبح ہی شکار کے لئے چلا گیا ہے۔ شام تک واپس آئے گا۔ کلیانی دکھی من سے لوٹ آئی....! دوسرے دن کلیانی سو کر بھی نہیں اٹھ پائی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی رام سنگھ آیا ہے۔ کلیانی دوڑ کر چارپائی اٹھا لائی.. سرکار اتنی صبح...؟؟
" ہاں کلیانی...مجھے پتا چلا کہ تم کل گھر گئیں تھیں، اس لئے آج ادھر سے ہی نکل رہا تھا سوچا تم سے ملتا چلوں..."
" سرکار ... کرپا ہے آپ کی...! بٹیا کا بیاہ طے کیا ہے اسی لئے گئی تھی۔" کچھ مدد مل جائے تو ہاتھ پیلے کر دوں۔
" بہت اچھی بات ہے... دھوم دھام سے کرو شادی بیاہ...جب تک ہم ہیں کوئی دقت نہیں آئے گی۔ جتنا پیسا لگے سب لگاؤ ۔ تم چنتا مت کرو...."
" دھنیہ ہو سرکار ، آپ جیسے مالک ہوں ہمارا کلیان ہو جائے۔" کلیانی خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ جھٹ سے اندر جاکر روپا کو بلا لائی پیر چھو لو سرکار کے...؟ روپا جیسے ہی اس کے پیروں پر جھکی رام سنگھ نے اس کے دونوں بازو پکڑ لئے ۔ " ارے ارے ... اس کی کیا ضرورت.... کلیانی....انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ آج میں تمہارے کام آؤں گا کل تم ہمارے....."
سرکار ...دل و جان سے آپ کے قدموں میں حاضر ہوں ، حکم کرو سرکار...!!
کلیانی تمہاری مالکن اپنے مایکے گئی ہوئی ہیں۔ اکیلے اتنی بڑی حویلی کاٹنے کو دوڑتی ہے، دن بھر تو شکار پر چلا جاتا ہوں لیکن رات کاٹے نہیں کٹتی۔ ایسا کرو تم روپا کو آج شام حویلی پر بھیج دینا...؟ اب اتنا تو کر ہی سکتی ہو اپنے مالک کے لئے....!
کلیانی رام سنگھ کا منھ تک رہی تھی....ہکلاتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پائی ج ج..جی سرکار.....