زیبا خان، ہردوئی، اتر پردیش، (انڈیا)
ہیلو ...مس فریحہ کیسی ہیں آپ..؟ ڈاکٹر سرفراز نے گرمجوشی سے فریحہ کا استقبال کیا۔
بہت اچھی تو نہیں کہہ سکتی..بس ٹھیک ہی ہوں... آپ بتائیں ڈاکٹر صاحب..؟
میں تو بھلا چنگا آپ کے سامنے ہوں بھئی.. !
وہ تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ فریحہ نے چٹکی لی۔
سرفراز نے فریحہ کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے، خود بھی موونگ چیئر کھسکا کر سامنے ہی بیٹھ گیا۔ شام ہو چلی تھی کلینک پر ایک دو مریض تھے۔ سرفراز نے کمپاؤنڈر کو بلا کر کچھ ہدایات دیں اور پھر فریحہ سے بات چیت کرنے لگا۔
فریحہ آپ ریلیکس ہو جائیں۔ گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں پوچھنا چاہوں گا آپ چائے لیں گی یا کافی..!
آپ جو بھی منگوا لیں، فریحہ نے متشکر لہجے میں جواب دیا۔
سرفراز نے فون لگا کر دو کافی کا آرڈر دیا۔ اور فریحہ کی جانب متوجہ ہوا ۔
آپ کچھ زیادہ ہی مصروف رہتی ہیں فریحہ ۔ کبھی کبھی دوستوں کے لئے بھی وقت نکال لیا کیجئے۔
بالکل سرفراز، آپ کی شکایت بے جا نہیں ہے۔ لیکن میں کیا کروں میرا کام ہی ایسا ہے کہ مجھے زیادہ تر باہر ہی رہنا پڑتا ہے۔ میں بہت کوشش کرتی ہوں کہ آپ لوگوں سے ملاقات کرتی رہوں، لیکن وقت ہی نہیں مل پاتا ہے۔
تبھی ایک ادھیڑ عمر کا شخص مٹیلے رنگ کے کرتے پر سفید لنگی پہنے ہوئے کافی کا ٹرے لیکر داخل ہؤا۔ صاحب ..کافی تیار ہے۔
سرفراز نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا.. رکھ دو ۔ اس نے مسکرا کر فریحہ کی جانب دیکھا اور ٹرے رکھ کر واپس چلا گیا۔
فریحہ کے چہرے پر حیرت و استعجاب کے ملے جلے رنگ نمایاں ہوئے۔ اس نے پرس سے ٹیسو پیپر نکالا اور پیشانی پر ڈھلک آئے پسینہ کو پونچھتے ہوئے سرفراز سے گویا ہوئی۔
کون تھا یہ...؟؟
یہ..جلیل ہے فریحہ میرا نیا خانساماں.! ابھی پچھلے دنوں ہی اسے رکھا ہے۔ کھانا بہت ٹیسٹی بناتا ہے۔ آج رات آپ اس کے ہاتھ کا بنا کھانا کھا کر ہی جائیے گا۔
نہیں .. نہیں.. سرفراز کھانا پھر کبھی آج کے موسم کے حساب سے کافی ہی ٹھیک ہے۔
فریحہ نے کافی کا مگ ٹیبل سے اٹھا لیا اور ایک سپ لیتے ہوئے بدبدائی ۔ عجیب بات ہے ..جس شخص کو چار دن پہلے میں نے مسوری میں دیکھا وہ آج یہاں...اس حالت میں..!!
سرفراز ایک بات پوچھوں آپ سے.!
بالکل.. فریحہ کیا بات ہے۔
کیا ..آپ روحوں میں یقین رکھتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کیا مرنے کے بعد لاشیں بھی حرکت کر سکتی ہیں۔
بالکل بھی نہیں فریحہ، میں ایک ڈاکٹر ہوں اور ڈاکٹر سائنس میں یقین رکھتا ہے۔ سائنس میں روحوں کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ لیکن آپ یہ سب کیوں پوچھ رہی ہیں۔
میں بھی روحوں پر یقین نہیں کرتی تھی سرفراز..!لیکن پچھلے دنوں میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے جس نے مجھے دہشت سے بھر دیا۔
دراصل پچھلے ہفتے مجھے ایک پریس کانفرنس کے سلسلے میں مسوری جانا پڑا۔ میرا ڈرائیور احمد کچھ دنوں سے بیمار چل رہا تھا اس لئے میں نے خود ہی گاڑی ڈرائیو کرنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ احمد نے منع بھی کیا بی بی جی رات کے وقت پہاڑی راستوں پر چلنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ آپ کسی دوسرے ڈرائیور کو ساتھ لے لیں۔ میں نے احمد کو منع کر دیا، تین چار گھنٹے کا تو راستہ ہے، میں خود ہی ڈرائیو کر لوں گی۔
شام کو چھ بجے میں سہارنپور سے مسوری کے لئے نکل پڑی۔ کافی دنوں سے گاڑی ڈرائیو نہیں کی تھی، اور پھر اکیلی ، اس لئے تھوڑا انسکیور فیل کر رہی تھی۔ پہاڑی راستوں پر گاڑی چلانے کا میرا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے، اکثر کہیں آنا جانا ہؤا تو احمد ہی ساتھ جاتا ہے۔ پہاڑی کے ٹیڑھے میڑھے پتھریلے راستوں پر گاڑی کافی ہچکولے کھا رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہیں کسی کھائی میں گر نہ جائے۔ تبھی ایک پہاڑی قبرستان کے قریب پہنچ کر اچانک گاڑی بند ہو گئی۔
اف.. جس کا ڈر تھا آخر وہی ہؤا ۔ میں نے بہت کوشش کی گاڑی اسٹارٹ ہی نہیں ہو رہی تھی۔ میں کافی دیر تک چابی گھما گھما کر اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن گاڑی ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ اندھیرا بڑھ چکا تھا، پہاڑوں پر عجیب ہو کا عالم طاری تھا۔ پہاڑی کیڑے مکوڑوں اور جھینگر کی خوفناک آواز سن کر میری دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔
میں گاڑی سے باہر نکل آئی، آس پاس نظر دوڑائی کہیں کوئی گاؤں نظر نہیں آ رہا تھا۔ اب کیا کروں، کس سے مدد لوں یہاں ۔ دل میں عجیب عجیب طرح کے خیالات آ رہے تھے۔ احمد کی بات مان لینا چاہیے تھا۔ کسی ڈرائیور کو ساتھ لے لیتی۔ مجھے ابھی گاڑی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہے۔
تبھی پہاڑیوں کے درمیان دس بیس قدم کی دوری پر مجھے روشنی دکھائی دی۔ شاید یہاں کوئی رہتا ہوگا، دل میں ایک امید سی جگی۔ میں ہمت کرکے اسی پتھریلے راستے سے روشنی کی طرف چل دی۔ من ہی من ڈر بھی رہی تھی، کہیں کوئی بھوت ووت کا چکر تو نہیں ہے۔ میں جتنا روشنی کے قریب بڑھتی روشنی اتنا ہی دور ہوتی جاتی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا سڑک سے کافی دور نکل آئی تھی۔ اب اور آگے جانا ٹھیک نہیں، میں نے دل میں سوچا اور واپس گاڑی کی طرف لوٹ پڑی۔
ابھی دو قدم ہی چلی تھی کہ میرا پیر کسی چیز سے ٹکرایا ،ایک کربناک آواز نکلی۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔ موبائل کی ٹارچ جلا کر دیکھا ٹوٹی ہوئی قبروں کے بیچ کفن میں لپٹا ہوا ایک نیم مردہ جسم پڑا تھا، جس کا چہرا کھلا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مجھے روکنا چاہا۔ میں چیخ کر پیچھے کی اور بھاگی، گر کر بیہوش ہو گئی۔ کچھ دیر بعد جب میری آنکھ کھلی، تو میں ایک چارپائی پر تھی۔ میرے آس پاس دو عورتیں کھڑی تھیں۔ ایک کی عمر تقریباً چالیس سال ہوگی اور دوسری یہی کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ انھوں نے اشارے سے مجھے اٹھنے سے منا کیا۔ میری سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی اپنے چاروں اطراف دیکھنے لگی ۔ میں یہاں کیسے پہنچی..؟ آپ لوگ کون ہیں.؟ میری گاڑی..! مجھے جانا ہے..؟؟ میں ڈر اور خوف سے ان دونوں عورتوں کو دیکھے جا رہی تھی۔
اندھیرے کی وجہ سے سب کچھ صاف نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
انہوں نے چپکے سے ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہا اور باہر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ عورت چلی گئی، کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر کے شخص کو ساتھ لیے ہوئے واپس آئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میری نبض دیکھی اور آنکھیں بند کر کچھ بدبدانے لگا۔
پھر بولا تمہاری گاڑی ٹھیک ہو جائے گی۔ تم جانا کہاں چاہتی ہو۔
میں مسوری جا رہی ہوں میں نے کانپتے ہوئے جواب دیا۔
کچھ دیر تک تینوں یونہی چپ چاپ کھڑے رہے ، پھر باہر نکل گئے۔
میں چپکے سے اٹھ کر کوٹھری سے باہر آئی۔ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ یہ ایک پرانا سا قبرستان تھا، جس کی اکثر قبریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ وہیں پر بوڑھی عورت چولہے پر کچھ پکا رہی تھی۔ میں ڈرتے ڈرتے اس کے قریب چلی گئی۔ میں نے پوچھنا چاہا، یہ کون سی جگہ ہے۔ کون ہیں یہ لوگ..! وہ ہانڈی میں سے ایک پیالے میں سالن نکال رہی تھی چپ چاپ نکالتی رہی، میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تبھی میری نظر اس کے پیروں پر گئی جو لکڑیوں کی جگہ چولہے میں جل رہے تھے۔ میں گھبراہٹ کے عالم میں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ پسینے سے شرابور سڑک کی جانب بھاگتے ہوئے مجھے میری گاڑی نظر آئی ۔
میرے پیچھے اس بوڑھی عورت کا ہاتھ وہی پیالا پکڑے ہوئے چلا آ رہا تھا۔ بیٹا .. کھانا کھاتے جاؤ.! میں بھاگ کر گاڑی میں بیٹھ گئی ، شیشے چڑھا لیئے۔ تیزی سے گاڑی اسٹارٹ کر وہاں سے نکل گئی۔
مسوری پہنچ کر میری طبیعت کافی خراب ہو چکی تھی۔ ڈر اور دہشت کی وجہ سے میرا بی پی ہائی ہو گیا۔ میں پریس کانفرنس میں شرکت بھی نہیں کر پائی۔ ممبران کو میسیج کر دیا کہ اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے معذرت خواہ ہوں۔
دوسرے دن میں نے احمد کو فون کیا کسی ڈرائیور کو بھیج دو۔ دوپہر تک ڈرائیور آ گیا۔ میں سہارنپور واپس لوٹ آئی۔ طبیعت ناساز تھی اسی لئے آپ کے یہاں چلی آئی۔ لیکن یہاں جلیل...!
فریحہ جلیل بہت اچھا انسان ہے۔ چار پانچ دن پہلے میرے کلینک پر دو لوگ اس کو بیہوشی کی حالت میں لے کر آئے تھے۔ اور چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے کچھ دوائیں دیں، یہ ٹھیک ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ اس کا دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ مسوری میں ایک ڈھابے پر کام کرتا تھا۔ یہاں کیسے پہنچا اسے کچھ یاد نہیں۔
فریحہ نے ٹھنڈی سانس بھری....جانتے ہو سرفراز... وہ نیم مردہ لاش کس کی تھی..!
کس کی تھی...؟؟سرفراز حیرت انگیز نظروں سے فریحہ کی جانب دیکھ رہا تھا۔
...جلیل کی...! فریحہ نے حواس باختہ جواب دیا۔