Type Here to Get Search Results !

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

مرزا صہیب اکرام/ تبسم حجازی



    وجود زن کیا ہے ۔۔۔۔خدا کی ایک تخلیق ہے ، کائنات کا حسن ہے, زمانے کی تکمیل ہے یا زمین پر خدا کے وجود کا سب سے خوبصورت ثبوت یا  مرد کی ایک ضرورت ہے ۔ وہ گھر کی عزت ہے یا بازار کی رونق ہے وہ سراپا رحمت ہے یا باعث ذلت ہے ۔ وہ خدا کا اوتار ہے یا زمین کا کیڑا ہے ۔ وہ سیج سجانے کی ایک مورت ہے یا زندہ جذبوں کا دوسرا نام ہے ۔ وہ ویشیا ہے طوائف ہے یا ماں ہے ، بیوی ہے یا بیٹی ہے ۔وہ دل کا سکون ہے یا جسم کی لذت ہے ۔۔

 

     سینکڑوں القاب بے شمار گالیوں اور لا محدود محبتوں  ، اعتراضوں کے دریا اور خوبیوں کے سمندر ، کہیں صنف مخالف پر برتری کے دعوے اور کہیں ان کے وجود کو ماننے سے انکا ر ، ان تمام حالات عناصر اور واقعات مشاہدات علم اور بحثوں کی کوکھ سے وہ ہستی جنم لیتی ہے جس کے متعلق تینوں بڑے مذاہب کہتے ہیں کہ وہ مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی ہے ۔

 

    مختلف مذاہب اور عقائد کی رو سے عورت کا وجود مرد کے وجود کا ایک حصہ ہے ۔ادب کی زبان میں کہا جائے تو عورت مرد کے وجود سے جدا ہونے والا لافانی حسن ہے جس کے بنا اور جس کے انکار سے دنیا کا ہر مرد ادھورا ہے ۔ مرد کی کامیابی، عزت شہرت ،اس کا علم اور اس کا مکمل وجود ماں کے پیروں کی خاک ہے تو بیوی کے پلو کا بل بھی ہے ۔وہ بہن کے چہرے کی مسکان بھی ہے اور بیٹی کا بوسہ بھی ہے ۔

    عورت مرد کے وجود سے الگ ہوئی یہ بات عقائد سے طے ہوتی ہے ۔لیکن آج دنیا کا ہر مرد عورت کی کوکھ میں پلتا اور وہ اس کو اپنے جسم کے نہاں خانوں میں ایسے پالتی ہے کہ اپنے جسم کی توانائیاں اپنی صحت اس کے حوالے کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کو تشکیل دیتی ہے۔ انسان کا وجود جیسے بنا عورت دنیا میں نہیں آتا ویسے ہی وہ دنیا میں پھلتا پھولتا بھی نہیں ۔مرد کی تکمیل اسی لیے عورت ہے کہ مرد اپنی ذات کے اندر تو پورا انسان بھی نہیں ہے۔ اس کی ذات سے ماں کا ممتا ، بہن کی دعائیں ، بیوی کی ادائیں اور بیٹی کی شوخی نکال دی جائے تو وہ ایک ایسا پتلا ہوگا جو جذبات و خیالات سے عاری ہوگا اور وہ زندگی کو جینے کی بجائے ایک مشین کی طرح چلتے چلتے ایک دن بند ہو جائے گا ۔

    کائنات کے پہلے انسان سے آج تک عورت کا وجود قائم ہے لیکن مذاہب کے بعد انسان جب عائلی اور معاشرتی پھندوں میں الجھا تو عورت کے لیے نت نئے قوانین ، اصول اور ضابطے مرتب ہونے لگے ۔ گھر کی عزت اور فخر بس شب گزری کا سامان بن گئی اسے بس جسم کی ہوس کے قابل سمجھا گیا ۔ وقت کی چکی اس قدر سخت کر دی گئی ہے کہ عورت کے سوچ کی اڑان کو خود اس کے ذہن سے محو کر دیا گیا ۔عورت کے لیے عقل و شعور , تعلیم اور سوچنے کے تمام در اس طرح بند کیے گئے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو افزائش نسل کا ایک ذریعہ اور گلدان میں سجا پھول سمجھنے لگی لیکن اس دور میں بھی جب عورت کو مرد کی چتا پر زندہ جلا دیا جاتا تھا جب عورت کاری کر دی جاتی تھی جب عورت مرد کی ضرورت پوری کرنے کا نام تھا تب بھی خواتین کے ایک طبقے نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور معاشرے میں اپنے وجود کے بقا کی کوشش کی اور جب بھی موقع ملا خود کو مرد کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ اہل ثابت کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ عورت بھی خدا کی افضل تخلیق ہے اور اشرف المخلوقات میں شامل ہے اور اسے بھی زمانے میں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن پر مرد صدیوں سے اکیلا قابض ہے ۔

"مجھے اپنی انسپائر یشن کتابوں اور پینٹنگ سے نہیں خواتین سے ملتی ہیں" ۔۔کیرولین ہرارا


    وقت کی تیز رفتار میں خواتین کی اس کوشش کو پہلی بین الاقوامی پہچان تب ملی جب 8 مارچ کا دن دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔عورتوں کا عالمی دن منانے کا سلسلہ 1914 سے جرمنی میں شروع ہوا اس پہلے نیویارک ،آسٹریا ڈنمارک اور روس میں بھی عورتوں کا دن منایا جاتا رہا  ۔۔یہ دن بنیادی طور پر کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے کام۔کرنے والی خواتین کے حقوق کے لئے مخصوص تھا ۔۔آہستہ آہستہ مختلف ویمن آرگنائزیشن اس میں شامل ہوتی گئیں اور 1975 میں اقوام متحدہ نے اس کو پہلی بار تسلیم کیا ۔

    عورت کے پہچان کی یہ لڑائی کسی مرد کے یا مخصوص قوم کے خلاف نہیں بلکہ وہ صدیوں سے قائم اس استحصالی سوچ کے خلاف ہے جس کا شکار آج ناصرف مرد ہیں بلکہ بہت ساری خواتین بھی اس گھٹن کو جائز و احسن سمجھتی ہیں۔۔ آج ہم زمانہ قدیم سے اکیسویں صدی کے اس جدید ترین دور میں پائی جانے والی ایسی ہی چند خواتین کی زندگی اور شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے نہ صرف مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے ایسے کام کئے کہ تاریخ کے پنوں میں ان کا مقام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا۔۔

 

"ایک ملکہ کی طرح سوچو۔ ملکہ ناکامی سے نہہی ڈرتی ۔۔اس کے لئے ناکامی ایک سنگ میل آگے بڑھنے کا" ۔۔اوپرا ونفری


قلوپطرہ


 

    قلوپطرہ فرعونوں کے خاندان کی نمائندہ خاتون کہی جا سکتی ہے ۔وہ خاندان جہاں نسل در نسل فرعون مسند اقتدار پر قابض رہتے اور عورتوں کا کردار اور زندگی زچگی سے اگر نہ بڑھتی ۔اس ماحول میں قلوپطرہ کو حکومت میں آنا ، اقتدار سنبھالنا اور پھر اس کو عقل و شعور کے ساتھ قائم رکھنے کی کوشش کرنا قلوپطرہ کہ ذہانت و فطانت کا ثبوت تھا ۔

    آج سے 2 ہزار سال قبل کی ایک خاتون کا حکومت کرنا ایک خواب اور افسانوی قصہ محسوس ہوتا ہے لیکن قلوپطرہ نے اس افسانے میں حقیقت کے رنگ بھرے تھے۔تاریخی طور پر جب قلوپطرہ کا زکر کیا جائے تو کہا جاتا ہے وہ اپنے حسن کے جلوؤں، اپنی بھر پور نسوانیت اور قاتل اداؤں کے ساتھ اقتدار پر قابض نظر آتی ہے جس نے اپنے سراپے کے بل پر مسند کو سنبھالا۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ قلوپطرہ نے اقتدار حاصل بھی لڑ کر کیا اور اس کو دوام بھی ہمت و حوصلہ سے دیا ۔

    قلوپطرہ۔۔اس نام کے ساتھ ہی ایسا اساطیری کردار ذہن میں آتا ہے جو انتہائی حسین، چالاک عورت کا ہے۔جس کے حسن کے قصیدے تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔لیکن قلوپطرہ صرف مجسمہ حسن و جمال نہیں تھی وہ اپنے دور میں مصر کی آخری حکمران تھی جس کے بعد مصر رومن ایمپائر کا حصہ بن گیا تھا ۔

    اسکالرز کے مطابق قلوپطرہ کی پیدائش 69 قبل مسیح کو تلومی فرعون خاندان میں ہوئی ۔ان کے والد الیتیس سکندر اعظم کے جنرل تھے اور مصر میں تلومی خاندان کے بانی تھے ۔اپنے والد کی موت کے باعث اٹھارہ سال کی عمر میں قلوپطرہ اپنے دس سالہ بھائی کے ساتھ تخت کی حقدار ٹھہری۔ ملکہ بننا کوئی آسان کام نہیں تھا اس لیے ملکہ بنتے ہی کئی مسائل اس کے سامنے آگئے جن میں قحط اور دریائے نیل کی سطح میں کمی کے علاؤہ اپنے والد کا رومن حکومت  سے لیا بہت بڑا قرض بھی شامل تھا ۔بیرونی مسائل اور پھر معاشرتی سطح پر کمزور  ساتھ ساتھ وہ محلاتی سازشوں میں بھی گھری ہوئی تھی لیکن اس تنہا عورت نے اس سب کا سامنا کیا۔ قلوپطرہ نے اپنے بھائی کا حق ماننے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں مصر میں خانہ جنگی چھڑ گئی ۔قلوپطرہ نے رومن جنرل جولیس سیزر کی مدد حاصل کی اور حکومت کا پلڑا اپنی طرف جھکا لیا ۔۔

    قلوپطرہ اور جولیس سیزر کا تعلق بہت سی کہانیوں قصوں کا حصہ بنتا رہا ۔۔جولیس کی موت کے بعد ان کا بیٹا سیسیریون اپنی ماں کے ساتھ تخت کا وارث بنا۔بیٹے کی موجودگی میں بھی عملی طور پر تمام مصائب کا سامنا قلوپطرہ نے ہی کیا اور وہ اس کے بعد بھی قلوپطرہ کی مصر کے تخت کو بچانے کی لڑائی جاری رہی ۔اس نے سیزر کی موت کے بعد مارک انتھونی سے شادی کرلی جن سے تین بچے ہوئے ۔انتھونی کے ساتھ مل کر قلوپطرہ نے کئی لڑائیاں لڑیں اور آخر کار 30 قبل مسیح میں سیزر کے بھانجے اکٹوین نے مصر پر حملہ کردیا اور مارک انتھونی اور قلوپطرہ کے بحری بیڑے کو شکست ہوئی۔۔

     قلوپطرہ اور اس کے تینوں بچے گرفتار کرلئے گئے لیکن قلوپطرہ نے رومن حکومت کی فتح یابی کے جشن کا حصہ بننے سے صاف انکار کرتے ہوئے زہرسے  10 اگست کو اپنی  جان دے دی اسے اپنے مقبرہ میں شاہانہ انداز سے دفن کیا گیا ۔ قلوپطرہ نے اپنے دور حکومت میں اپنی مملکت کے سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھے ۔ ملکی معاملات، معاشی مسائل سے لے کر مذہبی تقریبات کی سربراہی تک کی۔ اس نے جہاں اقتدار کو اپنے پاس رکھا وہیں اس نے تمام مشکلات کا سامنا بھی کیا اور ہمیشہ تدبر اور عقل و شعور کے ساتھ اپنا اقتدار بچاتی چلی گئی ۔

    قلوپطرہ کے بارے میں کچھ باتیں جو عام طور جانی نہیں جاتی جیسے کہ وہ مصری نہیں یونانی تھی۔ قلوپطرہ آرٹ اور داستانوں میں اپنی خوبصورتی اور نسوانیت کے استعمال کے لئے مشہور ہے لیکن حقیقت میں وہ کہیں ذہین عورت تھی اسے بارہ کے قریب زبانیں آتی تھی ۔اس نے ریاضی ،فلسفہ ، نجوم اور لسانیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔قلوپطرہ کا ہئیر اسٹائل اور جیولری کو اس وقت کے روم میں بھی نقل کیا جاتا تھا اور یہ بھی کہ قلوپطرہ نے کئی لڑائیوں میں بحری بیڑے کی قیادت کی ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تاریخ کے چند ایسے حکمرانوں میں شامل رہی ہے جن کے عروج و زوال سے قطع نظر ان کے ذکر کے بنا تاریخ ادھوری محسوس ہوتی ہے ۔وہ دنیا میں عورتوں کی توانا آوازوں میں اولین نمبرز پر یاد کی جاتی ہے جس نے عورت ہوتے ہوئے نا صرف اقتدار حاصل کیا بلکہ مرتے دم تک اس کی شان کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کی۔

 

 

جواین آف آرک

 



8 Jan   1412  -  30  May   1431


    خواتین نے آرٹ سائنس میڈیکل سمیت تمام شعبوں میں ہمیشہ کردار ادا کیا ہے لیکن عام تاثر یہی رہا ہے کہ خواتین کا جنگ و جدل سے واسطہ نہیں لیکن جب ذکر جوائن آف آرک کا ہو تو یہ تمام مفروضے غلط ہو جاتے ہیں اور انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ ایک کم سن لڑکی نے کیسے کیسے معرکے سرانجام دئیے کہ آج دنیا کی ایک بڑی طاقت فرانس اس کا مقروض ہے  اور ہمیشہ رہے گا ۔ اس اکیلی لڑکی نے اپنے وطن کے کمزوروں کو طاقتوروں کے سامنے لا کھڑا کیا اور ان کو آزادی اور غلامی کے معنی سمجھائے تاکہ وہ عزت سے جی سکیں اور غیرت سے مر سکیں۔

     جواین آف آرک کو عرف عام میں "میڈ آف اورلین" کہا جاتا ہے اور تاریخ کی ایک بڑی سینٹ اور فرانس کی قومی یک جہتی کا سمبل مانی جاتی ہیں۔ جواین قرون وسطی کے فرانس میں ایک معمولی گھرانے میں 6 جنوری 1412 میں فرانس کے علاقہ دوم رومے میں پیدا ہوئیں  ۔۔یہ وہ دور تھا جب فرانس میں تخت کی وراثت کو لیکر صد سالہ جنگ چھڑ چکی تھی۔ریاست کمزور ہورہی اور ملک میں افراتفری کا سماں تھا۔۔برٹش حملوں نے فرانس کی معاشیات کو تباہ کردیا تھا ۔۔اور آپسی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر برطانیہ فرانس پر اپنا تسلط جما چکا تھا ۔۔برطانوی استعمار فرانس کو بری طرح کچل رہا تھا۔

    جواین اور اس کی فیملی فرانس کے تخت اور شاہی خاندان  کے وفادار تھے لیکن ان کا علاقہ برٹش کے حامی برگیڈین کے اثر والا تھا اس لئے انھیں کئی بار عتاب جھیلنا پڑا ان کے گھروں کو جلایا گیا ۔ ظلم و تشدد اور غیر انسانی ماحول میں پل کر جوائن کو انگریز سرکار سے شدید نفرت ہو چکی اور ساتھ ہی ساتھ وہ فرانس سے بے انتہا محبت رکھتی تھی۔محبت و نفرت کے یہ جذبات اس کے لاشعور کا حصہ بنتے چلے گئے اور وہ کم سنی میں ہی اپنے ملک کی آزادی کے لیے کچھ کرنے کا سوچنے لگی۔

    تیرہ سال کی عمر سے جواین کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ فرانس کو بچائے اس لئے اس نے شادی سے انکار کردیا ۔۔وطن کے لیے لگن تھی یا اس کا جنون وہ ابھی سولہ سال کی تھی جب اس نے  بہت مشکل سے مجسٹریٹ کو یقین دلا کر بادشاہ تک جانے کی اجازت حاصل کی۔۔محل تک پہچنے کے لئے اسے دشمنوں کے علاقوں سے گذرنا تھا جس کے لئے اس نے اپنے بال کٹوا کر مردانہ بھیس بدلا اور تخت کے وارث چارلس ہفتم تک پہنچی اور اسے اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ اسے فوج دے جسے لے کر وہ اورلین کو برٹش کے قبضے سے چھڑا لے ۔۔چارلس نے اپنے وزراء کی مخالفت کے باوجود یہ بات مان لی ۔جوائن نے خود اس آرمی کی قیادت کی اور انگریزوں کے حامیوں کو شکست دی ۔جولائی 1429میں وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کنگ چارلس ہفتم کو ریم تک لے آئی اور اس کی تاج پوشی کروائی۔لیکن ابھی اس کا سفر ختم نہیں ہوا تھا بلکہ کئی  معرکے اس کے سامنے تھے۔1430 میں جواین نے دوسری جنگ لڑی کیمپیین نامی شہر میں اور گرفتار ہوگئی۔

     برٹش کے حامی برگینڈین نے جوائن پر عجیب وغریب الزامات لگائے جیسے جادو ٹونا اور مردوں کی طرح بھیس بدلنا وغیرہ ۔۔سال بھر تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد جوائن کو بھرے بازار میں جادوگرنی قرار دے کر جلا دیا گیا ۔ لیکن یہ الزامات اور ایسی موت بھی جوائن کی مقبولیت کو کم نہیں کر سکے ۔اس کی موت کے بیس سال بعد چارلس ہفتم نے اس کے کیس کو دوبارہ شروع کروا کے سارے الزام غلط ثابت کردئیے۔ اس کے بعد اس کا نام فرانس میں عزت احترام اور آزادی کی علامت کے طور پر لیا جانے لگا۔جوائن آف ارک اپنی موت کے بعد ایک اساطیری کردار بن گئی لیکن حقیقت میں وہ ایک بہادر اور نڈر اور کسی حد تک ناداں لڑکی تھی جس نے اتنی کم عمری میں ہی تاریخ میں اپنا نام لکھا لیا۔

     آج فرانس میں جون کی یاد میں  30 مئی کا دن قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لوگ جون آف آرک کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ان کو آزادی جیسی نعمت سے روشناس کرایا اور فرانس غلامی کی لعنت سے باہر آیا۔ تاریخ میں بڑے بڑے جنگجو آئے اور انہوں نے اپنے ملکوں اور قوموں کے لیے گراں قدر کارنامے سرانجام دئیے لیکن اس 19 سال کی لڑکی نے آزادی خودداری اور عزت و وقار کے لیے جو جدوجہد کی وہ تاریخ کے سینے میں محفوظ ہے اور اسے ہمیشہ تکریم کے ساتھ دیکھا جاتا رہے گا ۔

 

ایڈا لولیس



 

10 Dec 1815 - 27 Nov 1852

 

    ایڈا سے قبل اور بعد میں خواتین کا نام کبھی بھی سائنس ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ کی فیلڈ میں نمایاں نہیں رہا لیکن اس فیلڈ میں ایڈا کے آنے سے اس فیلڈ کو اپنی شناخت ملی اور ساتھ یہ تاثر بھی عام ہوا کہ اگر موقع ملے تو خاتون ہونا کوئی معنی نہیں رکھنا۔بات بس موقع ملنے کی ہے ۔ دنیا میں جب جب خواتین کو موقع ملا انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتیوں کا استعمال کر کے خود کو منوایا۔ دنیا میں آئی ٹی شعبہ جتنا بھی ترقی کرئے وہ ہمیشہ ایڈا کا احسان مند رہے گا

     آگسٹا ایڈا کنگ ،اکاونٹیس ۔۔برطانوی ریاضی داں اور دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر کہلاتی ہیں۔۔انگریزی کے مشہور شاعر لارڈ بائرن اور لیڈی بائرن  کی اکلوتی بیٹی جس کی پیدائش پیکڈالی لندن میں ہوئی ۔وہ پہلی انسان تھی جس نے یہ جانا کہ مشین کا استعمال کیلکیولیشن کے علاؤہ دوسرے کاموں میں بھی ہوسکتا یے اور اس چیز کو ایڈا نے الگورتھم سے ثابت بھی کیا ۔۔ آگسٹا کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئی لیکن جاتے جاتے اس کے باپ نے اس کے نام ایک خوبصورت نظم لکھی جس میں اسے ایڈا نام دیا یہی نام آگے زیادہ استعمال ہوا اور امریکی ڈیفینس کی تیار کردہ ابتدائی کمپیوٹر لینگویج اسی کے نام پر ایڈا کہلائی۔

     بیس سال کی عمر میں ایڈا کی شادی لولیس کے کاؤنٹ ولیم کنگ سے ہوئی اور وہ ایڈا لولیس کہلائی جانے لگی۔ایڈا کے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ایڈا کی تعلیم گھر پر ہوئی.اسے بچپن ہی سے ریاضی اور منطق میں دلچسپی تھی جسے اس کی والدہ نے اور بڑھاوا دیا تاکہ وہ اپنے والد کی طرح شاعری نہ کرسکے۔ایڈا کے اساتذہ  میں آگسٹ ڈی مورگن جیسے مشہور ریاضی دان شامل تھے ۔بچپن میں ایڈا بہت بیمار رہا کرتی تھی ۔۔چودہ سال کی عمر میں پیرالیسز کے اٹیک نے کافی عرصہ اسے چلنے پھرنے سے معذور رکھا لیکن اس کی پڑھائی اور سیکھنے میں فرق نہیں آیا ۔۔وقت کے ساتھ ایڈا کے سرکل میں مائیکل فیراڈے اور سر ڈیوڈ بریوسٹر جیسے نامی گرامی سائنس داں شامل ہونے لگے ۔۔1833 میں ایڈا کا تعارف چارلس بیبیج سے ہوا جو "فادر آف کمپیوٹر" کہلاتا ہے ۔۔ چارلس کے Analytical Engine پر لکھے ایڈا کے نوٹس بہت مشہور ہوئے اور اسی میں سے لکھا ایک نوٹ جو "Note-G"کے نام سے جانا جاتا اسے دنیا کا پہلا کمپیوٹر پروگرام مانا جاتا ہے ایڈا کی ذہانت اور تجزیہ کارانہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے چارلس نے اسے نمبروں کی ساحرہ کا نام دیا تھا

      ایڈا نے انسانی دماغ میں آنے والے خیالات کو سمجھنے کے لئے بھی ایک mathematical model بنایا تھا اس کے علاؤہ ایڈا نے کئی ریسرچ پیپرز بھی لکھے۔ریاضی کے علاؤہ میٹا فزکس میں بھی ایڈا کی دلچسپی رہی یہ ساری کامیابیاں ایڈا نے صرف 37 کے عرصہ میں حاصل کرلی تھیں ۔ صرف سینتیس سال کی عمر میں کینسر سے ایڈا کی موت ہوگئی ۔۔ایڈا کے نام سے کئی ایوارڈز منسوب کئیے گئے ہیں .ایڈا نے نا صرف ریاضی اور  پروگرامنگ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بہترین شاعرہ بھی تھیں۔

    ان کو آج ہم  کمپیوٹر سائنس دان،  موجد،  مترجم،  مصنفہ،  انجینئر  کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں۔ بے شمار خوبیوں سے مزین شاندار شخصیت کی مالکہ اور اپنی فیلڈ میں بانیان کا درجہ پانے والی اس عظیم عورت کی موت صرف سینتیس سال کی عمر 27 نومبر 1852 کو کینسر سے ہوئی۔ آج ایڈا کے نام سے کئی ایوارڈز منسوب کئیے گئے ہیں۔اکتوبر میں ایڈا کا دن منایا جاتا ہے تاکہ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی فیلڈ میں خواتین کی دلچسپی اور تعداد بڑھے۔اور دنیا یہ یاد رکھے کہ یہ شعبے جن میں آج بھی خواتین کم ہیں اس کی موجد اس کی بانی اور اس کو جلا بخشنے والی ایک خاتون ہی تھی

 

فلورنس نائٹ اینگل



12 may 1820 - 13 Aug 1910

 

    دنیا کے کسی شعبہ کو دیکھا جائے وہ عورت کے ذکر کے بنا مکمل نہیں ہوتا بلکہ ہوں کہنا چاہیے کہ ہر وہ شعبہ دنیا میں قابل عزت اور معتبر قرار پایا جس میں خواتین نے اپنی زندگیاں لگا دیں ۔ میڈیکل کے شعبے میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب خواتین کا وجود مفقود تھا بلکہ اس شعبہ کو شعبہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ لیکں پھر ایک عورت کی محنت جذبے ایثار قربانی اور لگن نے ساری دنیا کو ایک نئے شعبے سے متعارف کروایا جس کو ہم آج نرسنگ کہتے ہیں۔فلورنس نائٹ اینگل نے اپنی زندگی جنگ کے میدانوں میں زخمیوں کو بچاتے ہوئے گزار دی اور جب وہ حالت امن میں آئیں تب بھی اس کام میں اتنی لگن سے جٹی رہیں کہ دنیا کو تسلیم کرنا پڑا کہ نرسنگ کے بنا صحت کا ہر منصوبہ ادھورا ہے ۔

    فلورنس ایک برطانوی نرس ،سوشل ورکر اور ماہر شماریات تھی جس نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھی۔انھیں لیڈی ود دی لیمپ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا یے ۔اس نے سینٹ تھامس اسپتال اور نرسوں کے لئے نائٹ اینگل ٹریننگ اسکول کی بنیاد رکھی ۔۔اس کی کوشش نے انیسویں اور بیسویں صدی میں صحت عامہ کے شعبہ کو نئی زندگی عطا کی ۔

    فلورنس کی پیدائش اٹلی کے شہر میں پیدا ہوئی اس کا گھرانہ برطانیہ کے خوشحال اور معزز طبقہ سے تعلق رکھتا تھا ۔۔اس کے والد دو بڑی اسٹیٹ کے وارث تھے فلورنس کی نشوونما لی ہرسٹ نامی اسٹیٹ پر ہوئی جہاں اس نے روایتی تعلیم کے ساتھ جرمن ،فرنچ اور اطالوی زبانیں سیکھی ۔کم عمری سے فلورنس مخیر اور غریب پرور تھی اپنے اس پاس رہنے والے غریبوں کی خبر گیری اور دیکھ بھال کیا کرتی تھی وہ اسے خدا کی سونپی ذمہ داری سمجھتی تھی ۔

    اس دور میں امیر گھرانے کی لڑکیوں کے لئے نوکری کرنا معاشرہ میں شرمندگی کا باعث ہوتا تھا اسی لئے فلورنس کے والدین نے نرسنگ جوائن کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی لیکن بائیس سال کی عمر میں فلورنس نے اپنے شوق کی تکمیل اور جذبہ خدمت سے معمور ہو کر جرمنی میں نرسنگ اسکول جوائن کرلیا۔

    1850 میں فلورنس نے برطانیہ کے اسپتال میں نوکری کر لی اور وہاں پھیلی کالرا جیسی خطرناک وبا کا مقابلہ بڑی مہارت سے کیا ۔جب مریض کو اس کے عیال بھی تنہا چھوڑ جاتے ہیں ان حالات میں ایک جوان لڑکی کا ان کو گلے لگانا بہت بڑی بات تھی لیکن فلورنس نے خود کو انسانیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس لیے وہ انسان کو انسان سمجھ کر اپنا لیتی تھی ۔ 1853 میں روس اور برطانیہ کے بیچ چھڑی کریمین جنگ میں فلورنس کو سیکریٹری آف وار کی طرف سے خط لکھ کر درخواست کی گئی کے کہ وہ نرسوں کا ایک گروپ ساتھ لے جاکر زخمی سپاہیوں کی دیکھ بھال کرے ۔ فلورنس اپنے ساتھ نرسوں کی ٹیم لے کر قسطنطنیہ پہنچی اور انتہائی بدترین حالات میں حوصلے سے کام کیا اور سپاہیوں کی جانیں بچائی یہیں اسے لیڈی وتھ دی لیمپ کا نام دیا گیا کیونکہ وہ راتوں کو اٹھ کر زخمیوں اور بیماروں کی خبر گیری کرتی تھی۔جنگ و جدل اور خون آشام ماحول میں جب مارنے والوں میں اعزازات دیے جاتے تں یہ سرپھری انسانی جانیں بچا کر جنگ کے میدان میں انسانیت کا درس دیتی رہی۔

    ڈیڑھ سال اس کیمپ میں گذارنے کے بعد جب فلورنس برطانیہ لوٹی تو اسے کوئین کی طرف سے خطیر رقم کے ساتھ شاندار استقبال بھی ملا ۔ فلورنس نے کوئین وکٹوریہ اور چند ماہر معاشیات کے ساتھ مل کر ہیلتھ کئیر کے لئے جو ڈائیگرام بنایا تھا اسے "نائٹ اینگل روز ڈائیگرام " کہتے ہیں ۔۔جس نے صحت عامہ اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل سے کم ہونے والے اموات کی معلومات عام فہم ڈھنگ سے لوگوں تک پہنچائی۔۔۔اس کے بعد بننے والے سینٹ تھامس اسپتال اور نرسنگ اسکول نے فلورنس کو مقبول عام کردیا ۔۔۔اس کی تعریف میں اشعار اور ڈرامے لکھے جانے لگے ۔۔

    جنگ کے دوران سپاہیوں کی دیکھ بھال کرتے کرتے فلورنس خود بھی بیماری کا شکار ہوگئی تھی اور اس بیماری نے صرف 38 کی عمر میں فلورنس نائٹ اینگل کو گھر اور بستر کا قیدی بنادیا ۔۔۔لیکن اس چیز نے اسے کام کرنے اور صحت سے متعلق نئے اقدام کرنے اور لوگوں سے ملنے ملانے سے نہیں روکا ۔۔اور عمر کے آخری دور میں بھی وہ امریکی سول وار اور انڈیا کے پبلک سینیٹیشن ایشو پر کام کرتی رہیں ۔۔اور نوے سال کی عمر تک ایک بھر پور زندگی جیتے ہوئے دنیا سے رخصت لی۔اس نے زندگی میں وہ کام کیا جو اس کے دل کی آواز تھی اس نے ایسا شعبہ چنا جس سے عام لوگ گھن کھاتے ہیں۔لیکن اس نے اتنی محنت اور اپنائیت سے یہ کام کیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی ۔

    فلورنس نے اپنی زندگی جوانی بڑھاپا انسانیت کے لیے ایسے صرف کیا کہ وہ دنیا کے لیے مثال بن گئی۔اس نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ اگر بڑھنے کے لیے صرف سچی لگن اور نیک جذبات درکار ہوتے ہیں۔اج دنیا میں جتنی بھی نرسنگ ہے اور جو جو جدیدیت اس شعبہ میں آج برپا ہے اس کے تانے بانے فلورنس سے جا ملتے ہیں ۔جو انسانیت کے لیے مثال بھی ہے اور معراج بھی ہے ۔فلورنس کی شبانہ روز محنت کے بعد لفظ مسیحا کو اپنے حقیقی معنی ملے۔دنیا کو یہ سبق ملا کہ اگر انسان انسان کا دکھ بانٹنے لگ جائے تو یہی انسانیت کہ حقیقی ترقی ہے ۔

میری کیوری



 

7 Nov 1867 - 4 July 1934

 

    خواتین کو ہمیشہ گھر گرہستی کے قابل سمجھا جاتا ہے۔صدیوں سے قائم پدر شاہی نظام میں خواتین کو چولہا چوکھا اور گھریلو زمہ داریوں کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا جاتا رہا۔ جب دنیا نے کروٹ لی اور خواتین نے معاشرے میں اپنا کردار مخلتف اندازوں میں ادا کرنا شروع کیا تب سے ان کے لیے کچھ مخصوص شعبوں کا شور اٹھا جیسے خواتین ٹیچنگ کر سکتی ہیں یا وہ نرسنگ کر سکتی ہیں۔ قصہ مختصر خواتین کے لیے وقتی طور پر جن شعبوں کو سماج میں حلال کیا گیا ان میں آرٹس سے متعلقہ زیادہ ادارے تھے ۔ سائنس اور آئی ٹی میں مدتوں تک خواتین کو غیر موزوں سمجھا جاتا رہا۔ جہاں بات جسمانی مشقت کی آئی پہلے وہاں سے خواتین کو نکالا گیا اور پھر ذہنی مشقت کے شعبوں سے بھی خواتین کا اخراج کیا گیا ۔ ایسا ماحول بنایا جاتا رہا کہ خواتین کو اول تو کام کرنا ہی نہیں چاہیے اور اگر بہت ضروری ہو تو وہ کاؤنٹر گرل بن جائے یا چند ایک ایسے شعبے تجویز کیے گئے جہاں عورت نمائش کے طور پر براجمان رہے یا پھر وہ بس ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکے ۔

    لیکن تاریخ ایسی خواتین کے نام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے جنہوں نے پدر شاہی نظام میں خود کو ناصرف منوایا بلکہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر خود کر مردوں کے شانہ بشانہ ہی نہیں ان سے کہیں زیادہ قابل ثابت بھی کیا ۔ایسی عظیم خواتین کی امام اور سب سے بلند نام کا اگر ذکر کیا جائے جس نے سائنس کے شعبے کو ایسی ترقی دی کہ نوبل پرائز اس کے قدموں میں جھک گیا وہ مادام میری کیوری تھی۔میری کیوری نے طبعیات اور کیمیاء کے شعبے میں ایسی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں کہ ان کے نام کے بنا یہ شعبے ادھورے ہیں۔

    مادام کیوری پولش نژاد فرانسیسی ماہر طبیعیات اور ماہر کیمیا تھی ۔۔ان کی پیدائش وارسو پولینڈ میں ہوئی۔۔ان کی فیملی کو پولینڈ میں اپنے سیاسی رجحانات کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اپنی تعلیم کے لئے میری کیوری کو کافی محنت اور جدو جہد کرنی پڑی انھیں اور ان کی بہن کو خاتون ہونے کے باعث کسی ادارہ میں داخلہ نہیں ملا آخر کار وارسو کی فلائنگ یونیورسٹی میں انھیں داخلہ ملا جس کے بعد کچھ سال ٹیوٹرنگ اور چھوٹی موٹی نوکریوں کے بعد یونیورسٹی آف پیرس میں داخلہ حاصل کیا۔ دوران تعلیم میری نے بہت مشکلات جھیلیں۔انسان کا زہن جب واضح ہو اور نظر منزل ہو پھر راہ کہ تمام رکاوٹیں معمولی محسوس ہوتی ہیں۔اس لیے میری کیوری نے سب مشکلات کا سامنا ہمت سے کیا لیکن اس کے قدم کبھی ڈگمگائے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ آگے بڑھتی رہی۔

    تعلیم مکمل ہونے کے بعد اپنے کام کے دوران ان کی ملاقات پیری کیور نامی فرنچ سائنٹسٹ سے ہوئی جو بالآخر  شادی میں بدل گئی  دونوں نے ساتھ ساتھ سائنس کی فیلڈ میں کئی کارنامہ انجام دئیے ۔۔ 1993 میں وہ نوبل پرائز حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔وہ ایورڈ جس کو حاصل کرنے کی حسرت کروڑوں انسانوں کے دل و دماغ میں ہر وقت رہتی ہے اس ایوارڈ کو بھی انھوں نے لینے جانے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ تقریبات میں شرکت کی جگہ اپنے کام پر توجہ دینا پسند کرتی تھیں ۔وہ دو بار مختلف فیلڈ میں نوبل پرائز حاصل کرنے والی اکلوتی خاتون ہیں ۔اس کے علاؤہ فرانس یونیورسٹی میں بطورِ پروفیسر تعینات ہونے والی پہلی خاتون بھی ۔ ان کے سب سے نمایاں کارنامہ میں تابکاری پر کی ان کی ریسرچ ہے جس پر انھیں طبیعیات کا نوبل پرائز ملا ۔ اور دوسرا اہم کام ریڈیم اور پولونیم کی دریافت ہے جس کے لئے انھیں 19011 میں دوسرا نوبل پرائز ملا ۔۔ ۔۔نوبل پرائز کے علاؤہ بھی ان کو کئی ایوارڈز ملے ۔۔2011 کو فرانس اور پولینڈ نے میری کیوری کا سال ڈکلیئر کیا تھا۔۔مادام میری کیوری کی تحقیق ریڈیم کے شعبہ میں ایک سنگ میل ہے ان کے متعین کردہ خطوط پر آج بھی کام کو رہا ہے ۔

     مادام کیوری نے 1920 میں کیوری انسٹیوٹ آف پیرس اور 1932 میں کیوری انسٹیٹیوٹ آف وارسو کی بنیاد رکھی یہ دونوں آج بھی میڈیکل ریسرچ کے مراکز ہیں ۔پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے فیلڈ اسپتال کے لیے موبائل ایکسرے یونٹ بنائے۔۔ کیوری نے اتنی مصروفیت کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت اور انھیں اپنے کلچر سے جوڑے رکھنے کی پوری کوشش کی ۔۔ انھیں یہ ساری شہرت آسانی سے نہیں ملی ۔۔فرانس میں عوامی رائے ان کے بارے میں اچھی نہیں تھی ۔اور انھیں کئی اسکینڈلز میں بھی انوالو کیا گیا لیکن وہ اپنے کام میں لگی رہیں ۔۔ایکسیڈنٹ میں ہوئی پیری کیوری کی موت بھی انھیں اپنے کام سے الگ نہیں کرسکی ۔۔1934 میں ان کی موت ہوئی اور اس کی وجہ تابکاری کی ریسرچ سے ہونے والی بیماری بنی۔

     سائنس کی دنیا میں مادام میری کیوری کا نام اولین ناموں میں لیا جاتا ہے جن کی وجہ سے اس شعبے میں نئی نئی چیزیں سامنے آئیں۔اپنی قابلیت اہلیت اور ذہانت سے میری کیوری نے ثابت کیا تھا کہ عورت ہونا کسی رکاوٹ کا نام نہیں ہے اگر موقع ملے اور انسان عزم و ہمت سے کام لے تو وہ مرد ہو یا عورت ضرور تاریخ رقم کر سکتا ہے۔ یہ عظیم خاتون 4 جولائی 1934 کو انتقال کر گئی لیکن اس کا نام اس کا کام جو انسانیت کے لیے تریاق کی حیثیت رکھتا ہے آج بھی زندہ ہے

روزا پارک

 



 

4 Feb  1913 -24  Oct 2005

 

 

"میں برسوں میں سیکھا کہ جب انسان فیصلہ کرلے کہ اس کچھ کرنا ہے تو سارے خوف ختم ہوجاتے ہیں " ۔۔روزا پارک

     دنیا میں آج تک جو لعنت کسی نا کسی شکل میں موجود ہے وہ نسلی تعصب ، معاشرتی تقسیم اور گورے کالے رنگ کی جنگ ہے۔دنیا کا ہر خطہ کبھی نہ کبھی کسی لسانی سماجی معاشرتی تقسیم کا حصہ ضرور رہا ہے۔دنیا میں تہذیب آداب کلچر اور انسانی حقوق کے ضامن اور خودساختہ نمائندے بھی کسی دور میں نفرت کی بنیاد پر کار ریاست چلاتے رہے  ہیں۔۔ امریکہ میں نسلی تقسیم بہت پرانی ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب کالے رنگ کا انسان ہونا گالی تھا۔ کالے مرد و زن زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ذلیل کیے جاتے تھے کہ دنیا کے بعض حصوں میں کالوں سے زیادہ حقوق جانوروں کے محسوس ہوتے تھے۔ اس دور میں جب ہر آواز خاموش کرا دی جاتی تھی اور مرد بھی اپنے حق کی بات کرنے سے ڈرتے تھے تب ایک عورت نے اپنی اور اپنی قوم اپنے رنگ نسل کی عزت خوداری کی جنگ ایسے لڑی کی وہ رہتی دنیا تک کے لیے روشن مثال بن گئی۔دنیا میں جب بھی انسانی حقوق کی بات ہوگی ایک نام جو ہمیشہ انسان کے زہن میں ابھرے گا وہ روزا لوئس پارک کا ہوگا جس نے تب حق کہ صدا بلند کی جب امریکہ میں سیاہ فارم آبادی کے لیے سانس لینا بھی محال کر دیا گیا تھا ۔

    روزا لوئس پارک کو "فرسٹ لیڈی آف سول رائٹس" اور  " مدر آف فریڈم مومنٹ" جیسے ناموں سے یاد کیا جا آتا یے. روزا امریکی ریاست الاباما میں پیدا ہوئی ان کی والدہ لیونا ایک  ٹیچر اور والد ایک کارپینٹر تھے ۔۔وہ اپنی ننھیال میں بڑی ہوئیں جو مونٹیگمیری کے ایک فارم پر رہائش پزیر تھے ۔۔روزا نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی اور پڑھائی کے دوران ہی چھ سال کی عمر سے روزا نے اپنی ماں اور نانی کےساتھ رضائیاں بنانے کا کام شروع کردیا تھا ۔

    بیسویں صدی کی ابتدا میں متعصبانہ "جم کرو" نامی قانون پاس ہوا جس نے نہ صرف سیاہ فاموں کو ووٹ کے حق سے محروم کیا بلکہ سارے پبلک مقامات اور اسٹورز پر نسلی تفریق کی بنیاد پر سیاہ فاموں کے لیے الگ سیکشن بنا دئیے۔۔بسوں اور ٹرینوں میں کالے اور گوروں کی علیحدہ سیٹس ہونے لگی ۔۔کالوں کے لئے معمولی درجے کے الگ اسکول بنائے گئے۔۔۔روزا نے ایسے نسلی تعصب سے بھرے ماحول میں اپنا بچپن گزارا ۔۔

    اکیس سال کی عمر میں روزا نے ریمنڈ پارک سے شادی کی جو ایک سوشل ایکٹویسٹ گروپ NAACP کے ممبر تھے ۔روزا نے معمولی قسم نوکری کرتے ہوئے اپنا ہائی اسکول مکمل کیا اس وقت مشکل سے سات فی صد افریقن امریکن ہی ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر پاتے تھے ۔۔۔ دسمبر  1955 کی شام روزا پارک نے ایک بڑا قدم اٹھایا جو بلیک موومنٹ کا ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوا۔ مونٹیگمیری سٹی کی بس میں پچھلے حصہ میں افریقن امریکن کے لئے کچھ سیٹ مخصوص ہوتی تھی۔لیکن بس میں سفید فاموں کی سیٹ فل ہوجانے پر ان سیٹوں پر بیٹھے سیاہ فاموں کو اپنی سیٹ سے اٹھنا پڑتا تھا ۔۔۔لیکن روزا نے اٹھنے سے انکار کردیا اس حرکت کے لئے اسے جیل جانا پڑا ۔۔لیکن اس چیز پوری افریقن کمیونٹی کو مہمیز کردیا ۔۔پورے شہر میں بسوں کا بائیکاٹ شروع ہوا جو 380 دنوں تک چلا اور آخر کار کورٹ نے سیاہ فاموں کے ساتھ اس سلوک کو غیر آئینی تسلیم کرلیا ۔۔

    روزا نے سیاہ فاموں کے ساتھ ہونے والے نسلی تعصب اور ان کی جدو جہد کو بین الاقوامی سطح تک پہچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ۔۔ الاباما میں اپنی گرفتاری اور احتجاج کے بعد روزا کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ۔۔۔اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ ڈیٹروئڈ منتقل ہوگئی وہاں سیاہ فاموں کے ساتھ مختلف مسائل جیسے گھروں کے معاملے تعصب اور پولس کی زیادتیوں کے خلاف کام کیا ۔۔اس کے علاؤہ سیاسی قیدیوں کی آزادی کے لئے بھی جدوجہد کی ۔۔

    ستر کی دہائی میں روزا پارک نے کئی ذاتی صدمہ سہے ۔۔شوہر اور اکلوتے بھائی کی موت کے علاؤہ معاشی سختیاں برداشت کی۔۔۔اپنی اتنی شہرت کے باوجود روزا معاشی طور پر بہت برے حال میں رہی کیو نکہ وہ اپنی ساری آمدنی سماجی کاموں میں خرچ کردیتی تھی۔سترسال کی عمر تک پہنچنے کے باوجود روزا نے سماجی مسائل سے لڑنا نہیں چھوڑا ۔۔۔اور روزا پارک اسکا لرشپ فاؤنڈیشن اور روزا ریمنڈ پارک انسٹیٹیوٹ فار سیلف ڈیولپمنٹ بنایا ۔جہان نوجوانوں کو سول رائٹس کے بارے متعارف کرایا جاتا ۔۔اسی سال کی عمر روزا نے اپنی آٹو بائیو گرافی شائع کی جس کے ذریعہ نوجوان نسلوں کو اپنی زندگی کی جدوجہد سے متعارف کروایا۔۔۔

    روزا ان چند  گنے چنے لوگوں میں سے جنھیں حکومت میں نہ ہوتے ہوئے بھی سرکاری اعزاز سے دفنایا گیا .روزا کے اعزازات میں کئی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے علاؤہ ان گنت میڈلز اور ایوارڈ اور اوول آفس میں ان کا بسٹ  شامل ہیں لیکن سب سے اہم ہے کہ جس مونٹیگمیری میں روزا کو سیٹ سے اٹھانے کے لئے پولس آئی تھی اسی شہر نے روزا کی موت پر سارے شہر کی بسوں کی پہلی سیٹ پر سیاہ ربن باندھ کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔۔۔

    جب جب انسانی حقوق کا ذکر ہوگا اور ان لوگوں کو یاد کیا جائے گا جن کی بدولت دنیا سے جہالت نفرت اور تعصب کو شکست ہوئی اور جن چند ناموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں ایک معتبر نام روزا پارک کا ہوگا۔روزا کا نام صرف اس وجہ سے معتبر نہیں ہے کہ اس نے اپنی قوم کے لیے آواز اٹھائی بلکہ اس کی عزت و تکریم اس وجہ سے ہے کہ اس نے دنیا کی تمام محکوم قوموں نے جینے کا سلیقہ عطا کیا جب دنیا نیلسن منڈیلا کو یاد کرتی ہے تو اس سے پہلے روزا کہ عظمت کو سلام کیا جاتا ہے کیونکہ روزا تب اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب کسی میں بھی حوصلہ نہ تھا اس نے دنیا کو یہ بتایا تھا کہ گورے کی کالے یا کالے پر گورے کی فوقیت کی بات کرنا ہی بدترین جرم ہے اگر تمام انسان برابر نہیں تو دنیا میں کبھی بھی امن اور انسانیت نہیں پنپ سکتی ۔ اس لیے روزا آج انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کا استعارہ ہے ۔

 

 

مدر ٹریسا

 



 

26 Aug 1910 - 5 Sep 1997

 

"میں دنیا کو نہیں بدل سکتی لیکن پانی میں پہلا پتھر پھینک کر ہلچل ضرور پیدا کرسکتی ہوں" - ۔۔مدر ٹریسا

 

    دنیا میں انسانیت ہمدردی محبت ایثار قربانی کا کوئی باب بھی ایک ہستی کے بنا پورا نہیں ہو سکتا وہ عظیم ہستی جس نے دنیا کو انسانیت کے نئے معنی عطا کیے جس نے محبت و ایثار کو مذہب اور رنگ و نسل سے بلند کو کر ایسے نبھایا کہ وہ تمام مذاہبِ اور رنگوں کے لیے مدد بن گئی ۔ اس اکیلی اور بے سروسامان خاتون نے  یہنے بے سہارا لوگوں کے دکھ اس طرح بانٹے کہ شاید کئی ریاستیں مل کر بھی اتنا کام نہ کر سکیں جتنا اس ایک خاتوں نے کیا۔

    پدم شری اور نوبل پرائز یافتہ مدر ٹریسا نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ انڈیا میں فلاحی کاموں کے لئے وقف کردیا تھا جس میں جذام ،ٹی بی اور ایڈز کے مریضوں کی دیکھ بھال ، یتیم خانے جیسے کئی کام شامل ہیں ۔ ٹریسا کی پیدائش کیتھولک البانی فیملی میں اسکوپے نامی شہر میں ہوئی جو سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔۔ان کا پیدائشی نام اگنیز گوکشے تھا ۔بچپن ہی سے ٹریسا کو مشنری کے قصہ متاثر کرتے تھے اپنی ٹین ایج میں ٹریسا نے طئے کرلیا تھا کہ انھیں نن بن کر لوگوں کے کام آنا ہے ۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ انگلش سیکھنے اور مشنری جوائن کرنے آئر لینڈ آئیں اس کے بعد انھوں نے اپنی فیملی کو پھر کبھی نہیں دیکھا ۔لیکن وہ ساری دنیا کی دکھی انسانیت کے لیے ایک ایسی چھت بن گئی جس کا سایہ رنگ و نسل اور مذہب سے اوپر تھا ۔

    1929 میں وہ انڈیا پہنچی اور دارجلنگ میں اپنی ٹریننگ کی ابتدا کی ۔ٹریننگ مکمل کرکے اور بطور مشنری اپنا عہد اٹھا کر انہوں نے اپنا نام اگنیز سے تبدیل کرکے ٹریسا رکھا اور اسکول میں پڑھانا شروع کیا جہاں وہ بیس سال تک پڑھاتی رہیں ۔۔لیکن وہاں کی غربت،  1943کے بنگال قحط اور اور فسادات نے انھیں دل برداشتہ کردیا ۔1948 انھوں نے اسکول چھوڑ کر  اپنی باقی زندگی فلاحی کاموں کے لئے وقف کردی ۔ انھوں نے انڈین شہریت لے لی اور مقامی لوگوں سے قریب ہونے کے لئے اپنا روایتی نن کا لباس چھوڑ کر سفید ساڑھی پہننی شروع کردی ۔۔ابتدا میں بہت سی مشکلیں پیش آئیں ۔امدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے باعث انھیں لوگوں سے مانگ کر کھانا اور دوائیاں جمع کرنی پڑتی ۔اہستہ آہستہ لوگوں کی مدد شامل ہوتی گئی اور 1950 میں مشنری آف چیریٹی" نامی ادارہ قائم ہوا ۔جو بھوکے ننگے ،اپاہج ،کوڑھی ،بیمار ہر طرح کے لوگوں کی دیکھ بھال کے لئے تھا جن کی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ 1952 میں مدر ٹریسا نے ایک اور ادارہ "نرمل ہردئیے" کے نام سے بنایا جو قریب المرگ اور نادار لوگوں کو میڈیکل سہولیات اور ایک باعزت پرسکون  موت مہیا کرتا ۔۔اس کے علاؤہ کوڑھ کے مریضوں کے لئے شانتی نگر ، بےگھر بچوں کے لئیے ششو بھون جیسے اداروں کی بنیاد رکھی ۔۔۔وقت کے ساتھ اور لوگوں کی مدد اور عطیات سے ایسے ادارے سارے انڈیا میں قائم کئے جانے لگے اور اس کے بعد وینیزویلا،اٹلی آسٹریا اور ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک تک جا پہنچے ۔

    کلکتہ میں تیرا ممبرز سے شروع ہونے والا یہ گروپ 1997 تک چار ہزار ممبرز تک پہنچ گیا تھا جن کے تحت مختلف ممالک میں غریب ،بےگھر، معذور ، نشہ باز، رفیوجی ، باڑھ اور قحط سے متاثر غرض کہ ہرقسم کے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتا ہے اور انھیں چھت مہیا کرتا ہے کل سو ممالک میں پانچ سو سے زائد ایسے ادارہ بن گئے ہیں۔۔ مدر ٹریسا پانچ زبانیں بہت روانی سے بولا کرتی تھیں ۔دنیا میں کہیں زلزلہ ہو یا ریڈیشن لیک یا کوئی ہوسٹیج سچویشن مدر ٹریسا اس میں اپنا رول کردینے کے لئے ہمیشہ تیار ہوتی تھیں ۔دو ہارٹ اٹیک اور بہت سی بیماریوں کا شکار ہو کر مدر ٹریسا نے ستمبر 1997 میں دنیا کو خیر آباد کیا ۔۔انھیں انڈیا میں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا ۔۔

    مدر ٹریسا کو نوبل پرائز اور پدم شری کے علاؤہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اعزازات سے نوازا گیا کئی اعزازی ڈگریاں بھی دی گئی لیکن ان کا سب سے بڑا انعام اور اعزاز لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت اور محبت ہے جو کسی ریاکاری یا دولت سے خریدا ہوا نہیں بلکہ وہ انسان دوستی کا ثمر ہے۔  گیلپ کے پول میں وہ اٹھارہ بار دنیا کے ٹاپ ٹین پسندیدہ لوگوں کی لسٹ میں آئی تھی ۔۔ آج ہر وہ انسان جو دکھی نادار انسانیت کے کام آنا چاہتا ہے جو انسانوں کے دکھ بانٹ لیتا ہے جو انسان سے نفرت نہیں کرتا جو خدمت کے جذبے سے معمور ہو وہ مدر ٹریسا کے دیس کا باسی ہوتا ہے ۔وہ مدر ٹریسا کے قافلے کا سپاہی ہوتا ہے وہ اس مشن کا کارکن ہوتا جس کی بنیاد مدر ٹریسا نے رکھی تھی۔ مدر ٹریسا کا اخلاص جذبہ خدمت اس قدر شدید تھا کہ آج اگر ہم کو ان الفاظ کر معنی اور مفہوم سے آگاہی حاصل ہے تو اس کی وجہ مدر ٹریسا ہے ۔ جس نے دنیا کے ہر لاوارث معزور بیمار کمزور کر اپنا بچہ سمجھا ۔آج کی دنیا جو تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جا رہی ہے اس کو پھر ایک مدر ٹریسا کی ضرورت ہے جو انسان کو بس مجبور و مفلوک سمجھ کر تھام لے اور اپنی ممتا کی آغوش میں سمو لے۔ تاکہ مدر ٹریسا کا لگایا انسانیت کا شجر گھنا اور سایہ دار رہے

 

اندرا گاندھی

 



 

19 Nov 1917-31 Oct  1984

 

 

    کہا جاتا ہے کہ سیاست اور جمہوریت میں وراثت نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اپنی قابلیت کی بنیاد پر آگے آنا چاہیے لیکن یہ نظریہ اس اعتبار سے ضرور غلط ہے کہ سیاست میں وراثت کرسی کی بھلے نہ ہو لیکن اقدار اصولوں اور اخلاقیات کی وراثت ضرور ہوتی ہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے لیڈرز اور رہنما کی اپنی اولاد کی اگر ان کے نظریے سے بغاوت کرئے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وراثت کو صرف ذریعہ اقتدار بنایا گیا ہے لیکن حقیقی اصولوں کو بھلا دیا گیا ہے۔ نہرو کی وراثت جب اندرا گاندھی نے سنبھالی تو وہ صرف ایک کرسی نہیں تھی بلکہ وہ انسانی حقوق لبرم ازم اور رنگ و نسل سے بلند ہو کر انسان کی خدمت کرنا تھی۔ اندرا گاندھی نے نہرو کی وراثت کو سینے سے لگایا اور اس میں پہلے سے بھی زیادہ جان پھونک دی اور یہ بتایا کہ صرف اقتدار حاصل کرنا اہم نہیں ہونا بلکہ اس اقتدار کا حق ادا کرنا معنی رکھتا ہے ۔ دنیا میں بہت سی خواتین نے اقتدار حاصل کیا لیکن اندرا نے کانگرس کی آئیڈیالوجی کو بھی ساتھ سنبھالا اور اس کو اگلی نسل کو منتقل کیا ۔

     اندرا گاندھی  انڈیا کی پہلی اور اکلوتی خواتین سربراہ مملکت ہیں۔اندرا پریا درشنی کی پیدائش برٹش انڈیا کے الہ آباد میں نہرو خاندان میں ہوئی ۔ان کے والد جواہر لال نہرو  انڈین نیشنل کانگریس اور آزادی کی مہم کا اہم حصہ رہے اور آزاد ہندوستان کے پہلے پرائم منسٹر تھے ۔اندرا اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھیں ۔اندرا کا بچپن تنہائی میں گذرا ۔ان کی والدہ بیمار رہا کرتی تھی اور والد سیاسی سرگرمیوں میں مصروف یا پھر قید میں ہوتے تھے۔ابتدائی تعلیم گھر پر اور دہلی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ رابندرناتھ ٹیگور کے شانتی نکیتن میں گذارا جہاں انھیں ٹیگور نے انھیں پریا درشنی کا ٹائٹل دیا۔آگے کی تعلیم آکسفورڈ یونیورسٹی میں حاصل کی ۔تعلیم کے دوران اندرا کی صحت کافی مسائل کا شکار رہی اور یہیں اندرا کی ملاقات اور پھر شادی فیروز گاندھی سے ہوئی۔

    اپنے والد کے بطور پرائم منسٹر پہلے دور میں اندرا گاندھی نہ صرف ان کی مدد گار بنی رہی بلکہ کسی حد تک کانگریس کی باگ دوڑ بھی سنبھال لی اور 1959 میں کانگریس کی صدر بن گئں تھیں ۔۔لال بہادر شاستری کی موت کے بعد لوگوں نے اندرا گاندھی کو اپنا لیڈر یہ سوچ کر چنا کہ وہ ایک خاتون ہیں اور انھیں بآسانی کنٹرول کیا جاسکے گا لیکن  1966 سے 1977 تک اگلے گیارہ سال جو اندرا گاندھی نے بطور پرائم منسٹر گذارے اس نے ثابت کردیا کہ اندرا گاندھی کتنی مضبوط ارادوں والی اور سیاسی سوجھ بوجھ والی خاتون تھی۔ اندرا گاندھی کا سیاسی قد ایسا تھا کہ ایک  سینیر سیاسی لیڈر نے کہا تھا " انڈیا اندرا ہے اور اندرا انڈیا ہے" ۔۔لیکن اس مقام تک پہنچنا آسان نہیں تھا ۔پیسوں کی devalue کرنے کی پالیسی اور سوشلسٹ آئیڈیالوجی کی طرف رجحان، بینکوں کو نیشنلائز کرنے جیسے اقدامات نے اندرا گاندھی کو کئی مسائل میں پھنسایا لیکن اس کے باوجود اندرا گاندھی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے میں کامیاب رہی ۔۔اپنے اقتدار کے دوسرے دورمیں اندرا گاندھی نے ایک طرف عوام کو غریبی ہٹاؤ نعرہ دے کر اپنی پوزیشن کو مضبوط بنایا تو دوسری طرف 1971 کی انڈیا پاکستان جنگ میں جیت نے پورے ملک میں اندرا گاندھی کو مقبول ترین شخصیت بنادیا ۔۔لیکن یہ مقبولیت جلد ہی خطرہ میں پڑ گئی جب کورٹ نے الیکشن بدعنوانی کے الزام میں اندرا گاندھی کو لوک سبھا کی سیٹ سے خارج کردیا ۔اس کے بعد کا دور اندرا گاندھی کے دور حکومت کا بدترین دور کہلاتا ہے ۔۔۔جب ملک بھر میں ایمرجنسی لگ گئی تھی اور سیاسی لیڈر گرفتار کرلئے گئے تھے اور اسی دور میں اندرا گاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی کا انڈیا کی سیاست میں عمل دخل شروع ہوا ۔۔جس کا انجام 1977 میں اندرا گاندھی کی شکست کے صورت میں ظاہر ہوا ۔جس کے بعد اقتدار جنتا پارٹی اور اس کے حلیفوں کے ہاتھ میں آگیا لیکن وہ حکومت تین سال سے زیادہ نہیں رہ سکی ۔۔1980 میں شاہی امام کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے بعد اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آگئی ۔۔لیکن جون 1984 میں کیا آپریشن بلیو اسٹار اندرا گاندھی کے قتل کا باعث بن گیا اور اکتیس اکتوبر 1984 کو اپنے ایک باڈی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔۔ حکومت میں کامیابی ناکامی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہوتی رہتی ہے اور لیڈرز سے بعض غلط فیصلے بھی ہوتے لیکن اندرا گاندھی بطور وزیر اعظم اتنی بلند تھیں کہ انھوں نے اقدار کی جو وراثت حاصل کی اسے پورے فخر کے ساتھ اگر منتقل کیا۔سیاسی مخالفین نے نفرت کی آگ بھڑکا کر ان کو قتل تو کروا دیا لیکن ان کے قد کاٹھ اور بلندی کو کبھی کم نہیں کیا جا سکا ۔

    اندرا گاندھی جنوبی ایشیا کی ایک پاور فل لیڈر تھیں ان کے دور حکومت میں انڈیا کے تعلقات پاکستان ،بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بہت اچھے نہیں رہے لیکن سویت یونین اور امریکہ کے ساوتھ ایشیا میں اثر کم کرنے کے لئیے سارک کی بنیاد رکھنے میں اندرا گاندھی کا بڑا ہاتھ تھا ۔۔۔مڈل ایسٹ اور فلسطین سے اندرا گاندھی نے ہمیشہ اچھا تعلق بنائے رکھا۔۔۔ اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں تین پنج سالہ منصوبہ بنائے جن میں سے دو کامیاب ہوئے اور ساٹھ کی دہائی میں انڈیا کی گرتی معاشیات کو پھر کھڑا کردیا۔۔ اندرا گاندھی کی ایک اور بڑی کامیاںی انڈیا کی نیوکلیئر کلب میں اینٹری تھی ۔۔اندرا گاندھی نے اپنے والد کے شروع کئے کام کو تکمیل تک پہنچایا اور  1974 میں پوکھران میں نیوکلیئر ٹیسٹ ہوا ۔

    اندرا گاندھی نے ہمیشہ کوشش کی اور اپنی سیاسی کیرئیر میں اپنی صنف کا استعمال نہیں کیا  اور نا ہی انھوں نے اپنی پارٹی میں عورتوں کے لئے کوئی خصوصی پوزیشن رکھی لیکن اس کے باوجود خواتین کی ایک بڑی تعداد انھیں ویمن پاور کی علامت مانتی ہیں۔ اندرا گاندھی کا نام نا صرف انڈیا بلکہ برصغیر میں خواتین کی جدوجہد کے حوالے سے روشن مثال ہے جس نے دنیا کی سب کی بڑی جمہوریت کا بوجھ اپنے کندھوں پر احسن طریقے سے اٹھایا اور اس کی لاج رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی

 

پرنسز ڈائنا



 

1 Jul  1961 - 31 Aug  1997

 

" میں کتابی اصولوں کو نہیں مانتی ۔۔میں دل کی راہ نمائی میں چلتی  ہوں دماغ کی نہیں۔" ۔پرنسز ڈائنا

 

    تخت و تاج اور کرسی ہونا اہم ضرور ہوتا ہے مگر کیا وہ ترقی کامیابی اور عظمت کا آخری درجہ ہے اس سوال پر بہت کچھ کہا جاتا ہے ۔ حکومتیں بنتیں اور بگڑتی ہیں بادشاہ تاریخ میں یاد رہتے اور ان کی ازدواجی زندگی میں بیوی بیٹی بہن کا کردار ہمیشہ پردے کے پیچھے رہتا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے ان کے پاس کرنے کو نا کام ہوتا ہے نا اگے بڑھنے کا کوئی موقع ۔ لیکن بعض خواتین ایسی ہیں جن کو جب شاہی اقتدار حاصل ہوا تو انہوں نے اپنی شہرت اور کرسی کو انسانیت کے لیے اس طرح استعمال کیا کہ دنیا ان کی اثیر ہو گئی اور وقت نے دکھایا کہ ان کے سامنے تاج و تخت اور کرسی اقتدار چھوٹا پڑ جاتا ہے ۔ لیڈی ڈیانا بھی اسی قبیل کی سرخیل ہے جس نے اپنی عزت مقام کو شہزادی ہو کر نہیں بلکہ انسان ہو کر کمایا اور اس نے دنیا میں یہ رواج قائم کیا کہ انسان سب سے پہلے انسان ہے باقی سب عہدے اختیار تو اس کے پاس خدا کا وردان ہیں ان پر اترانا نہیں چاہیے ۔ لیڈی ڈیانا نے دنیا کو سبق دیا کہ اصلی ملکہ دلوں کی ہوتی ہے اصلی طاقت کمزور کو سہارا دے کر اٹھانے میں ہوتی ہے ۔

    پرنسز ڈائنا ۔۔برٹش رائل فیملی کی سب سے مقبول ترین خاتون تھی جو اپنی خوب صورتی اور جاذبیت کے ساتھ اپنے سوشل ورک کے لئے  بھی مشہور تھی. ڈائنا کی پیدائش برطانیہ کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔وہ سینڈرنگھم اسٹیٹ میں شاہی خاندان کے بچوں کے ساتھ پل کر بڑی ہوئیں ۔وہ تعلیم میں بہت نمایاں نہیں تھیں ۔۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ لندن آگئی اور چھوٹی موٹی نوکریوں سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بیس سال کی عمر میں کوئین الزبتھ کے بیٹے پرنس چارلس سے ہونے والی شادی نے ڈائنا کو عوامی شخصیت بنا دیا ۔ان کے دو بیٹے ہیں لیکن بڑی دھوم دھام سے ہونے والی یہ شادی زیادہ عرصہ چل نہیں سکی۔

    بطور پرنسز، شاہی روایت کے مطابق ڈائنا کو اکثر اسپتال اسکول وغیرہ میں بطور مہمان خصوصی شامل ہونا پڑتا تھا ۔اس طرح ڈائنا کی دلچسپی فلاحی کاموں میں بڑھتی گئی ۔کہا جاتا ہے ڈائنا کا فلاحی کاموں پر ہونے والا اثر بیسویں صدی کے کسی بھی شخص سے زیادہ تھا۔ ڈائنا نے بہت ساری فلاحی تنظیموں کی سرپرستی کی ۔ ڈائنا نے 1980 میں ایڈز کے مریضوں کے ساتھ کام شروع کیا ۔۔وہ شاہی خاندان کی پہلی شخصیت تھی جو انھیں چھونے اور ہاتھ ملانے سے نہیں ہچکچاتی تھی۔ان مریضوں کی مدد کے لئے ڈائنا نے لندن سے امریکہ تک کئی فلاحی ادارے کھولے ۔۔اس کام کے لئے نیلسن منڈیلا نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا ۔اس کے علاؤہ جذام اور کینسر کے مریضوں کے لئے کئی فلاحی اداروں کے ساتھ کام کیا ۔لیکن ڈائنا کا دائرہ عمل اس سے بھی کہیں وسیع تھا ۔بے گھر اور غریب لوگوں کے لیے کام کرنے والی آرگنائزیشن ہوں یا دماغی مریضوں کی دیکھ بھال کے ادارے ڈائنا ہر قسم کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئیے کام کرنے کے لئے آگے آگے ہوا کرتی تھی ۔اس کام کے لئے افریقہ سے انڈونیشیا تک ہر ملک کا سفر کیا ۔۔دو اور اہم شعبہ جات جن میں ڈائنا نے کام کیا وہ ہے جنگوں کے بعد بارودی سرنگوں کو تلف کرنے والی آرگنائزیشن کو سپورٹ کرنا اور اس سے متعلق بین الاقوامی سطح پر بیداری جگانا ہے اور جانوروں کے تحفظ کے لئے کام کرنا ہے ۔۔ڈائنا نے تقریبا پینتیس چالیس فلاحی اداروں کی سر پرستی کا ذمہ لیا تھا ۔ڈیانہ نے اپنی ساری زندگی دکھی انسانیت کے نام رکھی تھی اس کے شب و روز اسی فکر میں گزرے تھے کہ وہ کس کس طرح دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حوالے سے بیداری مہم سر انجام دے سکے ۔

    1987 میں ڈائنا کو لندن شہر کا سب سے بڑا اعزاز " فریڈم آف سٹی آف لندن " دیا گیا تھا ۔ڈائنا کی ذاتی زندگی کافی مشکلوں کا شکار رہی لیکن اس نے کے فلاحی کاموں پر اثر نہیں ڈالا ۔اگست 1997 میں چھتیس سال کی عمر میں ایک پراسرار کار ایکسیڈینٹ میں ڈائنا کی موت ہوگئی۔  موت پر دنیا بھر کے مشہور اور شاہی افراد کے تعزیتی پیغام آئے اور لوگ مہینوں تک انھیں یاد کرتے پھول اور پیغام بھیجتے رہے ۔۔ دنیا میں ڈائنا کا نام کبھی بھلایا نہیں جا سکتا جس نے دنیا میں انسانیت کی خدمت اور نسلی نفرت کی سرحد کو پھلانگ کر ہر رنگ کے غریب مظلوم کو سینے سے لگایا اور اپنا بنا لیا۔وہ شاہی خاندان کی شہزادی تھی لیکن اس کو دنیا بھر کے انسانوں نے اپنے دل کی ملکہ بنایا کیوں کہ اس نے اپنے اقتدار کا بوجھ اتار کر اس بوجھ کو اٹھایا جو ہر انسان کا پہلا فرض ہے۔ وہ کم عمری میں ہی دنیا سے کنارہ کر گئی لیکن اس کا نام اور کام اس کو سدا حیات رکھے گا ۔

اروندھتی رائے



 24 Nov 1961

 

 

    عورت کو ادب میں ہمیشہ سے خاص مقام حاصل ہے ۔صنف نازک کو ناول ڈرامے فلموں کہانیوں داستانوں میں خاص انداز میں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ بدقسمتی رہی ہے ادب کی ہر صنف میں جس پر صفحات کالے کیے گئے خود اس قبیلے کی کسی فرد کا نام کبھی بطور مصنف بڑا نہیں سمجھا گیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ادب میں خواتین کی سوچ کی پرواز مردوں کے برابر نہیں بلکہ خواتین ایک محدود سوچ کے تابع ہو کر لکھتی ہیں اس لیے کبھی بلند ادب  تخلیق نہیں کر سکیں لیکن اروندھتی رائے نے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا اور اپنے قلم سے اس کا جواب دیا اور ایسے شہکار رقم کیے جن کو نظر انداز کرنا دنیا کے کسی تنقید نگار کے بس کی بات نہیں ۔  سوزان اروندھتی رائے۔۔۔ booker پرائز یافتہ اروندھتی ایک بیسٹ سیلر رائٹر ہونے کے علاؤہ سیاسی ایکٹیویسٹ اور انسانی حقوق اور ماحولیاتی مسئلوں پر آواز اٹھانے والی ایک بیدار مغز خاتون ہیں ۔

    اروندھتی کی پیدائش میگھالیہ کے شہر شیلانگ میں ہوئی جہاں ان کے والد راجیو رائے ٹی پلانٹ کے مینجر تھے ۔۔ماں باپ میں علحدگی کے بعد اروندھتی اپنی ماں میری رائے کے ساتھ کیرالا چلی گئی اور وہیں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اس کے بعد دہلی کے کالج سے آرکٹیکچر میں ڈگری لی ۔۔  1984 میں اروندھتی رائے کو پردیپ کرشن نے فلم میں رول دیا اس کے کچھ عرصے بعدان کی اروندھتی رائے سے شادی بھی ہوگئی.  1988 میں اروندھتی نے کچھ اسکرین پلے لکھے جس میں  نیشنل ایوارڈ جتنے والی فلم  

 In which Annie give it those  one 

 اور Electric Moon بھی شامل ہیں ۔۔

    اس فلم  میں ایکٹنگ کے لئے اروندھتی کے ساتھ دہلی کے دو نئے آرٹسٹ شاہ رخ خان اور منوج واجپائی کو موقع ملا تھا ۔۔لیکن کچھ عرصہ بعد فلمی دنیا سے بددل ہوکر اروندھتی نے لکھنے پر توجہ دی اور اپنا پہلا ناول لکھنا شروع کیا .1996میں شائع ہونے والا یہ اروندتی کی زندگی میں اہم سنگ میل ثابت ہوا ۔۔اسے Booker Prize ملا  اور یہ ناول ٹائمز کے بیسٹ سیلر میں شامل رہا ۔شائع ہونے کے ایک مہینے کے اندر یہ کتاب اٹھارہ ملکوں میں بکی ۔لیکن انڈیا میں اسے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔۔اس کےبعد اروندھتی نے سیاسی اور معاشی مسائل پر  بہت سے مضامین لکھے جن کے پانچ مجموعے

      "My Seditious Hearts"

      کے نام سے شائع ہوچکے ہیں ۔ان کا 2016 میں لکھا دوسرا ناول

       The Ministry of Utmost Happiness

         بھی کئی اہم ایوارڈ ز کے لئے نامزد ہوا۔

    اروندھتی رائے نے کئی سیاسی مسئلوں پر آواز اٹھائی ۔۔انڈیا کی نیوکلیئر پالیسی ،کشمیر کی آزادی ،پولیس کا ظالمانہ رویہ جیسے مسائل پر اٹھائی گئی ان کی آواز نے انھیں کافی مسائل میں مبتلا کیا اس کے علاہ  نرمدا ڈیم پراجیکٹ ، جس میں لاکھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کے امکان کو لے کر بھی اروندھتی نے بڑا جذباتی ہوکر لکھا ان کی لکھی پیٹیشن کے باعث انھیں ایک دن کے لئے تہاڑ جیل میں گزارنا پڑا ۔۔حکومت کا نکسل وادیوں سے نمٹے کا طریقہ کار ہو یا کیرالا حکومت کا متھنگا وائلڈ لائف پراجیکٹ پر لیا ایکشن ۔۔۔اروندھتی  نے حکومت کے خلاف حق بات کہنے میں کوئی خوف نہیں محسوس کیا۔2011 میں جب انا ہزارے کا آندولن اپنے عروج پر تھا اروندھتی نے اس کے پیچھے چھپے اصل مقاصد پر لکھا ۔

اروندھتی کا قلم صرف ملکی مسائل تک ہی محدود نہیں ہے ۔سری لنکا میں تاملوں پر ہونے والے ظلم پر بھی لکھا ۔

 امریکہ کی افغان پالیسی پر The Guardian میں لکھا ان کا مشہور آرٹیکل

  The Algebra of Infinite Justice

   کئی سوچنے پر مجبور کرنے والے سوال اٹھاتا ہے ۔

    اس کے علاؤہ اروندھتی ان سو آرٹسٹوں کی لسٹ میں شامل ہیں جنھوں نے اسرائیل کے خلاف کھلا خط لکھا ۔

   اروندھتی رائے نے اس ماحول میں ہمیشہ حق بات کہی جہاں کوئی دوسرا بولنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے وہ ہمیشہ حکومتوں کے لیے نا پسندیدہ رہی ہے کیونکہ وہ اپنے قلم کی طاقت کے ذریعے ریاست کو اس کا بدنما چہرہ دکھاتی ہے۔

    اپنے لٹریری کاموں پر ملے ایوارڈز کے علاؤہ بھی اروندتی کو کئی اور ایوارڈ ملے۔ لینانن فاؤنڈیشن ایوارڈ جو دنیا کے مظلوم لوگوں کے لئے آواز اٹھانے کے لئے دیا گیا اس کے لئے سڈنی پیس پرائز اور گلوبل ایکسچینج اسپشل پرائز جیسے ایوارڈ بھی ملے ۔2014 میں اروندھتی ٹائمز کی ٹاپ سو Most Influential لوگوں میں آیا

    آج ادب ،  سماج کے اندر پھیلی برائیوں ، آمرانہ ریاستی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف اروندھتی رائے کا قلم عظمت کی علامت ہے۔انہوں نے ناصرف خواتین میں اپنا مقام بنایا بلکہ اپنے قلم اور افکار کی بنیاد پر وہ دنیا کے مردوں کے لیے بھی مشعل راہ بن گئیں۔ آج دنیا بھر میں اروندھتی رائے کا نام عزت اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ آج خواتین کسی بھی شعبہ میں کم تر یا کمزور ہیں ۔

    تاریخ میں ایسی ہزاروں خواتین کا نام  جنہوں نے اپنی زندگیاں انسانیت کے لیے وقف کریں آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنا رہے گا۔ان خواتین کی ذاتی زندگی مشکل اور ان کے اسباب ہمیشہ کم رہے لیکن یہ ان کی محنت لگن اور جدو جہد ہی تھی جس کے باعث وہ صدیوں بعد بھی کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہیں ۔ اوپر بیان کہ گئی چند خواتین اپنی صنف کی نمائندہ ہیں ان سب نے مختلف شعبوں میں کم وسائل اور لاتعداد مسائل کے باجود اپنا نام اور مقام پیدا کیا اور انسانی تاریخ میں خود کو امر کر لیا۔ تاریخ میں جھانکا جائے تو عورت کو چند ایک مقاصد سے اوپر کبھی سوچا اور مانا نہیں گیا وہ شادی ،بچے اور گھر کی چار دیواری میں بند ایک چیز سمجھی گئی اس کو کم علم اور کم عقل کہا گیا ۔

    دنیا کے تمام وہ شعبے جہاں جہاں مرد قابض رہے  وہاں یا تو خواتین کو جانے نہیں دیا گیا یا ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ خواتین کا وجود نمائش سے آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس نظام میں جہاں عورت کو زندہ دفنایا جاتا تھا جہاں اس کو بازار میں بیچا اور خریدا جاتا تھا اور اس کے جسم کو بس ذریعہ سکون سمجھا جاتا تھا جس معاشرہ میں عورت کے لیے اگے بڑھنے کے تمام راستے بند کر دئیے تھے اس ماحول میں جب عورت کو نا  سیاست کے لائق سمجھا جاتا تھا اور نہ وہ سائنس اور آرٹ میں کسی قابل سمجھی جاتی تھی تب مندرجہ ذیل خواتین نے نامسائد حالات کے باوجود تمام فیلڈز میں نا صرف قدم رکھا بلکہ اپنی قابلیت اور ذہانت سے اپنا لوہا منوایا بھی ۔

 

"عورت زندگی میں کیا  کچھ حاصل کرسکتی ہے اس کی کوئی حد نہیں ہے "۔۔۔مشیل اوباما

 

    قلوپطرہ سے مادام کیوری تک اور جوائن آف آرک سے ایڈا لوئیس تک ، فلورنس نائٹ اینگل سے روزا پارک تک ، مدر ٹریسا سے اندرا گاندھی تک اور لیڈی ڈیانا سے اروندھتی رائے تک جس جس فیلڈ کی جانب خواتین نے رخ کیا وہ وہاں سرخرو رہیں ۔ ان تمام عظیم خواتین میں جو بات نمایاں اور مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان سب میں سے کسی نے بھی زندگی کو آئیڈیل یا فیری ٹیل نہیں سمجھی اور نا ہی کوئی خاتون منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی بلکہ ان سب کو جو مسائل اور مصائب درپیش رہے ان کا آج تصور بھی محال ہے لیکن ان سب نے ہمت و حوصلہ سے ہواوں کا رخ بدلا ، اور اپنا نام رہتی دنیا تک قائم رکھنے کے لیے مثال قائم کی ۔

    سیاست ، سیادت ، سماجیات ، سوشل ایکٹیوسٹ  آئی ٹی،   سائنس،  آرٹ, ادب  ، میڈیکل الغرض جہاں جہاں خواتین نے کچھ کر دکھانے کی ہمت کی اس شعبے میں اتنا بلند نام کیا کہ آج وہ تمام شعبے ان خواتین کے ذکر کے بنا ادھورے ہیں ۔لیکن یہ صرف چند نام ہیں ورنہ ایک طویل فہرست ہے ایسی خواتین کی جو اپنے عہد کی پہچان بنیں چاہے وہ مغربی معاشرے کی  ہیلن کیلر ،این فرینک، اوپرا ونفری ہو یا  بر صغیر کی تاریخ سے  رضیہ سلطان، رانی لکشمی بائی ،  بے نظیر ، سریماو بندرا نایک اور سرسوتی پھلے ہوں یا آج کی کملا ہیرس، خالدہ ضیا ،ممتا بنرجی ، سونیا گاندھی جیسی طاقتور خواتین جو ان بڑے ممالک کی سیاست میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

    عورت ماں بہن بیٹی بیوی کے فطری رشتوں میں بندھی ہوتی ہے اور معاشرہ عورت کو ان رشتوں سے باہر دیکھنا کبھی گوارا نہیں کرتا اس لیے جب بھی عورت کسی اور جگہ یا شعبے میں نظر آئے اس پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تمسخر اڑایا جاتا ہے ۔ طنز و تحقیر کی جاتی ہے ۔ کبھی جسمانی ساخت کا مذاق اڑایا جاتا ہے کبھی نرم و نازک ہونے کے طعنے ملتے ہیں اور کبھی اس کو بس بچے جننے کی مشین کہا جاتا ہے اگر کوئی خاتون معاشرے میں اپنے روایتی کردار سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہے تو اسی کے کردار کو مذاق بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔

    لیکن آج ہزاروں سالوں سے اپنی پہچان کی لڑائی لڑتی خواتین نے ثابت کیا ہے کہ عورت صرف فطری رشتوں کو نبھانے کے لیے جنم نہیں لیتی بلکہ کائنات کے تمام اسرار تمام راز اور اس کی ترقی سے جڑے ہر کام میں خواتین کا حصہ لینا بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی مرد کا ۔ اور اب فیصلہ مرد و عورت کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابل و نالائق کی بنیاد پر ہوا کرے گا ۔ آج کی دنیا میں عورت جنگجو ہے ، فوجی ہے ، استاد ہے ، سائنس دان ہے ، کرکٹر ہے ، بینکر ہے ، جاسوس ہے ، فٹبالر ہے ، باکسر ہے, سیاح ہے , خلانورد ہے ، صحرا گرد ہے ، مصنف و ادیب ہے ، شاعرہ ہے ۔آج عورت صرف شو پیس نہیں بلکہ آج وہ دنیا کی آبادی کا نصف سے کچھ زیادہ ہے اور اب وہ دنیا کے ہر شعبے میں پہلی ضرورت ہے اور اب اس کا مذاق بنانے والے خود مذاق ہیں ۔ آج کی خواتین نے ان تمام مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو صدیوں سے چلے آ رہے تھے کہ عورت کا کام صرف گھر چلانا ہے بچے پالنا ہے اور اس میں دوسری صلاحیتوں کی کمی ہے یا وہ جسمانی اعتبار سے محتاج ہے  یا وہ چار دیواری کے پیچھے رہے تو ہی محفوظ ہے یا اس سے جڑی بعض انسانی ضروریات کسی کمزوری کا نام ہیں ۔

    ایسا نا کبھی تھا نہ کبھی ہو گا ۔ عورت طاقت ہے عظمت ہے بلندی ہے وہ ماں بن کر بچے کو صرف اپنی کوکھ میں نہیں پالتی بلکہ وہ انسان کو یہ سبق دیتی ہے کہ جس وجود کو کمزور کہا جاتا ہے جس جسم کو نشانہ بنایا جاتا ہے وہی وجود ہر مرد و عورت کو اپنے اندر جنم دے دیتا ہے اور کسی مہا پرش نے کہا کہ ساری دنیا کے مرد مل کر ایک بچے کو جنم نہیں دے سکتے اس لیے وہ ادراک نہیں کر سکتے کہ عورت کس کیفیت اور کس تکلیف کر سہہ کر نسل کو آگے بڑھاتی ہے۔ اپنے ہونے والے بچے کے مستقبل کے لیے جب وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکلتی ہے تب اس کے بے ہئیت جسم پر ہنسا تو آسانی سے جاتا ہے مگر اس درد کو محسوس کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں ۔

    لیکن دنیا کے سفر کے ساتھ عورت کا سفر آج بھی جاری ہے ان ساری کامیابیوں کے باوجود وہ آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں اپنی شناخت حیثیت اور وجود کے لیے نبردآزما ہے اور وہ دنیا کو بار ہا بتا چکی ہے کہ وہ کمزور نہیں وہ نالائق اور کم عقل نہیں ۔وہ بھی انسان ہے اور وہ موقع کی تلاش میں ہے کہ اس کو کب انسان سمجھ کر برتاؤ کیا جائے گا اور وہ اپنی وہ جگہ حاصل کرئے گی جو اس کا حق ہے ۔


***********

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.