Type Here to Get Search Results !

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

                  محمد مصعب ( کھیتاسراۓ بارہ بنکی )




جنوری کی تاریک ترین رات تھی , باہر ہر سمت یخ بستہ ہواؤں کی لہروں  کے ساتھ زوروں کی بارش ہو رہی تھی , آسمانی بجلی کی تیز کڑکڑاہت , بار بار دل کو دہلا رہی تھی  , لائٹ تو کب کا جا چکی تھی , پوری بلڈنگ میں گھپ اندھیرا تھا ,,, 

اسوقت رات کے کوئی 11 بج رہے ہونگے , میں لائبریری میں آتش دان کے پاس کتاب تھامے ہوۓ تنہائی کی آغوش میں بیٹھا تھا , پھر دیکھتے دیکھتے میں کسی یاد میں یکدم سے مستغرق ہوا ہی تھا , کہ ایک بار پھر ہوا سے کھڑکیوں کے ٹکرانے کی آواز نے یادوں کے سلسلے کو منقطع کر کے مجھے تخیلاتی دنیا سے لوٹنے پر مجبور کر دیا , سر جھٹک کر اب پھر سے میں نے کتاب کی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی توجہ  مرکوز کر دی تھی ,,,

کہ یک لخت لائبریری کی سیڑھیوں پر مجھے  کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی ,  میری نگاہیں اس سمت پھیل گئیں , ذہن عجیب عجیب اندیشے بُننے لگا , اُف اللّٰه , کون ہوگا ؟  ایسے طوفان میں تو شیاطین بھی  مجلس شوری سے مشورہ کئے بغیر نہ نکلیں ,,

 دیکھتے دیکھتے سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنی کے ساتھ ایک سایے کا ظہور ہوا , پھر ایک انسانی وجود نمودار ہوا جو سرمئی سال اوڑھے ایک ہاتھ سے ٹارچ اور دوسرے ہاتھ سے چھاتا تھامے لائبریری کی جانب آ رہا تھا , ساتھ ہی میرے ذہن سے کسی بلا کا خوف جاتا رہا ,,,

 چہرے سے پانی کے قطرے صاف کرتے ہوۓ , مہذب لہجے میں ! السلام علیکم ,,,

جواب دینے کے ساتھ میں نے سوالیہ نظروں سے اسکو دیکھا ؟

 وہ لڑکا کسی مہذب گھرانے کا لگ رہا , چہرے پر شرافت اور معصومیت عیاں تھی , کیا یہاں ماہنامہ رسالے , میگزین , ڈائجسٹ وغیرہ آتے   ہیں ؟ اثبات میں سر ہلاتے ہوۓ میں نے ایک الماری کی طرف اشارہ کیا , خوشی کی اک جھلک اسکے چہرے پر نمایاں ہوئی اور شکریہ کہتے ہوۓ وہ اس جانب لپکا ,,, پھر کچھ دیر تلاش کرنے کے بعد وہ کسی رسالے کے مطالعہ میں منھمک ہو گیا , گھڑی کے بارہ بجاتے ہی میں نے میز پر تالے کو کھٹکھٹاتے ہوۓ اشارہ دیا کہ لائبریری بند کرنے کا ٹائم ہو گیا ہے , بادل نخواستہ کتاب کو بند کرتے ہوۓ میری جانب آیا ,,  عاجزانہ لہجے میں ! 

پلیز بھائی ! 

یہ کتاب مجھے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دیں ,,  کل میں اسے واپس دے جاؤں گا , اسکی آنکھوں میں کتاب کے بابت ایک چمک سی دیکھ کر میں انکار نہ کر سکا ,, 

 شگفتہ لہجے میں میرا نام " عَدِی " ہے , پاس ہی کے ہاسٹل میں رہتا ہوں ,, رسمًا میں نے بھی کہا ! مصعب ,,, ہم لائبریری کی سیڑھیوں سے اتر رہے تھے , وہ بتا رہا تھا , اس ماہنامہ میں فرح انجم کی تحریر سلسلہ وار آتی ہے , میں حیران ہوں کہ کوئی اتنا اچھا کیسے لکھ سکتا ہے ؟ اُف کیا انداز ہے لکھنے کا , ہر ہر جملے میں اک عجیب سا لطف محسوس ہوتا ہے ,  ایک انوکھے اچھوتے اسلوب کہ ملکہ ہیں وہ ,  جو مجھے انکی شخصیت کا اَسیر ہونے پر مجبور کر رہا ہے , ایک تحریر پڑھنے کے بعد انکی اگلی تحریر کا بہت ہی بے چینی سے منتظر رہتا ہوں , گویا کہ مدت مطالعہ وصل کی گھڑیاں ہوں باقی ہجر کے تلخ اَیَّام , ! بس یہ سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں کب ان سے ملاقات ہوگی ؟ شوق دیدار کی تمنا مجھے سفر پر آمادہ کر رہی ہے اب دیکھو ! نہیں نہیں ,, مجھے ان سے کوئی عشق وشق نہیں ہوا ہے ,, بس____وہ جھینپ سا گیا ____ میں صرف مُسکرا ہی سکا ,,

طوفان تھم چُکا تھا ,  ہوا میں کافی خنکی تھی , وہ اِک نامعلوم سی خوشی اور سرشاری کے ساتھ اپنے ہاسٹل کی طرف رواں دواں تھا , لگ رہا تھا جیسے کسی ملک کی سلطنت ملنے والی ہے  ___

کچھ دیر تک میں یُونہی اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا پھر میں اپنے کمرے کی جانب چل پڑا ,, 

ٹھنڈ کافی تھی , پہونچتے ہی میں لحاف میں گھس گیا , پر نیند اب آنکھوں سے روٹھ چکی تھی ,,,,

ذہن بار بار اسکی  باتوں کی طرف جا رہا تھا ,, *کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی کسی کو بنا دیکھے صرف اس کی تحریریں پڑھتے پڑھتے اس کا گرویدہ ہو جائے، جس میں شناسائی کا عنصر بھی شامل نہ ہو، ایک انجانا سا تعلق بن جائے، کیوں نہیں! ایسا ممکن ہے؟! پر کیسے؟*

چاہت میں تو  وصل کی جاں فزاں گھڑیاں اور فراق کے جاں گُسل لمحات ہوتے ہیں ناں _____! 

 آج پھر میں رفتہ رفتہ ان یادوں تک پہنچ چکا تھا , جہاں کہیں دل میں اِک کسک اور جبھن سی موجود ہوتی ہے , کرب کی وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسان کو موت سے دوستی کرنے پرمجبور کرتی ہے , تو کہیں کہیں صرف زیرلب مسکرا دینا ہوتا ہے ____انہیں یادوں میں پتہ نہیں کب اور کس وقت میری آنکھ لگ گئی , الارم کے بجتے ہیں فجر میں آنکھ کھلی , ٹھنڈ گویا نقطہ انجماد پر تھی , نمازِ فجر کی ادائیگی کے لئے مالک حقیقی کے دربار کی طرف میرے بڑھتے ہوۓ قدم کے ساتھ دل مجھ سے سوال کر رہا تھا کہ ! کیا تم نے کبھی اپنے کریم رب کو دیکھا ہے ؟ نہیں ناں !  پھر جو اس شدید ٹھنڈ میں اپنی محبوب نیند سے بے رخی کرکے بارگاہ اِلٰہی کی طرف چل پڑے ہو , اگر یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا کبھی محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہے ؟  پھر کیا انکے نام پر سب کچھ قربان نہیں کروگے ؟  کر دوگے ناں ! یہی تو اُلفت ہے !  ہم سب یہ جانتے اور مانتے بھی ہیں کہ  کامل مومن جبھی بن سکتے ہیں کہ خدا کے محبوب نبی کی محبت ہمارے دل میں ہماری محبوب ترین چیز سے بھی زیادہ ہو ,, ہر محبتیں محبوب خدا کی محبت پر قربان کرنے کا جذبہ یہی اصل اور حقیقی محبت ہے ,, خدا کی لافانی کتاب کے معجزانہ اسلوب کا چسکا لگ جانا , بروزِ حشر دیدارِ الٰہی کی تمنا کا پیدا ہو جانا ,, وقت دیدار اسکی محبت بھری نظر پانے کے لئے پہلے سے اپنے آپ کو سنوارنا ,, صبغۃ اللّٰه میں رنگ جانا __

  یہی تو عشق کی انتہا ہے !


           

Tags

Post a Comment

2 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.