Type Here to Get Search Results !

ایک سچا خواب

آر وقار






چاندی کی طرح سفید بال، چہرے میں دھنسی ہوٸی آنکھیں اور قسمت کے ہاتھوں شکست سے چہرے پر پڑنے والی بے شمار شِکنیں لیے وہ صبح سویرے نہر کنارے بیٹھا پانی میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔ پانی کی ایک لہر دوسری سے آکر ٹکراتی اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی گہرائی میں گم ہو جاتی۔ 

بالکل ایسے ہی ماضی کی گہرائیوں میں اس کا خواب کہیں گُم ہو چُکا تھے۔ وہ خواب جو اس نے بچپن کی نادانیوں سے لے کر جوانی کی رنگینیوں تک سجایا تھا۔ وہ ایک خواب اس کی زندگی کا اثاثہ تھا ۔ اس خواب کے پورا ہونے تک وہ خود کو آدھے چاند کی طرح ادھورا سمجھتا تھا۔

آخر کیا تھا وہ خواب...بس کسی حسین صبح پہاڑوں کی پُشت سے نکلتا آفتاب دیکھنے کا خواب، بلند چوٹیوں کو چھو کر گزرنے والے بادلوں کو چھونے کا خواب، کسی بلند پہاڑ کو سر کرتے ہوئے کسی چوٹی کی اوٹ میں بیٹھ کر پہاڑوں کے دامن میں بسنے والی بستی کا نظارہ کرنے کا خواب، کسی پہاڑ کی پھوٹی آنکھ سے جاری میٹھے چشمے سے گلا تر کرنے کا خواب، پتھریلے راستے سے گزرتی شفاف ندی میں اپنا عکس دیکھنے کا خواب ، کسی ریگزار کو پار کرتے ہوئے نخلستان میں رات بسر کرنے کا خواب ، ان بیابانوں میں اگنے والے پھل چکھنے کا خواب اور دنیا کے سب سے بڑے اجتماع میں" حاضر ہوں" کہتے ہوئے سجدہ ریز ہونے کا خواب ۔

بس روح پرور تخلیقاتِ خدا کو دیکھ کر روح کو لگا زنگ دور کرنے کا خواب ۔


اس خواب کے پیچھے بھاگتے ہوئے بہت سی رکاوٹیں آئیں ۔ کبھی غربت نے راہ روکی کبھی شادی حائل ہوئی تو کبھی پرورشِ اولاد آڑے آئی ۔ لیکن اس نے خواب پورا کرنے کی ٹھان رکھی تھی ۔

ضروریاتِ زندگی کم کی گئیں  ، بھوک کاٹی گئی اور آخر کار اس نے کثیر پونجی جمع کر لی ۔ وہ سفر پر روانہ ہونے ہی والا تھا کہ اولاد کی خواہش نے زنجیر بن کر پیروں کو جکڑ لیا۔ 

       "بابا میں پڑھنے کے لیے ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں" 

               اکلوتی اولاد کی خواہش کے آگے اس نے اپنے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا۔ جمع پونجی کم پڑ گئی تو گھر گِروی رکھ دیا لیکن بیٹے کی خواہش پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا گیا۔ حالات نے کروٹ لی اور بوڑھے ماں باب کو شیلٹر ہوم منتقل ہونا پڑا لیکن بیٹے نے مُڑ کر کوئی خبر نہ لی۔  ماں کا وقت خدا کی رحمت سے ملنے کو آن پہنچا لیکن بیٹا واپس نہ پہنچا۔ 

                     خوابوں کے پنچھی کو ہار مانے آج بیس سال ہوگئے اب وہ کوئی خواب نہ دیکھتا یہاں تک کے بیٹے کی واپسی کا خواب بھی نہیں کیونکہ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کے خواب سچ نہیں ہوتے۔

اب بس ایک ہی منظر اس کی آنکھوں میں گردش کرتا رہتا جس میں وہ دیکھتا کہ ماں باپ کی قبروں پر ان کا بیٹا فاتحہ پڑھ رہا ہے ۔ 


       اب سورج کی کرنوں میں حرارت بڑھ چکی تھی ۔ اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور اس نے واپسی کی راہ لی ۔

       شیلٹر ہوم پہنچتے ہی اسے پتا چلا کہ برسوں بعد بیٹے کا فون آیا تھا وہ وبا کی وجہ سے واپس آ رہا تھا ۔ٹوٹتی ہوئی سانسوں میں ایک بار پھر جینے کی امید جاگی۔  اب قرنطینہ میں گزرنے والے چند دنوں کی دوری تھی۔ کئی روز گزر گئے لیکن بیٹا نہ آیا۔ 

              برسوں بعد اس نے پھر ایک خواب دیکھا۔ سچا خواب ۔ 

              چاندی کی طرح سفید بال ، چہرے میں دھنسی ہوٸی آنکھیں اور چہرے پر بے شمار شِکنیں لیے ایک بوڑھا دو قبروں کے پاس کھڑا فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ 

              وہ خوف سے اٹھ کھڑا ہوا اور چھلکتی آنکھوں کے ساتھ یہ کہتا ہُوا قبرستان چل دیا کہ۔۔۔ "نہیں نہیں میرے خواب کبھی سچ نہیں ہوتے۔"

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.