Type Here to Get Search Results !

زندگی کی افسانوی ریاضت اور شہانہ اقبال

از  :  رخسانہ نازنین،  بیدر  (کرناٹک)


      حیدر آباد....  شہر محبت ، جہاں کے باسی بڑی فراخدلی سے خلوص اور محبت کی دولت سے نوازتے ہیں. اور اپنائیت کے اٹوٹ بندھن میں باندھ لیتے ہیں. محترمہ شہانہ اقبال صاحبہ جنہیں میں شہانہ آنٹی کہتی ہوں. اسی شہر محبت کی محبتیں بانٹنے والی ، مشفقہ ہستی ، جو ایک معروف افسانہ نگار ہیں. اور اس دیار ادب کی روایتوں کی پاسداری کرتے ہوئے اہل ادب کے درمیان اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں. بطور افسانہ نگار اپنی مشق و ریاضت کے سبب قدر و منزلت ان کا حصہ ہے. مگر سادگی، سچائی اخلاص اور انکسار یہ وہ اوصاف ہیں جو انہیں ایک قلمکار کے مقام سے مزید بلند کرتے جاتے ہیں 

       مجھے یاد ہے کہ شہانہ آنٹی سے مجھے حیدرآباد کی ایک اور مایہ ناز اور معروف افسانہ نگار محترمہ خیر النساء علیم صاحبہ (خیر النساءآنٹی اللہ سلامت رکھے آمین )  نے متعارف کروایا تھا . جو مجھ پر اپنی شفقتوں کے پھول نچھاور کرتی رہی ہیں. انہوں نے نہ جانے مجھ ناچیز کے بارے میں کیا رطب اللسانی کی کہ شہانہ آنٹی بھی میری گرویدہ ہوگئیں. یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے خلوص کی انمول دولت ملتی رہی ہے. اپنے ادبی سفر میں ، چاہے وہ قارئین ہوں یا کہنہ مشق یا نو مشق قلمکار.... سبھوں نے محبتوں ، شفقتوں سے دامن بھر دیا ہے. مجھے افسوس ہے کہ حالیہ برسوں میں میں والدین کی وفات کے صدمے اور گھریلو مسائل میں ایسے الجھ گئی کہ ان سب سے دور ہوتی چلی گئی .سوشیل میڈیا نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی. اب گھر کے کام کاج کے بعد کچھ وقت ملتا ہے تو وہ تھکان ،آرام اور وھاٹس اپ کی نذر ہوجاتا ہے. اسی سبب مطالعے کی عادت بھی جاتی رہی کہ کچھ پڑھا بھی تو موبائیل پر ہی پڑھ لیا.!  مجھے اپنی کوتاہیوں کا پورا احساس ہے . اور نادم بھی ہوں کہ شہانہ آنٹی کے بے حد اصرار اور دلی خواہش کے باوجود " ریاضت " پر اپنے تاثرات پیش نہ کر پائی.وعدہ خلافی نہ سرشت کا حصہ ہے نہ بے مروتی کا مزاج !  بس وقت اور حالات قلم تھامنے کی اجازت نہ دے رہے تھے. جب بھی کتاب سامنے آئی تو سوچا کہ ذرا فرصت ملے تو ریاضت کے مطالعے پر کچھ سطریں نذر قرطاس کردوں مگر مصروفیات کے جال میں الجھی ہی رہ گئی آج تہیہ کیا ہے کہ قسط وار ہی سہی لیکن اس کارِ ِ تحسین کو انجام دے کر رہوں گی.

       شہانہ اقبال صاحبہ کا پہلاافسانوی مجموعہ " ریاضت " اپنے نام کے عین مطابق ہے . یہ انکے پچاس سالہ ادبی سفر کی " ریاضت " ہے.!  دیدہ زیب سرورق ، عمدہ طباعت ، قابل قدر ضخامت سے آراستہ یہ " ریاضت " تیلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے جزوی مالی تعاون سے منظر عام پر آئی ہے. " اپنی بات " میں شہانہ اقبال صاحبہ نے اپنے حالات زندگی اور ادبی سفر کے بارے میں اپنے احساسات بڑی سادگی اور سچائی سے سپرد قلم کئےہیں. افسانوی مجموعے کی اشاعت میں  دختر نیک اختر کی کاوشوں کا دخل قابل ستائش ہے اور باعث تقلید بھی. بیشک بیٹی ہی والدین کے ورثے کی سچی قدردان ہوتی ہے ، چاہے وہ مالی ورثہ ہو یا علمی یا ادبی.!  بیٹیاں اسے متاع حیات جانتی ہیں. اس بیٹی نے بھی اپنی مایہ ناز ماں کے ادبی ورثے کو قارئین اور ناقدین تک پہنچانے کا کارخیر کیا ہے. جس کے لئے میں تہہ دل سے گلہائے تحسین و تشکر پیش کرتی ہوں .

     ایک مشرقی خاتون کی حیات کا ہر لمحہ ایک " ریاضت " ہی ہوتا ہے. ہر قدم ، ہر مقام پر مختلف آزمائشوں اور امتحانوں سے گزرتی ہوئی ، اپنی ذات سے وابستہ ہر رشتے کے فرائض بخوبی نبھانے کی کوشش کرتی ہوئی ، ایثار ووفا کا پیکر ، صبر وقناعت کی مورت، ایک عورت کی " ریاضتوں " کی داستان طویل ہے. کتاب حیات کے ہر ورق پر درد بھری تحریر ہوتی ہے تو کبھی مسرت و انبساط کے پھول کھلے ہوتے ہیں. محترمہ شہانہ اقبال صاحبہ نے ایک عورت کی زندگی کی تمام ریاضتوں کو اپنے لفظوں میں سمیٹ لیا ہے.!  جس کے لئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں. 

           " ریاضت " کے افسانوں کا محور و مرکز ایک مشرقی عورت ہے.ممتا کی مورت ایک مشفق ماں ،  ا یک وفاشعار بیوی ، ایک فرمانبردار بیٹی ، ایک فرض شناس بہو ، ٹوٹ کر چاہنے والی محبوبہ ، غرض ہر رشتے کو نہ صرف نبھانے والی بلکہ اس رشتے کے ساتھ جینے والی مشرقی عورت..... !!!  اگر میں بحیثیت قاری کہوں تو ایک ہی مرکز و محور پر سب کچھ لکھنے کے باوجود شہانہ اقبال صاحبہ کو اس فن میں ملکہ حاصل ہے کہ وہ اول تاآخر قاری کو باندھے رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہیں. قاری کہیں بھی بوریت کا شکار نہیں ہوتا . اور آخر تک دلچسپی برقرار رہتی ہے.

     شہانہ اقبال نے عورت کے ہر روپ کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے. " نشتر " کی جذباتی ماں جوچاہتی ہے کہ بیٹی کہے " مجھے ممی اچھی لگتی ہیں! " جبکہ بیٹی ہمیشہ کہتی ہے کہ " مجھے پاپا اچھے لگتے ہیں! " ماں ہر بار مایوس ہوتی ہے. ایک ماں کی نفسیاتی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے.

     ایک مرد کے لئے اللہ تعالی کا عطا کردہ سب سے خوبصورت انعام ایک باوفا شریک حیات ہے.شہانہ اقبال کے کئی افسانوں میں ایک باوفا بیوی عظمتوں کی بلندی پہ کھڑی دکھائی دیتی ہے. " دوسرا بابل " کی " رضیہ "   " جہنم " کی نوبیاہتا جو ازدواجی سکھ سے محروم ہے پھر بھی اس آس میں وفا کے تقاضے نبھا رہی ہے کہ " ایک دن یہ جہنم جنت میں بدل جائے گا! " " معجزہ "   کی حنا جسے ڈاکٹرز نے بانجھ قرار دیا ہے . اور وہ اپنے شوہر کو وارث دینے کے لئے اسکی زندگی سے چلی جاتی ہے. حنا اسم بامسمی!  خود بے رنگ ہو کر اوروں کی زندگی میں رنگ بھرنے کا جنون!  " ایک لمحہ " کی خوابوں کے سفر پہ نکلی عورت جو آخرکار فریب کے سحر سے نکل آئی اور اپنے مجازی خدا کی سیرت اور کردار کی معترف ہوگئی. " ریاضت " کی راحیلہ جو شوہر کی بے وفائی کے باوجود اسی کے نام کے ساتھ جی رہی ہے.!" داشتہ " کی تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ خاتون جو اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر ملازمت کو خیرباد کہہ دیتی ہے اور "داشتہ" کا خطاب پاتی ہے!  ان تمام افسانوں میں بحیثیت بیوی عورت پیکر ایثار وعظمت ہے. 

       بیٹیاں والدین کی آنکھوں کا نور ، دل کا سرور ہوتی ہیں. لیکن کبھی کبھی نامساعد حالات میں یہ کومل اور معصوم سی بیٹیاں چٹانوں جیسا حوصلہ لئے آزمائشوں کے مختلف دور سے گزرتی ہیں اور بیٹی ہونے کے باوجود بیٹے کا فرض نبھاتی ہیں. " چیک بک " کی نورا اور " ٹوٹے پنکھ " کی عہد شباب کو الوداع کہتی  نامراد بیٹی جنہوں نے اپنے جذبات ، احساسات اور خواہشات کو دفن کرکے اپنے والدین اور بھائی بہنوں کے لئے آسائشیں مہیا کیں . بیٹی کو بوجھ سمجھنے والے اس معاشرے کو بیٹیوں کا احسان مند ہونا چاہئے کہ بیٹی مٹ جاتی ہے مگر اف نہیں کرتی! 

    " تمنا " اور " درد کے ٹانکے " اور" دیوتا " کی محبوبہ جو وفا کے امتحان میں کھری اترتی ہیں اور اپنے محبوب کی زندگی کو بہاروں کے حوالے کرکے خزاؤں کی نذر ہو جانا چاہتی ہیں.   

        شہانہ اقبال نے مشرقی عورت کی ایک پاکیزہ تصویر پیش کی ہے جسے دیکھکر ، اسکی عظمت کو محسوس کرکے خود بخود سر نگوں ہونے کو جی چاہتا ہے 

      شہانہ اقبال نے جہاں عورت کی وفا کے نت نئے رنگ دکھائے ہیں وہاں مردوں کی بھی وفا کا اعتراف کیا ہے " دوسرا بابل " کا یحیٰ جو اپنی کم سن بیوی کا دوسرا نکاح کروانا چاہتا ہے. اس افسانے میں اول تاآخر ایک تجسس ہے اور چونکا دینے والا اختتام. " درد کے ٹانکے " کا جاوید جس نے اپنی محبت کے کھو جانے کے بعد خود کو تنہائیوں کے حوالے کردیا ہے. " ویران بہاروں " کا ممتاز جو بیوی کی وفات کے بعد بھی اسکی یادوں کو سینے سے لگائے جی رہا ہے.!  مجھے شہانہ اقبال کی تحریروں میں ہر سو وفا ہی وفا دکھائی دی.

       افسانہ نگار اپنی تحریروں سے ایک مثبت پیغام دیتے ہیں. صاف وشفاف تحریریں ذہنی تفریح کا باعث ہی نہیں ہوتیں بلکہ ذہن ودل پر گہرے تاثرات چھوڑ جاتی ہیں. انکے رشحات قلم  کئی جگہ دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں.... 

" جب معجزے رونما ہوتے ہیں تو دنیا کو اپنے آپ پتہ چل جاتا ہے " 

.(معجزہ)

بیٹی چاہے سہاگن بنے نہ بنے انکے لئے چیک بک ضرور بن جائے " ( چیک بک) 

کبھی کبھی وقت کے گزرتےان گنت  قافلے کچھ سمجھانے میں ناکام رہ جاتے ہیں اور کبھی ایک لمحہ وہ سمجھ بوجھ عطا کرجاتا ہے جو خلاؤں کو بھی سر کرلے.  (ایک لمحہ) 

انسان کے دل میں ایسی تمنا کیوں جنم لیتی ہے جس کی تکمیل کبھی پھانس کی چبھن کی بجائے نشتر کا زخم بن کر روح کو زخمی کر جائے " ( نشتر)

میں یہاں بطور نمونہ کچھ جملے ہی شامل مضمون کررہی ہوں ورنہ ریاضت سے بھرے پورے اقتباسات نقل کیے جاسکتے ہیں... شہانہ اقبال نے طویل جملوں میں بھی جا بجا لفظوں کا سحر پھونکا ہے اور قاری کو متحیر کرنے کی کامیابی پائی ہے. 

       اس افسانوی مجموعے میں جہاں بہت ساری باتیں متاثر کرتی ہیں وہیں کچھ مقامات پر اضطراب بھی بطور قاری محسوس کیا جا سکتا ہے جیسے شہانہ اقبال صاحبہ کا فکری دائرہ وسیع ہے. لیکن انہوں نے بیانہ افسانوں پہ زیادہ توجہ مرکوز کی ہے. اکثر افسانے خودکلامی پہ ہی مبنی ہیں. مانا کہ اس اسے افسانہ گہرا تاثر چھوڑتا ہے لیکن مرکزی کردار داستان گو ہو تو تبصرہ نگار کو یہ دشواری پیش آتی ہے کہ وہ کردار کا حوالہ باآسانی نہیں دے سکتا. ریاضت کی تخلیق و ترتیب ایک طویل مدت کا افسانوی سفر ہے لہذا افسانوں کے ساتھ سن تخلیق و تاریخ اشاعت بھی شائع ہوتی تو سونے پہ سہاگہ ہوتا. اس سے قارئین کو سمجھ پاتے کہ یہ افسانہ کس دور میں لکھا گیا ہے. اور کہاں کہاں شائع ہوا، یوں تحقیقی قلم کاروں کے لیے بھی کلیدی معلومات ہوجاتی .

       اس مجموعے میں ایک مضمون " آج کا مسئلہ " بھی شامل ہے. افسانوی مجموعے میں مضمون کی موجودگی مجھے کچھ مناسب نہیں لگتی. میری ناقص رائے ہے کہ قلمکاروں کو اس سے اجتناب برتنا چاہئے. کیونکہ قاری افسانوی فضاء میں کھویا رہتا ہے. اس پر خشک مضمون لادنا اسکے ذوق مطالعہ کو بارِ خاطر لگتا ہے.

        شہانہ اقبال کا ادبی سفر جاری ہے. " ریاضت " کے بعد بھی وہ دو اور افسانوی مجموعے " وجود زن " اور " میں بنجارن " بھی ادبی دنیا کی نذر کر چکی ہیں جن کی خوب پذیرائی ہورہی ہے.دعا ہے کہ اللہ پاک انکی عمر دراز کرے اور وہ. یونہی افسانوی دنیا میں اپنے قلم کا جادو بکھیرتی رہیں. 

*******

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.