از : فریدہ نثار احمد انصاری۔
" نہیں ! اس کی جگہ اس گھر میں نہیں ۔"
بڑے بھائی جان نے غرّا کر ذیشان کو دیکھا۔
" لیکن بھائی جان! گستاخی معاف! ایسی کیا بات ہے۔ کلمہءگو ہے، پڑھی لکھی ہے، خاندانی ہے۔پھر کیوں آپ اسے گھر میں آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔ایسا کیا کیا ہے اس نے؟ "
" کیا ہم نے معاشرے کے سفید کالر شخصیات کی صاحب زادیوں کو تمہارے لئے منتخب نہیں کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ ان کے ساتھ گھوم پھر بھی سکتے ہوں۔کسینو، ڈانس ہال بھی لے جا سکتے ہو لیکن تم نے کیا کیا؟ چودھری صاحب تو اپنی بیٹی کے لئے ایک لمبی چوڑی لسٹ جہیز کے نام پر دے سکتے ہیں پر تمہیں انکار ہے۔"
" بھائی جان! کیا میں زندگی کے لوازمات خرید نہیں سکتا ؟ کیا میں بے بال و پر ہو گیا ہوں؟ کیا ان کے بھیجے چھپرکھٹ پر مجھے سکون کی نیند آئے گی؟ کیا میرے پاس اپنی ٹویٹا، پراڈو نہیں جو میں ان کی گاڑیوں میں گھوموں؟ مجھے جو سکون چاہئے وہ پرتعیش سازوسامان میں نہیں ۔ایک مکمل مسلم گھر گرہستی میں بسانا چاہتا ہوں۔میں زندگی کے لوازمات خود خریدنا چاہتا ہوں پھر شریک سفر کا انتخاب اپنے لئے میں نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ "
" تم اور تمہارے افکار! ان سبھی سے معاشرے میں مقام نہیں مل سکتا، سوچو کچھ! "
" بھائی جان! آپ نے ہی مجھے انکم ٹیکس آفس بھیجا تھا علینہ کے پاس! اب اگر وہ میرے دل کو بھا گئی تو میں بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ازدواجی زندگی کے لئے فریقین سے ایجاب و قبول کے بعد ہی نکاح کی مہر ثبت کی جاتی ہے، پھر مجھ پر زبردستی کیوں؟ علینہ اور میرے خیالات ملتے جلتے ہیں۔وہ نماز کی پابند اور میں بھی۔میں تصنع سے بےزار اور اسے بھی یہ سب پسند نہیں ۔"
" تمہاری یہ ضد ہم پوری نہیں کر سکتے۔اب تک ضد کر کر کے اپنی بات منواتے رہے لیکن اب زندگی کا معاملہ ہے۔ہم اس رشتے پر قطعی راضی نہیں ۔"
اور بھائی جان نے اپنی نشست سے اٹھ کر کمرے کا رُخ کیا۔ذیشان کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا ۔وہ علینہ کے گھر پہنچا اوراس کے والدین سے مل کر اپنا منشا ظاہر کیا۔انھوں نے کچھ وقت لیا آخر ایک دن قاضی صاحب، دو گواہوں، کچھ دوستوں کے جلو میں نکاح من سنتی احسن طریقے سے کمال انجام تک پہنچ گیا۔
اپنی دُلہن کو لے کر وہ حویلی پہنچا۔حویلی کے مکین بس دیکھتے رہ گئے ۔بھائی جان کا غصہ عود کر آیا، سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے حکم صادر کر دیا " دیکھو! حویلی میں تم آ سکتے ہو لیکن اس کے لئے ایک فٹ بھر بھی جگہ نہیں۔سمجھے تم! " جیٹھانی اپنے شوہر کو دیکھتی ہی رہ گئیں، دادی نے کچھ بولنا چاہا لیکن انھیں آنکھیں دکھا کر خاموش کر دیا گیا۔ننھی نے جا کر چچی کا ہاتھ تھاما لیکن اس کا ہاتھ بھی زبردستی چھڑا لیا گیا اور علینہ کی آنکھوں میں جھڑی لگ گئی ۔
بھائی جان کا دل پسیجا تو بس اتنا کہ
" دیکھو! حویلی میں تو اس کے قدم آ ہی نہیں سکتے ،ایک کام کرو، باہر انیکسی ہے وہیں چلے جاؤ۔"
" بھائی جان ! وہ گھر کے مکینوں کے لئے نہیں ہوتی پھر ہم کیسے رہ سکتے ہیں؟ کیا میں اس حویلی کا وارث نہیں ۔"
" کس نے کہا کہ تم وارث نہیں ۔تم جب چاہے آؤ، جاؤ لیکن اس لڑکی کے لئے جگہ یہاں نہیں ۔بس یہی فیصلہ ہے۔"
اور یوں وہ انیکسی کے ہو گئے ۔پھر کسی نے کوئی گلہ کیا نہ شکوہ۔علینہ نے یہی رب کی رضا سمجھی اور شریک سفر کی محبت میں کھو کر اپنی حیات کو انہی کے نام کر دیا۔وقت کا پہیہ آگے سرکتا رہا اور ایک دن پھول سی گڑیا تہذیب نے انیکسی کے آنگن کو مہکا دیا۔شب و روز کی گردش اپنے مدار طئے کر رہی تھی کہ ایک دن بھائی جان کی نظر پھولوں سے کھیلتی تہذیب پر پڑی۔ حویلی میں اتنے بچے اور یہ یہاں تنہا! یہی سوچ کر سر جھکائے ،گزرتے ہوئے بھائی کو آواز دی
" سنو ! ابھی سے بتائے دیتا ہوں کہ اس بچی کو ہم نے اپنے منجھلے بیٹے کے لئے مانگ لیا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ کہیں غیر میں اس کا رشتہ نہ کردو۔گھر کے گھر میں ہی بات رہ جائے گی۔اس لئے یہ حویلی میں آ جا سکتی ہے۔"
علینہ کا دل دھڑکنے لگا " مجھے نہ سہی، کم از کم میری بچی کو تو تسلیم کر لیا۔" وہ سر بسجود ہوگئی۔زندگی رُکتی کب ہے! شب وروز مدام چلتے رہے۔تہذیب نے صورت و شکل کے ساتھ سلیقہ شعاری بھی ماں سے پائی تھی ساتھ کبھی کسی بات پر شکوہ بھی نہیں کرتی ۔اپنے نام کی طرح اسم با مسمی تھی۔دن گزرتے رہے اور ایک دن علینہ کی طبعیت ایسے بگڑی کہ پھر اس کے قدم انیکسی سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ۔چچی نے تہذیب کو سنبھال لیا ۔
تدفین کی تیاری ہو چکی۔میت کو اس کی آخری آرام گاہ کی جانب لے جایا گیا۔قبر پہلے سے تیار کروا دی گئی لیکن ایک ساتھ دو قبریں تیار تھیں۔ایک وہ جگہ جو خاندانی میتوں کے لئے وقف تھی اور دوسری وہ جگہ جو اس احاطے سے کچھ دور اتنی تھی کہ جانے کے لئے راستہ بنا ہوا تھا۔جنازے میں شامل لوگ دیکھتے ہی رہ گئے کہ بھائی جان کی آواز گونجی
" اس طرف دفن کیا جائے۔ یہاں خاندانی لوگ آتے ہیں۔ساری زندگی انیکسی میں ہم سے کچھ پرے رہی یہاں بھی انیکسی ہی بھلی رہے گی۔"
" بھائی جان! پھر مجھے بھی یہیں دفن کیجئے گا کہ شریک سفر کا ساتھ ہر جگہ بھلا ہوتا ہے۔" اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔