خان آفرین ، ریسرچ سکالر
ندیم او ندیم۔۔۔۔ جلدی اٹھو اسکول کو جانے میں دیر ہو جائیں گی امی نے بڑی محبت سے ندیم کو آواز لگائی۔۔۔۔۔۔
ندیم آنکھیں ملتا ہوا بستر سے اٹھا اور تیار ہو کر ناشتے کے لئے دسترخوان پر جا بیٹھا اس کی آنکھیں نیند کے بوجھ سے ابھی بھی بوجھل تھی ۔۔
ندیم نے ناشتہ کیا اور گھر کے باہر آگیا جہاں حنا اور جاوید بھی آگئےاور ندیم دوڑتا ہوا اسکول کے لئے نکل پڑے یہ ندیم کا روزانہ کا معمول تھا۔
حنا اور جاوید ندیم کے پڑوسی افتخار صاحب کے بچے تھے دونوں گھروں میں خاندان جیسا تعلق تھا ندیم حنا جاوید بچپن کے ساتھ ہی تھے۔ہمیشہ ساتھ کھیلتے پڑھتے تھے ندیم کو تو خبر بھی نہ تھی کہ کب اس کے دل نے حنا کے لیے محبت کے جذبے کو محسوس کیا تھا۔رفتہ رفتہ وقت گزرتے گیا اور دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی گئی اب دونوں لڑکپن کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے ندیم ہمیشہ ہی حنا کا خیال رکھتا اس کی حفاظت کرتا اپنی پڑھائی سے زیادہ اس کی پڑھائی کی فکر کرتا ۔ ندیم کے لئے حنا کا ہر کام فرض اول ہوتا۔
حنا اورندیم میں تھوڑی دوری ضرور آ گئی تھی ۔ جب کبھی حنا کو اس کی سہیلیوں کے ساتھ کہیں جانا ہوتا یا کالج کا کچھ کام ہوتا تو حنا کے ساتھ اس کا بھائی جاوید یا ندیم ضرور ہوتے تھے ۔یہی وہ مواقع ہوتے جب ندیم کی حنا سے ملاقات ہوجاتی تھی۔
ندیم کاشمار ان لوگوں میں کیا جاسکتا ہے جو اس مطلبی دنیا میں بھی محبت اور خلوص کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔
محبت کسی سے بھی کہیں بھی ہو سکتی ہے ندیم کی ایک طرفہ خاموش محبت اسے ہمیشہ ایک خوشگوار ماحول میں رکھتی ۔حنا کا انتظار کرنا اس کے کام کرنا اس کی غیر موجودگی میں اس کے خیال سے ہی ندیم خود کو ایسی شادآباد دنیا میں تصور کرتا جہاں صرف اور صرف خوشی ہی ہے ۔
ندیم کی ایک طرفہ محبت نے سے مجبور و لاچار کر دیا تھا وہ چاہ کر بھی اپنے دل کی بات حنا سے کبھی نہ بتا سکا ۔
اب حنا کے لیے رشتوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا ہونے لگے اور جلد ہی ایک بڑے گھرانے میں حنا کی شادی طے ہوگئی حنا کے شوہر سے ملنے پر ندیم اداس ضرور ہوا مگر اس نے کسی پر بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ حنا سے کتنی محبت کرتا ہے ۔
ہر انسان کی زندگی میں ایک شخص ضرور ہوتا ہے جس سے وہ بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن کبھی اس سے کہہ نہیں پاتا۔
حنا کے بات پکی ہونے سے پہلے اس کے بھائی جاوید نے ندیم سے صلاح مشورہ کرنا ضروری سمجھا ندیم نے جب حنا کے چہرے کی خوشی دیکھی تو اس نے بھی رشتے کے لیے حامی بھر دی اور پھر حنا شادی کر کے دوسرے شہر چلی گئی ۔
اب ندیم اداس اداس سا رہنے لگا دوستوں میں بھی وہ کم ہی بیٹھا تھا ۔اپنا زیادہ تر وقت کاروباری مصروفیات میں گزارنے لگا۔ندیم کی تنہائی میں بھی حنا شریک ہوتی وقت بڑا بے رحم ساتھی ہے وہ مرہم تو دیتا ہے مگر دیر سے آہستہ آہستہ علاج کرتا ہے محبت کا جذبہ پاکیزہ اور روح پرور ہوتا ہے وہ صرف اور صرف دینا جانتا ہے لینا نہیں بدلے میں کیا حاصل ہو اس کی پرواہ کیے بغیر صرف اپنے دل سے محبت دینا جانتا ہے ندیم کی محبت بھی ایسی ہی پاک اور صاف تھی۔اب ندیم بڑی محنت ومشقت کرتا دن رات خود کو کام میں مصروف رکھتا تاکہ حنا کی کمی محسوس نا ہو گھر میں کم ہی وقت گزرتا اس کی بہنے کبھی اس ہنستی اس کا دل بہلاتی تو ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا اپنی محنت سے ندیم نے بازار میں اپنا نام اور رتبہ قائم کرلیا تھا وہ ایمان داری کے لئے پورے بازار میں مشہور تھا۔کبھی کبھی وہ سوچتا اگر حنا اس کے ساتھ ہوتی تو یہ خوشی یہ عزت و وقار دوگنا ہو جاتا ۔ندیم کی زندگی تو جیسے بے رونق ہو گئی تھی جب دل میں ہی خوشی باقی نہ رہی تو ندیم باہر سے کیسے خوش نظر آسکتا تھا ندیم کی امی نے اسے نہ جانے کتنے لڑکیوں کی تصویریں شادی کے لیے دکھائی مگر ندیم نے کسی کے لیے بھی حامی نہیں بھری سال در سال گزرتے رہے ندیم نے اپنے دونوں بہنوں کی شادی اور چھوٹے بھائیوں کی شادی کروا دی مگر خود کسی سے شادی نہ کر سکا۔
اب جب ندیم گزرے وقت کے بارے میں سوچتا ہے تو لگتا ہے کہ صرف احساس ہی تو تھا جس نے اس کی زندگی کو سہارا دیا وہ سوچتا ہے کہ وہ بھی کیا حسین تعلق تھا جو مجھ سے ہر وقت لا تعلق تھا۔
چھ سال کا وقفہ گزر گیا ۔حنا کی شادی میں بھی جھگڑے بڑھتے چلے اکثر امی کی باتوں سے ندیم کو خبر ہوجاتی حنا کی ازدواجی تنازعات نے اخر کار بھیانک موڑ اختیار کر لیا اور سسرال والوں نے حنا کو اس کے میکے بھجوادیا ہے۔
ندیم کی امی کسی سے بات کر رہی تھی کہ حنا کے حالات بہت خراب ہو گئے ہیں بیچاری نے جب تک سہ سکتی تھی برداشت کیا لیکن اس کے سسرال کی طرف سے کوئی بھی اس کی صلح کروانے نہیں آیا۔ بہت برا ہوا بیچاری کے ساتھ اس کا شوہر بہت بد مزاج نکلا ۔
ندیم کے کانوں میں جب یہ کلمات پڑھے تو کچھ دیر کے لیے دنگ رہ گیا اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا یہ اس نے کیا سن لیا اب وہ بے چین ہو گیا حناکے کیا حالت ہےجاننے کے لیے بے قرار سا رہنے لگا۔---
کیا حنا واقع مصیبت میں ہے ؟-----
اور میں اپنی زندگی میں اتنا بے پرواہ ہو گیا کہ مجھے خبر ہی نہیں ہوئی---
ندیم اپنے دوست سے ملنے کے بہانے حنا کے گھر گیا وہاں جاوید سے باتوں باتوں میں حنا کے حالات معلوم ہونے پر ندیم نے کہا کہ ہم دونوں حنا کے شوہر سے بات کرتے ہیں اور معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مگر جاوید نے ندیم سے انکار کر دیا کہ حنا کا شوہر بہت بد اخلاق اور بد مزاج ہے وہ کسی کی ایک بات نہیں سنتا اتنے میں حنا چائے لے کر ائی تھی اس نے ندیم کو سلام کیا اور ندیم نے جو ہی حنا کو دیکھا اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر ندیم کے آنکھیں بھر آئی۔ کیا یہ وہی حنا ہیں جو ہر پل چہکتی مہکتی رہتی تھی اور آج اپنے حالات کے چلتے اداس گم صم خاموش کھڑی تھی۔ ندیم نے بڑی ہمت کر کے ماحول کو ہلکا کرنے کے لیے کہا ۔
اور حنا کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔
حنا نے جواب میں بس سر ہلا دیا۔۔۔۔۔۔۔
ندیم اجازت لے کر اپنے گھر چلایا مگر اس کی انکھوں میں ہنا کا چہرہ گھومتا رہا چھ مہینے کا عرصہ گزر گیا حنا کی طلاق کو اب وہ گھر سے کم ہی نکلتی لوگوں کی طعنوں اورسوالی نظروں سے بچنے کا حنانے یہی طریقہ نکالا تھا۔
جاوید ایک رات ندیم کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا اس نے ندیم سے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے حالات اب اچھے نہیں رہے میری بیوی اماں سے ہمیشہ لڑتے رہتی ہے اور اوپر سے حنا کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی وہ کچھ نہیں کہتی چپ چاپ گھر کا پورا کام کرتے رہتی ہے۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ اس کی زندگی بھی خوشیوں سے بھر جائے ۔۔۔۔۔۔
اور جاوید نے ندیم سے وہ بات کہہ دی جو ندیم کے دل میں کئی برسوں سے دبی ہوئی تھی جاوید نے کہا ۔۔۔۔۔
ندیم کیا تم حنا سے شادی کر لوں گے ۔ اسے وہ عزت و خوشیاں دوں گے جس کی وہ حقدار ہے۔۔۔۔۔۔۔
ندیم کے پیروں تلے زمین نہ رہی کچھ دیر کو اس کی انکھوں کے اگے اندھیرا چھا گیا اور ندیم کچھ نہ بول سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاوید کچھ بوکھلاگیا اس نے کہا معاف کرنا ندیم میں پریشانی میں تم سے نہ جانے کیا کیا کہہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم بول پڑا۔۔۔۔
نہیں نہیں جاوید بھائی معافی کی کوئی بات نہیں میں اس رشتے کے لیے راضی ہوں مگر اپ ایک بار حنا کی رائے بھی جان لیں اگر وہ رضامند نہیں دو میں یہ شادی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔
جاوید تو خوشی سے جھوم اٹھا ندیم کو گلے لگا لیا ۔
حنا سے جب پوچھا گیا تو اس نے پہلے انکار کیا۔ وہ اپنے ماضی سے بہت زیادہ خوفزدہ تھی۔۔۔۔۔
مگر جاوید بھائی کے سمجھانے پر وہ راضی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم کے امی بھی حنا کو اپنی بہو بنانے بنا کر اپنے گھر لے ائی ۔ حنا کے اخلاق و عادت سے تو وہ پہلے ہی واقف تھیں ۔اس لئے حنا باآسانی سب ک ساتھ گھل مل گی۔
شادی کے بعد ندیم نے حنا سے اقرار کیا کہ وہ بچپن سے ہی حنا کو چاہتا تھا۔ مگر کبھی کہہ نہیں پایا اور اس نے اپنی زندگی میں اپنی محبت کے سوا کسی کو جگہ نہ دی ۔اور آج اللہ نے ندیم کی پاک محبت کی دعا کو قبول کیا ۔
حنا یہ سن کر دنگ رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے مجھے یہ پہلے کیوں نہیں کہا ندیم۔۔۔۔۔۔۔
ندیم نے کہا اللہ کو جو منظور ہو وہی ہو کر رہتا ہے۔ مجھ میں کبھی ہمت ہی نہ ہوئی کہ میں اپنی محبت کا اقرار کرتا۔
مگر میں میرے اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس نے میری خالی زندگی کو حنا کے رنگ اور خوشبو سے بھردیا ۔