Type Here to Get Search Results !

گوشہٗ سخن

غزل

فہیم خاتون مسرت، ناندیڑ

 حقیقت کہہ نہیں سکتی لبوں پر میرے تالےہیں

ہزاروں زخم سینے میں ہمیشہ میں نے پالے ہیں 


جنازے پر وہ شوہر کے بڑی حسرت سے یہ بولی

تمہیں مرنا ہوا آساں یہاں جینے کے لالےہیں


دلوں میں جن کےحسرت ہے لبوں پرمسکراہٹ ہے

الٰہی وہ بھی تیرےاس جہاں کے رہنےوالےہیں


بڑی رونق رہاکرتی تھی ہم سےان کےجس گھر میں

سنا ہےاس جگہ پر اب فقط جالےہی جالےہیں 


ہمارے حلقۂ احباب میں شامل ہیں کچھ اپنے

بظاہر ہنس کے ملتے ہیں مگر دل ان کے کالے ہیں


بہت دشواریاں سہہ کرجولمحے ہم نے پائے تھے

مسّرت کےوہی لمحےکئے دکھ کے حوالے ہیں

******************


غزل

قمر سرور،  احمد نگر


اک اک لمحہ زندہ ہے
 تیرا  غم  تابندہ  ہے

 راگ  مرا  آزاد  نہیں
کوئی  مرا سازندہ ہے

اجرکی اس کو چاہ نہیں
عشق کا جو کارندہ ہے 

جس سے کبھی ہم مل نہ سکے
دل کا وہی باشندہ ہے 

ڈھہ تو گیا، لالچ کا محل 
 قصرِوفا  پایندہ  ہے

میرے لہو کی بوندوں سے
 میرا دِیا  تابندہ  ہے 

میں کیا،غیروں کی دھن پر، 
 دنیا ہی رقصندہ ہے

شرم کا قصہ، چار طرف
کون مگر شرمندہ ہے

بزمِ سخن اک آج قمر 
اک  محفل  آئندہ  ہے
********************

نظم 

نبا علی


آو تم سے ملتے ہیں ظرف آزماتے ہیں ۔۔۔۔
رنجشیں بھلاکر پھر آرزو سجاتے ہیں ۔۔۔۔
تم کبھی اداسی میں سر جو کاندھے پر رکھو۔۔۔
وقت پھر نہیں چلتا رستے رکتے جاتے ہیں۔۔۔
اجنبی سے بن کے جو ہم کو دیکھتے ہو تم ۔۔۔۔
کیا گزرتی ہے ہم پہ رنگ اڑتے جاتے ہیں۔۔۔
جیتنا مقدر تھا جیت تم کو سکتے ہیں۔۔۔
پر تمھاری ہی خاطرتم  کو ہارے جاتے ہیں ۔۔۔۔
کتنے ہی خوابوں کو توڑ ڈالا لوگوں نے ۔۔۔
طرز پر زمانے کی ہم بھی چلتے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔
اب کہاں وہ شوخی ہے  زیست بھی بہت گم صم۔۔۔
روز جیتے رہتے ہیں روز مرتے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آج تک نہیں سمجھے رمز ہم محبت کی ۔۔۔۔
پھر بھی عاشقی کے سنگ چلتے چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں نبا کی جو تم نمی سمجھتے ہو۔۔۔۔۔
وہ فقط  ہیں کچھ سپنے جو اجڑتے جاتے ہیں ۔۔۔۔
***************

غزل

ذکیہ شیخ مینا



واسطہ اس کابھلا کب دلی جذبات سے تھا 
اس کا رشتہ تو فقط ذاتی مفادات سے تھا

سینت  رکھے ہیں  یوں جاناں ترے رشحاتِ قلم 
 ان کا پڑھنا  بھی مرے دل کی عبادات سے تھا 

جب بھی سوچا اُسے رِم جھِم مری آنکھیں برسیں 
اُس کی یادوں کا تعلق بھی تو برسات سے تھا

جب دھنک پھولی تو یاد آئی ترے جسم کی قوس 
 اِس کا  رنگین حوالہ بھی  تری ذات سے تھا 

کس کو روؤں کسے الزام دوں ، ائے دوست بتا ! 
زخم ناسور مرا ترک موالات سے تھا

اک اچٹتی سی نگہ کہہ گئی جانے کیا کچھ 
قلب تا عمر پریشان اسی بات سے تھا 

میں کہ بے گانہ ہوئی ہوش و   خرد  سے  مینا 
شاخسانہ یہ فقط عشق کے صدمات سے تھا 

***************

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.