از : اصفیہ صدیقہ اصفی ، کریم نگر ۔تلنگانہ ۔
زیست کے ان سبھی مرحلوں میں ہماری اس نعمت خداوند آنکھوں نے ،اپنی ہی کہی ، ان کہی روداد سناتی یوں بھی ہوتی ہیں یہ ۔ دکھ کے بادل، سکھ کے انسو کس کس کو ساتھ لیے چلتی ہیں یہ انکھیں۔ کتنا کچھ سمیٹی ہوی ہوتی ہیں یہ آنکھیں ،گہرای لیے کیء اقسام کی آنکھیں ،کبھی محبت میں تو کبھی ہجر و وصال اور کبھی مجبوریوں کےبیڑ یاں پہنی ہوی خاردار ان چاہی پگڈنڈیوں پہ ڈولتی انکھیں۔۔۔ کیا کچھ کہہ جاتی ہیں اور سہہ جاتی ہیں یہ ۔۔
کون سمجھے ان احساسات کو ان جذبات و خیالات کو درد کو تو کبھی ظلمات کی گھڑیوں کو کو اور وہ تمام کہانیوں کوسنا تی آنکھیں۔لا حاصل کو شیشوں کو عیاں کر تی آنکھیں۔
ہر بات سے لیکر جواب ،حساب، کتاب ،شباب حباب رباب ،انتساب ،اکتساب کمیاب و نایاب لمحات کی عکاسی کرتی یہ آنکھیں ۔اور تو اور خدشات میں سہم اور ڈرتی انکھیں۔ مختلف اوقات میں اپنے جذبات و احساسات کو اپنے ہی پلکوں میں چھپاتی اور کبھی ظاہر کرتی یہ انکھیں۔۔
اہ ! ہر رشتے سے جڑے احساسات کی ترجمانی کرتی ۔
آنکھوں کے رستے دکھ کے بادل ☁️ پگھلتے چلے جاتے ہیں تو کبھی ان آنکھوں کے رستے خوشیوں کے در وا ہوتےہیں۔ زیست کبھی خار تو کبھی پھولوں کا ہار نظر آتی ہے ۔
ان کو تو وہی سمجھ سکتے ہیں جو محسوسات کی زبان کو جانتے ہیں اور جو حساس ہو تے ہیں نا وہی لوگ تو ان آنکھوں کے رستے،چلتے، بہتے،لہراتے سسکتے سلگتے ، پھسلتے آنسوؤں کے ریلے کے کوہستان میں داخل ہو کر ان کو سمیٹتے ہیں۔
کتنے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جن کے اپنے انکھوں کے رستے ہر بات کی انتہا وگہرائیوں میں اتر کر ان سب کو زباں دیتے ہیں۔
اے کاش سبھی کے درد و خوشیوں کے دریا "ان آنکھوں کے رستے" ہی اظہار کا جامع پہنے اظہار کے خوبصورت جذبات کے تئیں بہتے رہیں اور سفر کرتے رہیں ، بنا تکلفات کے گلستاں میں۔۔۔۔۔۔