از:شہباز زرین جلیل احمد خاناسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن اورنگ آباد
ایک دفعہ کا ذکر ہے موسلا دھارر بارش برس رہی تھی۔ تہران اپنی اسکوٹی پر بھیگتے ہوئے جا رہا تھا۔ راستے میں اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو درخت کے نیچے اپنے آپ کو چھپاتے ہوئے بھیگ رہی تھی۔ اس لڑکی کے علاوہ راستے پر کوئی بھی نہیں تھا۔ تہران کچھ دیر رک کر اسے دیکھنے لگا ۔عرشیہ کو دور دور تک کوئی سہارا نظر نہیں آرہا تھا نہ کوئی بس اور نہ ہی کوئی آٹو۔
تہران دور سے عرشیہ کو دیکھ رہا تھا۔ بہت دیر کے بعد تہران اس لڑکی کے قریب جا کر پوچھنے لگا کہ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں۔ عرشیہ نے کہا کوئی رکشا یا آٹو ہو تو بلا لاو¿۔ تہران کہنے لگا دور دور تک کوئی نہیں ہے ۔کیا میں آپ کو اپنی اسکوٹی پر آپ کے گھر چھوڑ دوں؟
عرشیہ عزت کا خیال کرتے ہوئے” جی میں آپ کے ساتھ اسکوٹی پر کیسے؟“
تہران نے کہا کوئی بات نہیں آپ میری اسکو ٹی لے جائےے ۔رات ہونے والی ہے اور بارش رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔آپ اپنا گھر کا پتا اور نمبر سر دے دیجئے میں کل آ کر کر اپنی اسکوٹی لے جاو¿ں گا۔عرشیہ پوری طرح بھیگ چکی تھی نہ چاہتے ہوئے تہران کی بات پر راضی ہوگئی۔ تہران عرشیہ سے گھر کا نمبر تو لیتا ہے پر اس کا نام پوچھنا بھول جاتا ہے ۔
گھر پہنچنے پر تہران اس لڑکی کے خیالوں میں ہی گم تھا۔ بار بار اسے اس لڑکی کا بھیگتا ہوا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ چہرے پر شبنم کی شفاف بوندیںجیسے درخت کے پتوں پر بوند ٹھہرتی ہے۔
عرشیہ کے گھر کے سب ہی لوگ پریشان تھے۔ جیسے ہی عرشیہ گھر پہنچتی ہے سب خوش ہو جاتے ہیں ۔عرشیہ گھر میں سب کو ماجراسناتی ہے ۔رات بھر عرشیہ اس لڑکے کی اچھائی کے بارے میں سوچتی ہے۔ دوسرے دن تہران عرشیہ کے گھر فون لگاتا ہے اور اپنی اسکوٹی لینے کے لئے عرشیہ کے گھر جاتا ہے ۔جیسے ہی گھر کی بیل بجتی ہے عر شیہ کی ماں دروازہ کھولتی ہے۔ تہران صرف اتنا ہی کہتا ہے کہ میری اسکوٹی۔عرشیہ کی ماں پہچان لیتی ہے۔ فورا اسے اندر آنے کے لئے کہتی ہے اور اس کی خاطر تواضع میں لگ جاتی ہے۔ عرشیہ کی والدہ تہران سے نام پوچھتی ہے ۔تہران اپنا نام بتاتا ہے۔ تم کہاں رہتے ہو بیٹا اور کیا مصروفیت ہے ؟عرشیہ زینے سے چھپ کر تہران کو دیکھے جا رہی تھی اور اس کی ماں کی باتوں کو سن رہی تھی۔ تہران ترچھی نظروں سے عرشیہ کو دیکھ رہا تھا اور عرشیہ کی ماں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگا
”خالہ جان میں فی الحال بچوں کا ٹیوشن لیتا ہوں اور اچھی نوکری کی تلاش میں ہوں ۔“
فارغ ہوکر تہران عرشیہ کی والدہ سے جانے کی اجازت لیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔تہران اسکوٹی صاف کرنے کے لیے ڈکی کھولتا ہے تو اسے ایک خط ملتا ہے ۔ جس پر شکریہ کے چند الفاظ تحریر تھے۔ تہران عرشیہ کے بارے میں سوچتے ہوئے چلا جاتا ہے۔
خط کے جواب میں تہران عرشیہ کو فون کرتا ہے اور عرشیہ کا نام پوچھتا ہے۔اس طرح دونوں میں گہری دوستی ہو جاتی ہے۔دھیرے دھیرے دونوں کی دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی۔دونوں کی ملاقاتوں کو سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جس درخت کے نیچے اس نے عرشیہ کو پہلی مرتبہ بھیگتے ہوئے دیکھا تھا۔
ایک دن تہران عرشیہ سے کہتا ہے کہ مجھے نوکری کی سخت ضرورت ہے۔تہران ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور وہ اپنے گھر کا واحد لڑکا تھا۔والدین ضعیف تھے اور تین بہنیں شادی کے لائق تھیں۔اور ایک خالہ جو بیوہ تھیں ان سب کی ذمہ داری تہران پر تھی۔تہران کہتا ہے اگر مجھے کوئی اچھی ملازمت مل جاتی ہے تو پورے گھر کے لوگوں کی زندگی سنور جائے گی۔
عرشیہ کالج میں ملازمت پر تھی ۔وہ تہران سے کہتی ہے میں اپنے کالج میں تمہاری نوکری کے لیے بات کرتی ہوں۔تم کل مجھے اپنے دستاویزات لاکر دو۔تہران سائنس فیکلٹی سے تھااور عرشیہ آرٹس کی ٹیچر۔عرشیہ تہران کی جاب کے لیے بہت کوشش کرتی ہے۔کالج کے صدر کے پاس بہت منت سماجت کے بعد تہران کو جاب لگ جاتی ہے۔تہران کو عرشیہ کے کالج میں ہی نوکری ملتی ہے۔تہران بہت خوش ہوتا ہے اور دوسرے دن سے ہی کالج جانا شروع کردیتا ہے۔
عرشیہ کو کالج میں کچھ دن نہ پاکر تہران پریشان ہوکر عرشیہ کو فون کرتا ہے۔فون بند پاکر تہران کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔کچھ دن بعد عرشیہ کالج میں نظر آتی ہے۔مگر تہران سے ملے بغیر ہی گھر چلی جاتی ہے۔تہران کی پریشانی اب حیرانی میں بدل جاتی ہے۔دوسرے دن تہران کالج میں وقت سے پہلے ہی عرشیہ کا انتظار کر رہا تھا ۔جیسے ہی عرشیہ نظر آئی تہران دوڑکرعرشیہ کے پاس جاتا ہے۔لیکن عرشیہ تہران کو نظر انداز کردیتی ہے۔تہران کو سمجھ میں نہیں آتا عرشیہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔ روز کا یہی حال ہوتا ہے۔ایک دن تہران عرشیہ کا ہاتھ پکڑ کر پوچھتا ہے آخر تمہاری ناراضگی کی وجہ ہے کیا ہے۔عرشیہ کہتی ہے تم پہلے سے پریشان اور تمہاری بہت ساری ذمہ داریاں ہیںاور میں ان ذمہ داریوں کے ساتھ تمہیں نہیں اپنا سکتی۔تہران کے پیروں تلے زمین سرک جاتی ہے۔تہران سوچ ہی میں رہتا ہے جب تک عرشیہ کہہ کر نکل جاتی ہے۔اور وہ وہیں کھڑا کا کھڑا رہ جاتا ہے۔
آخر ایک دن تہران اپنے گھر والوں کے ذریعہ عرشیہ کے گھر رشتہ بھجواتا ہے۔تہران کو بہت بڑا جھٹکا تب لگتا ہے جب اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ عرشیہ کی شادی اسی کالج کے پرنسپل کے بیٹے سے طئے ہوئی ہے۔وہ عرشیہ کو مطلبی،بے وفا ،نہ جانے کیا کیا کہتا ہے۔تہران عرشیہ کو یہ تک کہتا ہے کہ امیری کو دیکھ کر عرشیہ نے ارادہ بدل دیا۔
دونوں کی کالج میں ملاقات تو ہوتی ہے مگر تہران عرشیہ کو نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا۔اور دل ہی دل میں اسے بد دعا بھی دیتا تھا ۔آخرکار عرشیہ کی شادی کا دن آہی گیا۔اسٹاف کے ساتھ تہران بھی عرشیہ کی شادی میں دل پر پتھر رکھ کر جاتا ہے۔شادی میں تہران کی شرٹ پر شربت گر جاتا ہے۔تو وہ صاف کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں جاتا ہے۔وہاں اسے کسی کی باتوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔وہ کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھتا ہے تواسے پرنسپل میڈم عرشیہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔وہ چھپ کر دونوں کی باتیں سنتا ہے۔پرنسپل عرشیہ سے کہتی ہیں میں زندگی بھر تمہاری احسان مند رہوں گی جو تم نے میرے اپاہج بیٹے سے شادی کرلی۔عرشیہ کہتی ہے میڈم احسان مند تو میں ہوں جو آپ نے میرے کہنے پر تہران کو نوکری دے دی۔اگر اسے یہ نوکری نہ ملتی تو وہ زندگی سے مایوس ہوجاتا ۔وہ اس گھر کا اکلوتا سہارا ہے۔تمام ذمہ داریاں اسی کے کندھوں پر تھیں۔بوڑھے ماں باپ اور بہنوں کا وہ کیسے سہارا بنتا؟پرنسپل میڈم نے تہران کو ملازمت دینے کے لیے عرشیہ کے سامنے شرط رکھی تھی کہ وہ ان کے اپاہج بیٹے سے شادی کرلے۔یہ سب باتیں سن کر تہران بھاگتے ہوئے باہر چلاجاتا ہے اور زور زور سے رونے لگتا ہے۔اور اللہ سے بدگمانی کرنے کی معافی مانگتا ہے۔جسے وہ بے وفا مطلبی سمجھ رہا تھا حقیقت میں عرشیہ نے زندگی کی قربانی دے کر تہران کے خاندان کو ایک نئی زندگی دی۔