Type Here to Get Search Results !

خیر النساء علیم..... کچھ یادیں کچھ باتیں

از  :  رخسانہ نازنین


            زندگی کا سفر بھی عجیب ہے. کبھی کوئی کسی موڑ پر بچھڑ جاتا ہے تو کبھی کوئی کسی موڑ پر مل جاتا ہے.!  بالکل غیر متوقع اور اچانک!  

            18 مئی 2014 کی جھلستی ہوئی دوپہر یہی خوشگوار اتفاق میرے ساتھ ہوا.  موبائل کی رنگ ہوئی  اسکرین پر انجانا سا نمبر تھا ، کال ریسیو کی تو ایک غیر مانوس سی نسوانی آواز......

" رخسانہ نازنین ہیں ؟ "

" جی ہاں . فرمائیے "

 " آپکو تقریباً 15 سال قبل اپنے قیام حیدرآباد کے دوران کوٹلہ عالیجاہ ، اندھیری گلی کے پڑوسی یاد ہیں ؟ "

" جی ہاں. بالکل یاد ہیں! "

" بیٹے میں سلمان کی امی.!  "

             " اوہ.... السلام علیکم آنٹی. " میرے ذہن و دل خوشی سے جگمگا اٹھے. اور پھر مجھ پر واقفیت شناسائی، اخلاص و شفقت سے لبریز کیفیت کا سماں طاری تھا... حال خیریت  شکریہ شکایت پر مشتمل خاصی گفتگو رہی جس میں انہوں نے انہوں نے بتایا کہ " زریں شعاعیں مارچ 2014 کے خواتین نمبر میں میرا افسانہ " انتظار " پڑھا اور موبائیل نمبر ملا. میری تصویر دیکھکر وہ پہچان گئیں کہ " یہ وہی نازنین ہے جو کبھی ہمارے پڑوس میں رہا کرتی تھی!  گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ یہ مشفق اور مہربان ہستی " سلمان کی امی " اور " ٹیچر" کے علاوہ اب ایک معروف افسانہ نگارخیر النساءعلیم  کے طور پر جانی جاتی ہیں.!   خوشگوار حیرت ہوئی. انہوں نےپوچھا" حیدرآباد کا دورہ عنقریب کب ہے ؟ " " فی الحال تو متوقع نہیں ہے. ابا کو گزرے 5 ماہ ہوئے ہیں. امی کو تنہا چھوڑ کر نہیں آسکتی حیدرآباد!  ممکن ہو تو آپ ہی تشریف لائیں. مجھے بہت خوشی ہوگی " انہوں نے فوراً میری دعوت منظور کر لی جو انکے بے انتہا خلوص کا ثبوت تھا. ورنہ حیدرآبادیوں کے لئے بس کا چار گھنٹے کا سفر جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے!

            فون رکھ کر میں نے امی کو تفصیل سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں. اور میں اپنے قیام کوٹلہ عالیجاہ اندھیری گلی کی یادوں میں کھوگئی. وہ مخلص ،   بے ریا ، مہمان نواز لوگ جنہوں نے ہمیں ایسے اپنالیا تھا کہ 9 سالہ قیام کے دوران ہمیں کبھی محسوس نہ ہوا کہ ہم پردیس میں ہیں .! انتہائی خلوص سے پیش آتے. وہاں ہر ماہ باری باری گھروں میں قرآن خوانی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں . امی تو سبھی کے گھر وں میں شرکت کرتیں مگر میں صرف خالہ جان کے یہاں ہی شریک رہتی. وہیں خیرالنساء آنٹی سے ملاقات ہواکرتی. دراز قد ، گندمی رنگت ، بڑی بڑی ذہین آنکھیں ، دھیما دھیما خلوص برساتا لہجہ ، انکی شخصیت میں عجیب سی کشش تھی. مجھ سے بڑی اپنائیت سے ملتیں. اندھیری گلی کی سکونت میرے لئے اسلئے بھی ناقابل فراموش ہے کہ وہیں میں نے قلم تھاما. آس پاس بکھرے ہزاروں چہروں میں اپنے کردار تلاش کئے. زندگی کی حقیقتوں کا انکشاف مجھے وہیں ہوا. ورنہ میں ، ابا اور امی!  بس اتنی ہی میری دنیا تھی .لکھنے اور شائع ہونے کا سلسلہ چل پڑا تو خالہ جان فخر سے سب کو سنانے لگیں. اور خیرالنساء آنٹی نے میرے اس ذوق کی بے حد پذیرائی کی. پھر میں نے گلی کی ناخواندہ لڑکیوں کے لئے  عابد علی خاں ایجوکشنل ٹرسٹ کے تحت اردو کلاسس کا اہتمام کیا تو انہوں نے تب بھی میرے جذبے کو سراہا اور حوصلہ افزائی کی. میری دادی ماں کا انتقال وہیں ہوا اور اس وقت وہاں کے تمام پڑوسیوں نے درد مندی سے ہمیں سہارا دیا اور مدد کی وہ ناقابل بیان ہے. اللہ پاک ان سب کو جزائے خیر دے. جب وہاں سے اپنے وطن لوٹ رہے تھے تو ہر آنکھ اشکبار تھی.

 میں یادوں کی اس گلی سے نکلی اور خیر النساء آنٹی کی خاطر تواضع کے انتظام میں امی کے ساتھ جٹ گئی.

            21 مئی 2014 کی صبح وہ ہمارے غریب خانے پر تشریف فرما تھیں.!  انتہائی حیرت کا مقام تھا کہ وہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے صرف اور صرف مجھ سے ملاقات کی غرض سے بیدر آئی تھیں. ! مجھے رشک بھی محسوس ہوا ، اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ " ایسے بھی قدردان ہیں جو مجھ ناچیز کو دل میں بسائے ہوئے ہیں. اور میری ادنی سی کاوشوں کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ انہیں قابل تقلید گردانتے ہیں!

             ہم تقریباً 15 یا 16 سال کے بعد ملے تھے. اس گزرتے وقت نے انہیں ایک معروف قلمکار کی پہچان بخشی تھی. اور میں بیٹی سے بیوی اور ماں کا سفر طئے کرچکی تھی.!  انہوں نے میرے ادبی سفر کا آغاز دیکھا تھا. اور اب اس سفر میں کئی پڑاؤ آچکے تھے. ! وہ قلیل عرصے میں تین افسانوی مجموعوں کی خالق بن چکی تھیں. اور اتفاقاً میری بھی تین کتابیں منظر عام پر آچکی تھیں.  انہیں میرے شوہر نامدار سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا کہ " آخر وہ عظیم شخص کون ہوگا اور کیسا ہوگا جس نے نازنین کو اپنایا ہے ؟"  عمر سے ملکر بہت خوش ہوئیں کہ انہوں اپنی ازلی سادگی ، انکساری اور مہمان نوازی سے انکا دل موہ لیا. جنید کو دیکھا. امی سے ملیں ، میری کل کائنات.!  وہ بہت متاثر ہوئیں. 

             گفتگو کے دور چلتے رہے. مختلف موضوعات.... ادبی محفلوں اور شخصیات کے ذکر ہوئے .انہوں نے بتایا کہ ..."تمہارے انکل کے گزرنے کے بعد بہت تنہا ہوگئی تھی .یوں لگتا تھا جیسے جینے کا کوئی مقصد نہ رہا ہو!  بیٹے اپنے اہل وعیال کے ساتھ دیار غیر جابسے تھے. بیٹی اپنی گرہستی میں مگن تھی. عبادات کے بعد خالی وقت کاٹے نہ کٹتا تھا. میں نے اپنی عزیز دوست عاصمہ خلیل کے مشورے پر قلم تھام لیا. " 

            یوں وہ  اپنی زندگی کے تجربات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرنے لگیں.....ایک بار اگر قلم اور قرطاس سے رشتہ جڑجائے تو پھر انسان اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے. کتابوں کی دنیا میں کھو کر اپنے سارے دکھوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے. بلکہ اس میں جینے کی نئی امنگ جاگ جاتی ہے. حوصلوں کی اڑان بلند ہوتی جاتی ہے. اور وہ کامیابیوں کے آسمان چھونے لگتا ہے.

            انہوں نے بھی دیار ادب میں قدم رکھا تو اپنے نام اور کام سے جلد پہچان بنالی انہیں نہ صرف صاحب کتاب ہونے کا شرف حاصل ہوا بلکہ کئی انجمنوں سے وابستگی بھی ہوگئی. بے شمار ادبی نشستوں میں شرکت کے مواقع ملنے لگے جو انکے ادبی ذوق وشوق کو پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوئے.  یوں بھی حیدرآباد کی ادبی فضاء خواتین قلمکاروں کے لئے بڑی سازگار ہے .قلمکار کا ادبی ماحول میں سانس لینا بذات خود اسے زندگی دینے کے مترادف ہے. اورانہیں یہ نئی زندگی راس آگئی....

            خیر النساء آنٹی کے ساتھ گزرا وہ دن کتاب حیات کا ایک حسین ورق تھا. میں نے خوشگوار احساسات کے ساتھ انہیں رخصت کیا. وہ اپنے افسانوی مجموعے مجھے عنایت کر گئیں. میں نے بھی انہیں اپنے مجموعے بصد خلوص و احترام نذر خدمت کئے. کبھی ہمارے بیچ پڑوسی ہونے کا تعلق تھا ، آج ادبی رشتہ استوار ہوگیا تھا جو گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا چلا گیا.

            ان کی عنایات کے سلسلے جاری رہے. انہوں نے اپنی تمام ادبی ساتھیوں سے میرا تعارف کروایا. وہ سبھی مجھ سے ملنے کی مشتاق تھیں. انہوں نے بارہا اصرار کیا کہ " تم حیدرآباد آؤ تو مجھے مطلع کرو. تمہارے لئے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جائے گا .یہاں سب تم سے ملاقات کی متمنی ہیں. "    لیکن میں اس دوران حیدرآباد ہی نہیں جاسکی. امی کی تنہائی کا خیال ....ایک دوبار جانا ہوا تو صرف ایک دو دن کے لئے. جو سسرالی رشتے داروں سے ملنے کے لئے بھی ناکافی وقت تھا. سو باوجود شدید خواہش کے میں ان کے دولت کدے پر حاضر نہ ہوسکی .انہوں نے میری شخصیت اور فن کے حوالے سے ایک مضمون قلمبند کیا جو " سیاست " میں شائع ہوا. جسے پڑھکر میری آنکھیں نم ہوگئیں... کیا میں اتنی محبتوں اور شفقتوں کے قابل تھی.! " بیشک یہ اللہ پاک کا کرم ہے جس نے ایسی مخلص اور مشفق ہستی کی محبت سے نوازا ہے. فون پر اکثر ہماری طویل گفتگو ہوا کرتی. انہوں نے محترمہ شہانہ اقبال صاحبہ اور محترمہ فریدہ زین صاحبہ سے مجھے متعارف کروایا. فریدہ زین صاحبہ کے افسانے میں پڑھتی رہی تھی. اور انکی تحریروں سے متاثر بھی ہوئی تھی. اپنی پسندیدہ قلمکار کا مجھ سے رابطہ کرنا میرے لئے باعث مسرت تھا. اور یہ خوشی مجھے خیر النساء آنٹی کی بدولت ملی تھی .میں انکی بےپناہ ممنون ومشکور تھی. فریدہ زین صاحبہ کو میرے افسانے بہت پسند آئے تھے. انہوں نے تبصرہ لکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا لیکن موت نے مہلت نہ دی اور وہ وعدہ وفا نہ کرپائیں. اللہ انہیں غریق رحمت کرے. انکی اچانک موت سے حیدرآباد کی ادبی محفلوں غم واندوہ کی لہر دوڑ گئی. میں نے خیر النساء آنٹی کو پرسہ دیا کہ وہ اپنی ایک عزیز دوست کھو چکی تھیں. ان کی " بزم غزالاں " کی نشست میں شرکت کرنے کی بڑی تمنا تھی. اس وقت ہمیں صرف دفتر ملا تھا. فرنیچر وغیرہ کا بندوبست نہ ہوسکا تھا. اسلئے میں انہیں مدعو نہ کرسکی. بعد میں جب دفتر آراستہ ہوا تو انہوں نے ناسازی طبع کی بناء پر معذرت چاہی. جس کا قلق مجھے آج بھی ہے. وہ دراصل میری کامیابیوں کو دیکھنا ، اور سراہنا چاہتی تھیں. اور یہ انکے خلوص کا مظہر تھا. 

            حالیہ عرصے میں میں  افسانچے لکھنے لگی تھی. ان  سے ذکر کیا تو انہوں نے بھی اس صنف پر طبع آزمائی کی. اور دو چار دن بعد ہی مجھے کئی افسانچے سنا کر حیرت زدہ کردیا. مجھے بہت خوشی ہوئی .میں نے انہیں اشاعت کے لئے بھیجنے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے فوراً قبول کرلیا. یوں وہ مناظر عاشق ہرگانوی کے " عالمی خواتین افسانچہ نمبر " میں شائع ہوئیں. جس میں میں بھی انکے ساتھ تھی.  ہم ایکدوسرے سے مستفید ہوتے رہے. 

             یکایک غم کا پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑا. امی دار فانی سے کوچ کرگئیں اور میری دنیا میں اندھیرا ہوگیا . میں گھریلو کام کاج کے علاوہ مختلف مسائل میں الجھ کر سب سے دور ہوتی گئی .انہی دنوں خیرالنساء آنٹی کے فرزند ارجمند داغ مفارقت دے گئے. بیٹے کی جوان موت سے وہ ٹوٹ گئی تھیں. اس بار ہمارا دکھ مشترک تھا. میں انہیں تسلی دیتی وہ مجھے دلاسہ دیتیں..نظام قدرت ہے کہ ہم اپنوں کو کھو کر بھی جیتے ہیں اور دنیا داری بھی نبھانی ہی پڑتی ہے. وہ بھی غم کے حصار سے باہر نکلیں. پھر سے ادبی مصروفیات میں گھر گئیں.....لیکن میں اپنے گھریلو مسائل میں بری طرح الجھی رہی. مطالعہ کا وقت تھا نہ وہ جذبہ شوق!  عجیب سی بیزاری ذہن ودل پہ طاری رہی. پھر یہ ہوا کہ سوشیل میڈیانے ایک مقناطیسی کشش کی مانند مجھے اپنی طرف کھینچ لیا. فاضل وقت وھاٹس اپ گروپس کی نذر ہونے لگا. اور ادبی سرگرمیاں بھی گروپس تک ہی محدود ہوگئیں. روابط کی اس دنیا نے آسانیاں بھی فراہم کی ہیں اور فاصلے بھی بڑھائے ہیں.!  جو لوگ وھاٹس اپ پہ ہیں ان سے سلام دعا اکثر ہوجاتی ہے. لیکن جو نہیں ہیں انکے لئے وقت نکال کر فون کرنا بوجہہ کاہلی ٹلتا رہتا ہے. یہی سبب ہے کہ میں ان  سے مسلسل رابطے میں نہ رہ سکی. جس کا مجھے بے پناہ قلق ہے اور نادم بھی ہوں کہ میں  ایک پرخلوص ہستی سے گفتگو کے مواقع کھو تی رہی.لیکن وہ میری یادوں سے محو نہیں ہوئی ہیں .انکا مسکراتا ہوا ، مشفق اور پروقار سراپا میری نگاہوں میں بسا ہوا ہے. اور ان سے دوبارہ ملاقات کی شدید خواہش بھی دل میں جاگزیں ہے.....

             کچھ ماہ پہلے شہانہ آنٹی کے توسط سے مجھے کتابوں کا ایک پیکٹ ملا. جس میں انکی " ریاضت " کے علاوہ خیرالنساء آنٹی کی محبتوں سے سجے لفظوں کے پھولوں سے مہکتی سوغاتیں ملیں. مختلف اصناف پر مشتمل معروف ادباءو شاعرات کی تصانیف. مجھے شہانہ آنٹی کی جستجو پہ بے پناہ خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ " جہاں چاہ وہاں راہ " کے مصداق انہوں نے حیدرآباد سے بیدر آنے والے شخص کو تلاش کیا اور میرے گھر تک کتب پہنچائیں. میں انکی اور خیرالنساء آنٹی کے خلوص اور محبتوں کی مقروض ہوں .اللہ انہیں سلامت رکھےاوریہ شفقتیں مجھے تاعمر میسر ہوتی رہیں

            ہر کتاب پر لکھی خیرالنساء آنٹی کی تحریر..... جس محبت سے انہوں نے مجھے ان تحائف سے نوازا اس نے مجھے لکھنے کی نئی تحریک دی. بلکہ بجھے دل میں جوت جگائٰی. 

             کتابیں ملنے کے بعد میں نے فوراً خیر النساء آنٹی کو فون کیا اور جذبہ تشکر کا اظہار کیا. انکا شکوہ بجا تھا کہ میں ان سے مسلسل رابطے میں نہیں تھی. اس بار مصمم ارادہ کیا کہ انکی شخصیت پر ضرور قلم اٹھاؤنگی. 

             مضمون کی تمہید لکھی اور پھر وہی ہوا..... دوسری مصروفیات نے ایسے گھیر لیا کہ اسے مکمل نہ کرسکی . " بزم ادب " علی گڑھ کا راشدہ خلیل نمبر موصول ہوا. جو مرحومہ راشدہ خلیل صاحبہ کے فرزند اور دختر کی مجموعی کاوشوں کا ثمر ہے. اس میں خیرالنساء آنٹی کا مضمون بھی شائع ہوا ہے. میں نے انہیں مبارکباد دینے کی غرض سے فون کیا تو انکا لہجہ وہی اپنائیت بھری شکایت سے پُر تھا " رخسانہ!  کہاں ہو تم ؟" میں نے بے ساختہ کہا " آپکے دل میں " یہ سنکر وہ ساری خفگی بھول گئیں. اور بتایا کہ ان دوڈھائی سالوں میں انکے اور دو افسانوی مجموعے اور ایک میگزین جو انکا محترمہ عظمت عبدالقیوم کے لئے اظہار عقیدت ہے. منظر عام پر آچکا ہے. اپنی عزیز دوست عاصمہ خلیل صاحبہ کی وفات کی خبر سنائی. میں صدمے سے گنگ سی ہوگئی. کہ کیسی کیسی چاہنے والی ہستیاں یوں اچانک داغ مفارقت دیتی جارہی ہیں. اللہ پاک انکی مغفرت فرمائے. اور جنت الفردوس میں بلند درجات عطا کرے. 

              پچھلے ہفتے انکا ادبی تحفہ. "خوشبوئے عظمتِ عبدالقیوم" ہمدست ہوا. ایک اور قابل قدر اقدام.انہوں نے دکن کی اس عظیم ادیبہ وشاعرہ اور بانی " محفل خواتین " کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے . اس سے قبل انکے 5 افسانوی مجموعے " وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو " " ظلمت شب ہی سے تو ہوتی ہے نمودار سحر " " پھر برسنے کو ہیں آنسو سر مثرگان " " دستک دردل پر " " اک دیا جلائے رکھنا " منظر عام پر آچکے ہیں. " میری آواز سنو " زیر ترتیب ہے.

            اچھوتے اور انوکھے عناوین سے قارئین کو متوجہ کرتے ہیں خوبصورت سرورق ، پس ورق پہ انکے قلم کی گلفشانیاں ، نامور مبصرین کی آراء اور تبصرے. انکے تخیل کی بلند پرواز.... ہر افسانہ دل چھولینے والا بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ الفاظ کا بہتا ہوا دریا جس کا کوئی کنارہ نہیں. لفظوں کے جھرنے پھوٹے ہیں اور رواں ہے جس کی مثال ہے کہ ہر سال ایک افسانوی مجموعہ وہ دنیائے ادب میں پیش کررہی ہیں. 

            شفقتوں محبتوں سے لبریز یادوں اور باتوں پر مشتمل اس مضمون کو قلمبند کرتے ہوئے "خیر النسا علیم بطور افسانہ نگار" اس موضوع پر، میں کچھ نہیں لکھ سکی جس کا مجھے احساس ہے. تنقید، تبصرے اور تجزیے سے قطع نظر کہ یہ میرا منصب نہیں ہے اصحاب نقد و نظر کسی بھی فن پارے کی ہئیت و حیثیت کو فکر و فن کی کسوٹی پر پرکھ کر  جان لیتے ہیں!! اس لیے یہ مرحلہ وہی طے کریں تو بہتر ہوگا ! ...  اس مقام پر بس یہی کہنا چاہوں گی کہ انکی ادبی مصرفیات سے  میں بہت متاثر ہوں . عمر کے اس موڑ پر انہوں اپنے دکھوں سے سمجھوتا کرکے جس ہمت اور صبر سے خود کو ادب کی خدمت کے لئے وقف کردیا ہے وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے .ورنہ اس عمر میں خواتین ہوں یامرد تنہائی اور اپنوں کی بے رخی کے سبب ناامید ہوجاتے ہیں  چڑ چڑے اور بدمزاج ہوجاتے ہیں. بہوؤں ، بیٹوں سے شاکی اور دلبرداشتہ اپنے ہی خول میں بند ہوکر رہ جاتے ہیں. انکے وجود کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور خود بھی زندگی سے مایوس ہوکر موت کی تمنا کرتے رہتے ہیں. خیر النساء آنٹی ان تمام خواتین کےلئے ایک مثال ہیں کہ اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت کے بعد اردو کے فروغ اور بقاء اور ادب کی خدمت میں مصروف کار ہیں. اللہ تعالی انہیں صحت وعافیت سے رکھے اور انکی قلمی خدمات کو قبول کرے. اور مستقبل میں وہ حیدرآباد کی نمائندہ افسانہ نگار خواتین میں شمار کی جائیں.

********

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.