از ۔ناہید طاہر، ریاض،سعودی عرب
کار سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔جب وہ لوگ ہائی وے پر پہنچے وہاں راستے میں لوگوں کا ہجوم جیسے پانی کا کوئی ریلا سا بہتا دکھائی دیا۔۔
ہر دوسرا شخص سر ، کندھوں اور پشت پر سامان کی گٹھڑیاں اُٹھائے مردہ قدموں کے ساتھ آگے بڑھتا دکھائی دیا ۔ اکثر تو ننگے پاؤں سورج کی تپش سے نڈھال تھے۔
ضعیف المرگ لڑکھڑاتے قدموں کو ایسے آگے بڑھا رہے تھے گویا اپنی ہی نعش کندھوں پر اٹھا رکھی ہو۔۔
چندر شیکھر نے گاڑی کی رفتار دھیمی کرلی کیونکہ مصیبت زدہ انسانوں کا یہ دریا کافی پھیلا ہوا تھا ۔
تقریباً پچیس کلو میڑ کے بعد اس نے گاڑی کی رفتار دوبارہ تیز کرلی اور کسی غیر آباد علاقے میں گاڑی روک دی تاکہ دوپہر کا کھانا کھایا جائے ۔
ٹفن بے شمارلوازمات سے پُر بھوک کو دعوت دے رہا تھا دونوں نے لنچ کیا۔کاجل نے تھرماس سے چائے نکالی اور پیالی شوہر کی جانب بڑھائی ۔شیکھر نے چائے پیتے ہوئے سگریٹ سُلگائی اور اے۔سی کی گاڑی سے باہر نکل کر چند ساعتیں دھوپ کا لطف اٹھاتا ، دھواں اور اس کے مرغولوں سے محظوظ ہوتا رہا۔پھر اس نے بچی ہوئی سگریٹ ، فضا میں اُچھال دی اور گاڑی میں آ بیٹھا۔ کاجل تھوڑی ہی دیر میں سوگئی تو اس نے ہاتھ بڑھا کر میوزک آن کیا اور گنگناتا ہوا ایک اور سگریٹ سُلگایا
وہ لوگ اب ممبئی ہائی وے سے گزر رہے تھے۔ مجبوراً گاڑی کی رفتار دھیمی کرنی پڑی کیونکہ یہاں کی شاہراہیں بھی بے بس انسانوں سے پُر ، ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح نظر آئیں ۔ لوگوں کے چہروں پر غم و یاس کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ بچے ، بوڑھے، کمزور خواتین، جوان مرد سبھی کسی بے بس ہجرت زدہ پرندوں کی طرح نڈھال دکھائی دیئے ۔
تپتی دھوپ کے زیرِ اثر کئی مسافروں کے پیروں میں چھالے و زخم بھی نظر آئے، جن میں خون رِستا دکھائی دیا۔اس نے ایک جُھرجُھری سی لی اور سختی سے آنکھیں موند لی۔اذیت میں مبتلا انسانوں کے اس ریلے سے وہ جلد سے جلد فرار چاہتا تھا۔
اس نے اپنے پیر کا دباؤ اکسیلیٹر پر بڑھادیا کچھ ہی ساعتوں بعد گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔انسانوں کا یہ ریلا پیچھے چھوٹا تو اس نے پُرسکون انداز میں سانس لی اور گاڑی کی رفتار نارمل کر لیا ۔ کاجل کی جانب دیکھا۔۔۔وہ مدہوشی کے عالم میں خراٹے لے رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں شیکھر بھی آنکھوں میں نیند کا غلبہ محسوس کیا ۔۔۔ اس نے دوبارہ میوزک آن کیا اور آواز سے گنگناتا رہا تاکہ نیند غائب ہو مگر کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ آنکھیں شدید بوجھل ہوتی چلی گئیں۔
اس نے پاکٹ سے ایک اور سگریٹ نکال لی۔
اچانک پتا نہیں کیسے ، اس کے ہاتھوں سے سگریٹ چھوٹ گئی۔
اسٹیئرنگ پر تھمے ہاتھوں کی گرفت کانپ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی کسی درخت سے بری طرح جا ٹکرائی۔اس کے منھ سے دلدوز چیخ بلند ہوئی۔۔سینے میں اسٹیئرنگ دھنستی ہوئی محسوس ہوئی کیونکہ گاڑی کے ایئر بیگز کھل نہیں پائے تھے ،اسے سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا ۔۔
” کاجل “
اس نے آواز دی۔۔
جواب میں بالکل سناٹا چھایا رہا۔
” کاجل! “
اس نے دائیں ہاتھ سے اپنے سینے کو سہلایا، بائیں ہاتھ سے کاجل کو جھنجھوڑا۔دوسرے ہی پل شدید خوف تلے جیسے آنکھیں پھٹ جانے کو تھیں۔ کاجل کا ماتھا بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔
اس کے آگے کچھ دیکھنے کا حوصلہ باقی نہ رہا تو اس نے کانپتی انگلیوں سے موبائل پر کال لگانے کی کوشش کی ،افسوس جسم میں تمام قوت جیسے سلب ہوچکی تھی۔بڑی بے بسی سے اس نے موبائل کو دیکھا اور اپنے ہوش و حواس کو بمشکل اکھٹا کرتا ہوا چلایا۔
” ہلپ۔۔۔۔۔!!“
پتا نہیں کتنا وقت گزرا۔۔۔۔
اچانک کوئی بزرگ شخص اسے جھنجھوڑنے لگا تو اس نے آنکھیں کھول دی۔ بزرگ کے ساتھ ایک جوان لڑکی جو مکمل حجاب میں ملبوس تھی ۔ساتھ میں چھ یا سات سالہ لڑکا تھا ۔ چندرشیکھر کو کوئی امید نہیں تھی کہ یہ فیملی اس کی کوئی مدد کرے گی ۔
” یا اللہ رحم!“ بزرگ شخص چہرے کا رخ آسمان کی جانب کیے، خدا سے رحم کی بھیگ مانگنے لگے۔۔۔پھر انھوں نے اپنے سر پر بندھا ہوا رومال نکال کر کاجل کے چہرے کو ڈھک دیا۔چندر شیکھر کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔ وہ بزرگ متلاشی نظریں لیے جُھک کر گاڑی کے اندر جھانک رہے تھے۔سامنے پرس پڑا تھا۔جس میں ایک کثیر رقم موجود تھی۔ وہ جھپٹ کر ہاتھ آگے بڑھا ئے۔بزرگ کے ردِعمل سے لگ رہا تھا وہ پرس لے کر فرار ہوجائے گا۔
” بابا ہماری مدد کرو!“
ٹوٹی سانسوں کے درمیان اس نے التجا کی۔جواب میں انہوں نے قیمتی موبائل اٹھا کر بس ایک اُچٹتی نگاہ اِس پر ڈالی اور آگے بڑھ گئے۔
” بھگوان! یہ لوگ کبھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔“
صدیوں سے، ذہن کے پردے پر چسپاں زنگ آلود تعصب ، جھنجھلا اٹھا اور چھٹّی حِس خطرے کی گھنٹی بجاتی چلی گئی۔
”شاید! میں زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکوں۔“
اس سوچ کے ساتھ اس نے گِڑگِڑا کربزرگ سے التجا کی،
” بابا! اس پرس میں جتنی رقم ہے وہ آپ لے لو۔۔۔۔فون بھی رکھ لو۔۔۔۔۔بدلے میں ہماری مدد کردو۔۔۔۔آپ کو بھگوان کا واسطہ “
جواب میں صرف ہواؤں کا شور سنائی دیا۔
چندر شیکھر کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ، بند ہوتی آنکھوں سے دیکھا مجہول سا لڑکا، گاڑی کے قریب آیا اور اشتیاق آمیز نظروں سے گاڑی کے اندر جھانکنے لگا ، شاید اسے کھانے کی خوشبو نے بے کل کردیا تھا ۔ وہ بڑی حسرت سے ٹفن کی طرف دیکھ رہا تھا جس میں قید کھانا حادثے کے بعد بکھرا پڑا تھا۔چندر شیکھر نے دیکھا اچانک اس لڑکے نے اپنی نظریں ٹفن سے ہٹا کر اس کے پیروں کی جانب کرلی۔ بچے کی آنکھوں میں عجب سی چمک جِھلملا اٹھی اس کے چھوٹے سے ہاتھ بڑی تیزی سے پیروں کی جانب بڑھے ، جُھک کر وہ پوری قوت سے پیروں میں پھنسی چپلیں کھینچنے لگا۔
” پانی!“
چندرشیکھر کا گلا خشک ہو رہا تھا۔گاڑی کی پچھلی سیٹ پر مِنرل واٹر کی بوتل پڑی تھی لیکن ہائے افسوس وہ اشارہ بھی کر نہیں سکا۔بزرگ نے اپنی میلی سی بوتل سے پانی پلایا۔تب تک لڑکا چپل نکالنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔
” نانا! اسے پہنو! “
چندر شیکھر نے اپنی بند ہوتی آنکھوں سے بزرگ کے پیر دیکھے جو بِنا چپل کے زخمی تھے ، جن سے خون رس رہا تھا
”یہ لوگ میری مدد نہیں کرسکتے ، مال لُوٹ کر بھاگ جائیں گی۔“
اس نے نفرت سے سوچا پھر اس پر غشی طاری ہوگئی۔
موبائل تھامی لڑکی ، بزرگ اور ہاتھوں میں چپل اٹھائے وہ مجہول سا لڑکا سب کچھ گڈ مڈ ہوتے دھندلاتے چلے گئے۔
آنکھ کھلی تو وہ خود کو اسپتال میں پایا۔
” میں یہاں۔۔۔ ؟“
” تمھارے موبائل سے تقریباً سبھی نمبروں پرمیسج اور لوکیشن فارورڈ تھا اور حادثے کی اطلاع بھی دی گئی تھی۔
چندر شیکھر کے تصور میں وہ حجابی لڑکی گھوم گئی ،جس نے جھپٹ کر اُس بوڑھے شخص سے فون لیا تھا
”ایمبولینس کے ساتھ ہم فوراً موقع واردات پر پہنچ گئے ۔“
باپ ! بڑی شفقت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا تمام روداد سنارہا تھا۔ یہ وہی باپ تھا جِسے اس وباء میں تنہا چھوڑ کر وہ بیوی کے ساتھ جان بچانے کے ارادے سے فرار ہوگیا تھا۔
”وہ لڑکی میرے ہاتھ میں تمھارا فون تھما کر ہجوم میں کہیں غائب ہوگئی “باپ نے اہم اطلاع دی
” چھوٹے لوگ!“
شیکھر کے لہجے میں کڑواہٹ کے ساتھ نفرت بھی عیاں تھی۔کچھ توقف بعد گویا ہوا،
” آج سمجھ آیا کہ ان کمتر لوگوں کی ضروریات اس قدر محدود کیوں ہوتی ہیں۔۔؟ جنت پانے کی آرزؤ میں ہاتھ آئے سنہری موقعوں کو ٹھوکر مارنا ہی ان بے وقوفوں کا فلسفہ ہے۔۔۔ “
کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوئے۔۔۔
بابا وہ لوگ چپل چُرا کر خوش تھے“
” چُراکر۔۔۔؟“
باپ کی پیشانی پر شکنیں اُبھر آئیں ، معاملے کی تہہ تک پہنچتا ہوا وہ طنز سے مسکرایا ،
”تعصب کی آگ نے تمھیں اندھا اور بے حِس کر دیا ہے“
کچھ توقف بعد نہایت دکھی لہجے میں گویا ہوا ،
” جب ایمبولینس نکل رہی تھی اچانک ایک بوڑھا شخص دوڑتا ہوا گاڑی کے قریب آیا۔۔ اس نے بچے کی پھٹی ہوئی شرٹ میں چھپی ’ہوائی چپل ‘باہر نکالی ۔۔۔
وہ لڑکا چپل دینے سے صاف انکار کر رہا تھا مگر بوڑھے نے لڑکے کو ایک زور کی چپت لگائی اور چپل تمھارے پیروں میں پہنا دیئے۔۔