Type Here to Get Search Results !

نــجّو


از قلم : رفیعہ نوشین 
حیدرآباد - دکن 


ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ مکہ مدینہ ضرور جائیں اور اپنے فرض کی ادائیگی کریں -  اللہ نے مجھے بھی یہ موقع عطا کیا تو میں نے بھی حج بیت اللہ کے لئے رخت سفر باندھا اور سب کو الوداع کہہ کر ائیر پورٹ  پہنچ گئ - چک ان کروانے کے بعد امیگریشن چک کے لئے ایسکلیٹر کے ذریعہ دوسری منزل پر جانا تھا - جس کے لئے طویل قطار تھی - میں بھی قطار میں کھڑی ہو گئ - کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ قطار آگے نہیں بڑھ رہی ہے - بلکہ جہاں سے ایسکلیٹرشروع ہو رہا تھا - وہاں سےکچھ نوک جھونک کی آوازیں آ رہی تھیں - میں  نے دیکھا سفید چادر اوڑھے ایک پست قد گندمی رنگت والی خاتون ایسکلیٹر کے بالکل سامنے کھڑی تھیں - لیکن اس پر قدم رکھنے سے  گھبرارہی تھیں - وہ ایک قدم آگے بڑھاتیں اور پھر فوری اسے پیچھے کھینچ لیتیں  - ان کے پیچھے ایک طویل قامت دبلے پتلے سبز رنگ کے شلوار قمیص میں ملبوس، ٹوپی پہنے باریش بزرگ تھے جو غالبا ان کے شوہر تھے - 

"کیا ہوا چلتی کیوں نہیں ؟ دیکھ رہی ہو تیری  وجہ سے سب لوگ رکے ہوئے ہیں - سب کو دیر ہو رہی ہے " ان کے لہجہ میں خفگی کے آثار نمایاں تھے -

"کیسا کروں ؟ مجھے ڈر ہورا نا - میں   گر گئی  اور ہڈی ٹوٹ گئی تو کیسا ہونگا ؟ میں نئی جاتی اس سے - چلو اپن سیڑھیوں سے جائیں گے"  کہتے ہوئے اس خاتون نے اپنے شوہر کاہاتھ پکڑا اور انہیں کھینچنے ہوئے اپنے ساتھ سیڑھیوں کی جانب لے گئیں -

ان کی اس حرکت پر  قطار میں ٹھہرے ہوئے لوگ مسکرانے لگے - 

الحمدللہ ! ہم جدہ ایر پورٹ پہنچ گئے تھے وہاں سے ہمیں بس کے ذریعہ مکہ معظمہ جانا تھا -  بس میں سوار ہوکر میں  اپنی نشست پر بیٹھ گئی - کچھ پل بعد وہی پست قد خاتون ہانپتی کانپتی بس میں سوار ہوئیں - سر سے چادر ڈھلک گئی تھی اور بال بکھرے ہوئے تھے - نظریں سیٹ کی متلاشی تھیں - جیسے ہی ان کی نظر میری بغل والی خالی سیٹ پر پڑی وہ دھپ سے آکر سیٹ پر بیٹھ گئیں - ان کی سانس تیز تیز چل رہی تھی - 

اسی اثناء میں ان کے شوہر بس میں سوار ہوئے - جیسے ہی ان کی نظر اپنی بیوی پر پڑی کہنے لگے "تو یہاں کیوں بیٹھ گئی ؟  میری گھر والی مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بیٹھے واہ رے واہ !

اچھا حساب ہے تیرا چل اٹھ وہاں سے ..."

ان کی بات پر سارے مسافر  ہنسنے لگے اور وہ بیچاری شرمندہ سی چپ چاپ میرے پاس سے اٹھ کر اپنے شوہر کے بغل والی سیٹ پر جاکر بیٹھ گئیں-

ان کے اس طرز عمل سے مجھے تعجب ہوا 

وہ کوئی نوجوان جوڑا نہ تھا - خاتون 65  سال کی تھیں تو ان کے شوہر  75 سال کے  اس عمر میں بھی اتنا رعب۔۔۔ ! 

پھر میں نے سوچا بات مرد  ذات کی ہے - 

عمر اس پر حاوی نہیں ہو سکتی  - 

حاکمیت اور انانیت تو مرد کی فطرت میں شامل رہتی ہے  - اور وہ اپنی فطرت سے مجبور -

بہر کیف ہم مکہ کے ہوٹل کنوز العسیل  پہنچے - مینیجر نے مجھے کمرےکی چابی دیتے ہوئےکہا کہ آپ کے دو روم میٹ کچھ ہی دیر میں تشریف لائیں گے -   

میں  اپنے کمرے میں پہنچ کر سستا رہی تھی کہ دروازہ پر کھٹکا ہوا - دروازہ کھولا  تو وہی خاتون اور ان کے شوہر اپنے سازو سامان کے ساتھ میرے سامنے موجود تھے- 

ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر چونک سے گئے -  میرے منہہ سے نکلا

"آپ۔۔۔۔آ۔۔۔ جائے" میں نے انہیں راستہ دیتے ہوئے کہا   

"اندر چل کیا سوچ ری" ؟ 

ان کے شوہر نے پیچھے سے آواز لگائی -

"وہ ۔۔۔۔۔۔۔ بس والے باجی ۔۔۔۔۔ ہے۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔!

کہتے ہوئے وہ اندر آگئیں -

ان کی زبان سے اپنے لئے 'باجی' سن کر  مجھے بڑا اچنبھا ہواکہ یہ عمر میں مجھ سے کئی گنا بڑی ہیں اور مجھے 'باجی، کہہ رہی ہیں - دوسرے دن میں نے انہیں ہر خاتون کو 'باجی' کہہ کر مخاطب کرتے سنا تو جانا کہ یہ ان کا مخصوص طرز تخاطب ہے جو وہ جوان ،بوڑھی ہر عمر کی عورت کے لئے استعمال کرتی ہیں  - اس کی سب سے بڑی خوبی  یہ ہوتی ہے کہ کسی کانام پوچھنے اور پھر اسے یاد رکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی - جس کو بھی بلانا ہو 'باجی' کہہ دیا بات ختم - 

یہ تھیں تلنگانہ کی بیٹی اور  آکولہ مہاراشٹر کی بہو  نجمہ آپا جن کو ان کے شوہر نامدار (ظہور صاحب )  پیار سے 'نجّو' کہہ کر بلاتے  تھے-  

بھولی بھالی نجو جنہوں نے صرف جماعت پنجم تک تعلیم حاصل کی تھی - اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں - ان کا بیٹا بلدیہ کا گتہ دار تھا اور اسنے ہی اپنے والدین کو حج پر روآنہ کیا تھا -   

نجمہ آپا کا چہرہ گول تھا - چہرے کی جھریاں اور پختگی  گواہی دے رہی تھی کے انہوں نے زندگی کے اس طویل سفر میں بہت کچھ جھیلا اور برداشت کیا ہے چمکدار  چھوٹی چھوٹی آنکھیں اور  بھری بھری جسامت - پتلے بالوں کی چھوٹی سی چوٹی جس کے سرے پر گلابی رنگ کی  ربن کا بڑاسا پھنّہ لٹکتا رہتا -  جسے دیکھ کر میں سوچنے لگتی کہ میں نے دسویں جماعت میں آخری مرتبہ چوٹیوں کے لئے ربن کا استعمال کیا تھا وہ بھی ٹیچر کی سزا کے خوف سے -

  لیکن نجمہ آپا کو کس کا خوف تھا جو وہ اب تک چوٹی کو ربن باندھے رکھتی ہیں ؟ 

سوچا پوچھ لوں لیکن ذاتیات میں دخل اندازی کرنا مناسب ناتھا سو خاموش رہ گئی - 

وہ اکثر گہرے رنگ جیسے سبز، گلابی، سفید اور نیلے رنگ کی ایمرائڈری والی شلوار قمیص پہناکرتیں جس کے دائیں جانب اتنا بڑا جیب لگا ہوتا کہ اس پر زنبیل کا گمان ہوتا - جس میں بہت کچھ سما سکتا تھا - اور سمایا رہتا بھی -  جیسے پانی کی بوتل، بسکٹ کا پیاکٹ، رومال، تسبیح  وغیرہ وغیرہ - 

چونکہ وہ پرس یاہینڈبیگ استعمال نہیں کرتیں تھیں تو جیب اس کی بھر پائی کر دیتا تھا- 

نجمہ آپا  کے شوہر درازقد ، سرخ وسپید رنگت اور چھریرے بدن کے مالک تھے - مزاج میں شگفتگی تھی - کہنے لگے "ہمارے خاندان کے سارے بزرگ مر کھپ گئے - بس اب ہم دونوں رہ گئے ہیں ایک دوسرے کا خون چوسنے کے لئے" -  

اسی دوران نجمہ آپا کے کسی رشتہ دار کا فون آیا- بات ختم ہوئی تو ان کے شوہر نے پوچھا کس کا فون تھا ؟ 

کہنے لگیں :

"حسین شاہ ولی کا فون تھا - اپنے بیوی بچوں کے واسطے دعا کرنے کو بول را تھا"  

" تو کیا بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ ان کے شوہر نے آنکھیں پھیلا کر ڈرانے والے انداز میں پوچھا اور ان  کے جواب دینے  سے پہلے خود ہی کہنے لگے کہ :

"ہم دنیا کی تکلیفاں اٹھا کے، لاکھوں کا روپیہ خرچ کرکے، حج کے لئے آئے- اور دوسروں  کے لئے پھوکٹ میں دعا کرنا  ؟ نئ ہوتا بول دینا تھا نا " !  

"دیکھو جی باجی ! انوں کیسا بولتے ہیں 

دعا تو کرنائچ پڑینگا نا - آج اپن  دوسروں کے واسطے کریں گے تو کل اپن کے واسطے بھی کوئی کرینگا ہے کیا نیں"؟    

وہ شوہر کی زیر لب  مسکراہٹ دیکھ نہیں پائی تھیں - 

نجمہ آپا اور ظہور صاحب کی زبان اور لہجہ پر علاقہ کا بہت گہرا اثر تھا - وہ لوگ جب بھی بات کرتے ان کے لب و لہجہ میں تلنگانہ اور مہاراشٹر کے زبان کی آمیزش ہوتی جو مجھے ہنسنے پر مجبورکرتی - نجمہ آپا  ہاں یا اچھا  کے بجائے 'آئی' کا استعمال کرتیں اور  ہر بات کے جواب میں اکثر آئی ی ی ی ۔۔۔۔۔ ی کو طول دے کر کہتی تھیں - 

ہوٹل کے جس کمرے میں ہم لوگوں کا قیام تھا - وہ اس کو 'گھر' کہتیں تھیں -   

قیام کے دوسرے ہی  دن فجر کو جاگی تو دیکھا کہ نجمہ آپا ایک پرانے کاٹن کے کپڑے سے کمرے کی جھاڑو لگا رہی ہیں - میں نے کہا

"آپا یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟  میں روم سروس والے بوائے کو بلاتی ہوں وہ صفائی کر دے گا" 

کہنے لگیں "میں جاکر آئی سب سوتے پڑے ہیں -  باسی گھر میں نماز نئ  پڑتے"- 

کمرے کی صفائی کے لئے انہیں نہ جھاڑو درکار تھی نہ ہی پوچے کا مخصوص ڈنڈا جس کے سرے پر کپڑا لگا ہوتا ہے -  موجودہ وسائل سے کس طرح کام نکالا جا سکتا ہے اس ہنر سے وہ اچھی طرح واقف تھیں -  ہوٹل کے واش روم میں نہ بالٹی تھی نا ہی مگ نجمہ آپا کو مگ کی ضرورت آن پڑی تو انہوں نے جھٹ  پانی کی ایک خالی بوتل لی اور اسے ادھا کاٹ کر مگ بنا دیا - 


ہوٹل میں لانڈری کا بھی انتظام تھا - لیکن انہوں نے اپنے کپڑے کبھی بھی لانڈری میں نہیں ڈالے - ہمیشہ خود ہی ہاتھ سے کپڑے دھوتیں اور ہوٹل کی آٹھویں منزل پر جاکر کپڑے سکھاتیں- اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو وہ اپنے ساتھ صرف تین جوڑے کپڑے لے آئی تھیں - دوسرے وہ کپڑوں کو دھوپ میں سکھانے کی قائل  تھیں - جو کہ فائدہ مند بھی ہے- لیکن دور جدید میں تو خواتین  آٹومیٹک واشنگ مشین  خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ کپڑے سکھانے کی محنت سے بھی چھٹکارہ ملے - 

جس دن ہم سب لوگ عمرہ کرکے حرم سے لوٹ آئے تھے ، اس دن میں بیٹھی تلاوت کر رہی تھی کہ ظہور صاحب باہر سے

نجو۔۔۔۔نجو۔۔۔ ! کی آواز لگاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے -  

"کیا ہوا ایسا کیکو چلاّ رے" ؟

نجمہ آپا نے اپنا سر کا پلو سیدھا کرتے ہوئے پوچھا -

" جلدی آ تیری چوٹی کاٹنا ہے" - انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود قینچی کو بتاتے  ہوئے نجمہ آپا سے کہا-  

"کیسے باتاں کرتے جی میں ایسا کیا کری  جو تم میری چوٹی کاٹتے بول ریں" ؟  

"نجو تیرے کو نئی مالوم تو کتّا بڑا کام کری سو"- 

ظہور صاحب نے انہیں جواب دیا - 

"بڑا کام کرے تو انعام دینا چوٹی کیکو کاٹتے" ؟ 

انہوں نے اپنی چوٹی کو دوپٹہ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا 

"ارے نجو تو عمرہ کری نا" ؟ 

"ہو !'تمارے ساتھ ہی تو کی میں نے" انہوں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا -  

"تو پھر 'حلق'  کرنا پڑتا- اب حلق بولے تو تیرے کو سمجتا نئی، ناہی یہ بات تیرے حلق سے نیچے اترتی اس  واسطے میں 'چوٹی کاٹنا' بولا - اب تو بی سمجھ میں آئی نا بات ؟  

ظہور صاحب نے انہیں سمجھایا تو تب انہوں نے اپنی چوٹی ان کے حوالے کی بال کاٹنے کے لئے - 

ایک دن صبح ناشتہ کے بعد نجمہ آپا کے شوہر نظر نہیں آئے تو میں نے نجمہ آپا سے پوچھا  

ظہور بھائی دکھائی نہیں دے رہے ہیں ؟ 

کہنے لگیں وہ "ریحال" لانے گئے ہیں-

"کسی نے منگوایا ہے کیا "؟ 

میں نے جاننا چاہا - 

"نئی نا - ہم جلدی میں انڈیا کے پیسے ہی لا لئے  - وہ تو یاں چلتے نئیں- یاں تو  "ریحال" ہی چلتے نا- تو ویچ  بدلی کرکے لانے گئے "  

تب میں نے جانا کہ وہ *ریال* کو *ریحال* کہہ رہی تھیں - میں بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روک پائی - 

ظہور بھائی جو گئے تو دوپہر ہوگئی واپس نہیں آئے - 

نجمہ آپا پریشان ہونے لگیں - کہنے لگیں 

"اتنی دیر ہو گئی - آدمی ابھی تک آیا نہیں - نیا ملک، نئے راستے، نئے لوگ اور زبان بھی تو نہیں آتی کیا مالوم کاں کاں بھٹک را ہونگا" - 

وہ ہاتھ ملنے لگیں اور چہرہ پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے - 

میں نے کہا "فون نمبر بتا دیں میں کال کروں گی" - کہنے لگیں 

"مجھے نئی مالوم" 

"ارے آپ کے شوہر کا رابطہ نمبر آپ کو نہیں معلوم ؟  آپ کے پاس کہیں لکھا تو ہوگا" ؟  

میں حیران تھی - 

"نئی وہ بی نئی ہے" - ان کا لہجہ  سپاٹ تھا - 

پھر میں نے ٹراویل ایجنٹ کو فون کیا تو انہوں نے ظہور صاحب کو فون لگایا تو فون کنکٹ ہی نہیں ہو رہا تھا  - شاید بیالنس ختم ہو گیا تھا یا کیا وجہ تھی پتہ نہیں -

ایجنٹ نے  نجمہ آپا کو دلاسہ دیا کہ "پریشان نہ ہوں  ان کے پاس ہوٹل کا کارڈ ہے نا - پتہ بتا کر پہنچ جائیں گے" - 

"ارے صرف ریحالاں لانے اِتّی دیر ہوتی کیا بولو باجی" ؟

"میں کیا کروں ؟ میں ان کو نئی جانے دینا تھا - اگر میں روک لیتی تو اچھا تھا " 

وہ بڑبڑانے  لگیں -

"آپ کے روکنے سے وہ رک جاتے" ؟ 

میں نےپوچھا - 

"نئی  نا" ! ادمی، عورت کی سنے تب نا - واں ہمارے گاؤں میں بھی انوں ایسئچ  کرتے باجی - ان کو فقط پھرنا ہونا ان سے ایک جگہ بیٹھا نئی جاتا " 

وہ اپنی اوڑھنی کے پلو سے آنکھ اور ناک دونوں صاف کر رہی تھیں - 

دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا - ہوٹل میں کھانے کے اوقات مختص ہوتے ہیں - اس کے بعد کسی کو کھانا نہیں ملتا - 

میں نے کہا "نجمہ آپا چلئے کھانا کھا لیتے ہیں"-

کہنے لگیں " نئی نئی ! میرے آدمی کا پتہ نئی چل را میں کھانا کھاؤں ؟ 

"جب تک میرا ادمی گھر کو واپس نئی آجاتا  میرے حلق سے نوالہ اترا تو حرام"  

وہ جھلا کر بولیں - 

"آپ چلئے تو وہاں اور لوگ بھی ہوں گے ان سے معلوم کرتے ہیں" - 

میں انہیں دلاسہ دیتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام کر ڈائننگ ہال تک لے آئی - جاتے وقت لفٹ میں سوار ہونے والے ہر شخص سے وہ اپنے شوہر کے بارے میں پوچھتی رہیں - لیکن کچھ پتہ نہ چلا -

ڈائنگ ہال میں کچھ ہی دیر میں بات پھیل گئی کہ ظہور صاحب صبح سے لا پتہ ہیں - 

چند شوخ مزاج نوجوان لڑکے بھی تھے - انہیں مذاق کا موضوع ہاتھ لگ گیا - کہنے لگے "ارے خالہ ، اِتّا کیکو پریشان ہوریں تم ؟  یاں ہماری دوسری خالہ تو نئی ہے نا' ؟ 

"دیکھو جی باجی کیسا بول ریں یہ لوگاں" ؟  وہ فورا مجھے سےشکایت کرنے لگتیں  -   

کسی نے کہا "خالو ہے بہت چالو"  انوں کب گُمنا ؟ تھوڑی دیر میں اگر انوں نئی آئے نا میرا نام بدل دینا" 

"تمارے منہہ میں گھی شکر انوں خیر خوبی سے آگئے تو میں 11 معصوم بچوں کو کھانا کھلاؤں گی" 

ایک نوجوان بولا "میں معصوم ہوں دیکھو اچھا یاد رکھ لو" 

آنسو ان کی آنکھوں سے مسلسل بہہ رہے تھے -

آخر کار وہ  ہوٹل کے باہر ہی جاکر ٹہر گئیں - ان کی بے چینی شوہر سے ان کی بے پناہ محبت کی غماز تھی - 

خدا خدا کرکے 5 بجے ان کے شوہر واپس آگئے اور بیوی سے کہنے لگے

"تو کیکو آتا پریشان ہوتی نجو؟ 

ہوٹل کا ایڈریس نئی مل  را تھا - رستہ بھٹک گیا  تھا - اس لئے دیر ہوگئی - 

ان کی واپسی پر سب نے سکون کا سانس لیا کیوں کہ شوہر کے لاپتہ ہونے سے نجمہ آپا خود تو پریشان تھیں ہی ساتھ ہی  ساتھ تمام عازمین  کو بھی ہلا کر رکھ دیا  تھا- 

حج کے بعد جب مکہ معظمہ سے مدینہ شریف جانے کا وقت آیا تو نجمہ آپا بڑی شفقت سے مجھ سے کہنے لگیں 

"باجی مدینے میں بھی اپن ساتھ رہیں گے نا"  

میں نے کہا "ان شاء اللہ" ! 

لیکن مدینہ شریف میں مجھے دوسرے روم میٹ کے ساتھ کمرہ دیا گیا - جس کا نجمہ آپا کو بہت افسوس رہا - وہ بار بار میرے کمرے میں آ جاتیں اور کہتیں 

"باجی ! تم بہت اچھے ہے- مجھے تماری عادت ہوگئی - دوسروں کے ساتھ میرا دل نئی لگ را - یہ ہوٹل والا ہمارے ساتھ ایسی دشمنی کیکو کرا ہونگا ؟ ایک گھر دیتا تو اس کا کیا جاتا تھا "؟   

میں نے کہا "نجمہ آپا اتنی محبت بھی نہ کرو آخر کو ہم سب نے ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے وطن واپس جانا ہی ہے"  

"مگر ہم تمارے کو برابر یاد رکھیں گے اور فون کرتے رہیں گے"- 

وہ بڑے وثوق سے کہتیں اور انہوں نے مجھ سے میرا رابطہ نمبر بھی لے لیا تھا -  

اور واقعی ایسا ہی ہوا - نجمہ آپا کا فون اکثر آتا ہے اور ان کی چاشنی سے لبریز باتوں سے میں خوب حظ اٹھاتی ہوں - اللہ انہیں اور ان کے شوہر کو سدا سلامت رکھے - 

آمین یا رب العالمین !

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.