Type Here to Get Search Results !

بہادر تم

از  :  نسرین حمزہ علی، بیدر کرناٹک


اس مضمون کا مقصد عورت کی زندگی پر منحصر اس کے پہلوؤں پر روشنی ڈالنا ہے ،آج تک عورت پر بہت لکھا جاچکا ہے یہ کوئی نئی ٹاپک نہیں ہے ،لیکن میری آرزو ہے کہ میرے خیالات آپ تک پہنچاؤں ۔۔۔۔میرا یہ مضمون ایک شوق فضول لگا،کیوں کہ نہ تو عالمی خواتین ڈے ہےنا مدرس ڈے ،لیکن میری خواہش جرأت رندانہ کی حد تک نہ سہی لیکن دل میں چھپی ایک ٹیس سی ہے۔۔۔۔۔

عورت بہت ہی بے آہٹ خاموشی کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے اور بے آہٹ دنیا سے رخصت ہوتی ہے ،ان تمام غفلتوں کے باوجود دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہے ،عورت زمانے قدیم کی ہو یا جدید اس کی فطرت میں رومانیت ،محبت وقربانی قدم قدم پر ساتھ چلے ہیں جس کے نتیجے میں اس کے سوتے سے مہکتی وفاؤں کے چشمے پھوٹتے ہیں جس میں رومانی لپک کاجز ضرور شامل رہتا ہے ،اس کی شخصیت ماحول سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے اس کی محبت وفائیں بہت نمایاں ہیں ،ایک سلسلہ ایک کڑی گھر کے ماحول پر مشتمل ہے جہاں وہ محبت و قربانی کی داستان کو پیش کرتی ہے ،ہر روپ میں بیٹی،بہن اور ماں۔ِ۔۔۔۔

دوسرا سلسلہ بے وفائی اور نفرت کے تلازمات سے عبارت ہے ۔۔۔‌لیکن اس کی کئ وجوہات ہیں ،اس کے پیچھے کا ردعمل اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور معاشرے کے جارحانہ رویوں کی عکاسی،ان کے علاوہ کچھ اور بھی سلسلے ہوسکتے ہیں،مگر میں یہاں اہم ترین سلسلوں کے ذکر پر اکتفاء کرتی ہوں۔۔۔۔

قدیم عورت طوفانوں کے زیر اثر آگے بڑھی تو اس کو پہلی ہی یلغار میں شکست کھانی پڑی کم زور جسم کے ساتھ ذہن کو بھی کمزور سمجھ کر اہمیت نہیں دی گئی۔۔۔لیکن وہ ہمت نہیں ہاری جس کے نتیجے میں آج وہ بھی اہل کاروں کی فہرست میں شامل ہے،وہ اپنی کمزوری سے منحرف ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود سے وابستہ تلازمات کو بڑی خوبی سے اپنی قابلیت میں برتا اور خود کو اس خول سے باہر لانے میں کامیابی حاصل کی۔۔۔

ہرچند کام مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں،اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عورت کو عزت ومحبت ملنے میں کامیابی حاصل ہوئی جہاں کہیں اس سے غزض رہی اس کو مدنظر رکھا اور جہاں ضرورت محسوس نہیں ہوئی نظر انداز کیا گیا۔۔۔۔۔

باپ دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دیکھتے ہیں آج بھی آدمیوں کے مزاج میں برتری کے رنگ کی جھلکیاں نمایاں نظر آتی ہیں،ان سب میں اگر محسوس کیا جاۓ تو چاہے قدیم ہو یا جدید عورت کے درد مشترک ہیں،ان کے ساتھ مشورے کرنے میں کئ قسم کی آلودگی پائی جاتی ہے۔۔۔۔

عورت کو اگر صحیح رتبہ دیا جائے تو اس کے دل و دماغ پر خوش گوار اثرات مرتب ہونگے اس طرح وہ حوصلوں اور ہمتوں کی آئینہ دار ہوگی،عورت کی گود میں بہترین ادبی اور تہذیبی اثاثہ محفوظ ہے نہ صرف اپنا بلکہ خاندان،قوم اور ملک کے بدلتے ہوئے جدید تصورات سے ہم کنار ہو کر اس میں خوب صورت نۓ رنگ بھرنے کی صلاحیت،اگر وہ زندگی اور عشق کے رشتے پر گہری نظر رکھتی ہے تو اسے جنون ووحشت کا بھی گہرا احساس ہے،اس کو بخشی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جائے،اس سے عزت کا رشتہ استوار کیا جائے۔۔۔۔ماں باپ کے لئے دل کو چھوتی گڑیا،شوہر کے لئے عشق ورو مانیت کے کردار میں بسی اہم شکل اور بچوں کے لئے لاڈ و پیار کی خمیر سے گوندھا گیا آٹا،ان تمام خوبیوں کے باوجود عورت صرف ایک حصہ بن کر رہ گئی ہے

Women's   day   and   Mother's   day

کے لئے ایک تکرار اور تھوڑا سا خوش فہمی میں اضافیت

اپنے ہی گھر میں اپنے حق کے لئے اکیلی لڑتے رہنا پڑتا ہے،شادی کی وداعی سے پہلے یہی جملے اس کی سماعت سے ٹکراتے رہتے ہیں،عورت ہے اپنے گھر کے لئے سب کچھ کرنا پڑتا، بیوی وبہو کے کردار کو نہایت محبت واحترام کے ساتھ نبھاتے ہوئے ایک اور خوبصورت ذمہ داری لیکن وہ ماں بن کر اس ذمہ داری کو بڑی شان سے قبول کرتی ہے،اس کی کمر کبھی نہیں جھکتی بڑی شان سے کھڑی رہتی ہے۔۔۔۔۔

آج بھی عورت کو صنف نازک سمجھ کر ایک جھوٹے قلعے میں بند کردیا گیا ہے جس کی دیواریں صرف یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ صرف لفظ میں زندہ ہے،اس کی جدو جہد سے واقف بھی ہیں لیکن اس کی متاع گراں خدمات ومحبت کا صلہ کم ہی ملتا ہے اس کو اپنی محبت کے محنتانہ کے بدلے میں ایک بھکاری کی طرح مانگنا پڑتا ہے،بے چاری کی زندگی ایک گداگر کی طرح ہے، 

ان تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کے باوجود اپنے گھر کو جوڑنے میں سب کچھ داؤ پر لگا کر جیتی ہے،ہاۓ ظالم  دنیا تو نے تو اندر کی عورت کو ہی توڑ دیا،وہ صرف رشتوں کی سطح کو بلند رکھنے کی کوشش میں ایک جزو بن کر رہ گئی۔۔۔۔


**************

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.