از قلم :__طوبیٰ نعیم
میرے ہاتھ پیلے کر دیے گیے تھے. مہندی کی شب طرح طرح کی باتیں مجھے سمجھائی جا رہی تھیں .شادی شدہ سہیلیاں عجب اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں .میں حیا کا گھونگٹ اوڑھے ان کی باتوں پہ بس مسکرانے کا کام کر رہی تھی..
میرے والد کے چہرے پر پریشانی کے ساتھ ساتھ اک سکون بھی نمایاں تھا ..میری والدہ کا انتقال میری پیدائش کے 1 سال بعد ہی ہو گیا تھا مجھے میرے ابا نے بڑے لاڈ سے پالا تھا ..مہندی کی تقریب سے فارغ ہو کر میں اس کمرے میں گئی جہاں میری طلاق شدہ کزن موجود تھی میں نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا اور کہا۔۔ رسم نہیں کرو گی ..؟
ابھی اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑی ہی تھی کہ
ارے چھوٹی کیا کرتی ہو ....
پاگل ہو ؟؟؟
کیا کرنے لگی تھی
وہ طلاق لے کے بیٹھی ہے نہ جانے اماں بی اسے کیوں ساتھ لے آئیں اور نہ جانے کتنے سوالوں نے مجھے گھیر لیا....
میں جو بولنے سے قاصر تھی اس وقت اپنے کمرے کی جانب چل دی ....
میں نے چند تصاویر اپنے موبائل میں اتاریں اور ہاتھ میں بندھا گانا دیکھنے لگی ..(جو شگن کے طور پر لڑکی کا بھائی باندھتا ہے اور اس کے بدلے بہن سے اچھی خاصی رقم بٹورتا ہے ).اور سوچنے لگی کہ آخر کیا ہے اس میں بس چمکیلے سے دھاگوں کا اک پھول ..؟..جو پہننے پر مجھے زخم دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہا ...میں اسے اتارنے والی تھی کے اماں بی کی آواز کانوں میں پڑی
ارے بیٹی یہ 'گانا' تمہارا سہاگ اتارے گا ...ان سے میرا لگاؤ بچپن سے بہت تھا میں ان کی آغوش میں لیٹ گئ.
اتنے میں ان کی بیٹی میرے کمرے میں اماں کو پکارتی چلی آئی ...
"اری تہار کا کے کام اس کمرے سو تہار کو ہم کہہ کر نہ آوے ادھر سے جاوت نہ ہی ....تہار کا سایہ بھی اس پے نہ ہی پڑن دیویں ہم.
کلموہی ..نکل .....
بجو کو نکال کر اماں بی نہ جانے اک سانس میں کیا کیا بول گئیں..."
بجو کو شادی کی رات ہی بد کردار کہہ کر گھر سے نکال دیا گیا تھا ....یہ بد کردار کیوں تھیں کیسے تھیں کچھ معلوم نہ تھا .
اماں بی!!!!
"بجو ....ارے اس کا نام نہ لو ...
تم میرے پاس بیٹھو ...اماں بی کا مجھ سے بات کرتے ہوئے لہجہ نرم اور زبان اردو ہو جایا کرتی تھی ...
میری پیاری.....
تم اس سی نہیں ہو ...
تم تو حور ہو...
کردار کی پاک عظیم لڑکی ....
سو جاؤ کل بیاہ کا دن اور رات دونوں بہت حسین ہیں اور اک امتحان سے بھی گزرنا ہے پھر تم کو ....
امتحان؟
میں سوچ میں گم ہو گئی اور مجھے یاد آنے لگا بجو کی شادی کے وقت یہ بات بجو کو بھی کہی گئی تھی ...
اور بعداز طلاق ان کو کوسا گیا کہ تو اسکول کے امتحان میں بھی فیل ہوتی تھی اس میں بھی ہو گئ...اب میرا تجسس اور بڑھنے لگا ....
کیا شادی اک امتحان ہے ؟
کیا میں اس کے لیے تیار ہوں ؟
کیا میں آزمائش میں پاس ہو پاؤں گی؟
کیا اور کیوں کی سوالوں سے بھرا پرچہ میرے ذہن میں گھومنے لگا.....
بجو کی طلاق کی وجہ یہ امتحان تھا ....
مجھے اپنی شادی کم اور اک محاذ زیادہ لگنے لگا ....
تمام سوالوں کے جوابات کو تلاش کرنے کے لیے مجھے بھی اسی امتحان سے گزرنا تھا....
صبح ہوتے ہی مجھے ن نہ جانے کتنے ہی پھولوں سے بھرےپانی سے نہلایا گیا میرے جسم کے ہر حصے سے خوشبو آنے لگی ...لال جوڑے میں اک دلہن کو سجایا گیا اور بڑے پیار سے رخصت کیا گیا ...دعا دی گئی کہ بستی رہو....
میں کچھ وقت کے لیے تمام سوالات بھول چکی تھی....
میرا سسرال میں نہایت خوبصورت انداز میں استقبال کیا گیا....آخر مجھے میرے کمرے میں بٹھایا گیا جہاں میرا پورا کمرہ موم بتیوں سے روشن تھا سنگھار میز پھولوں سے ڈھکا تھا فرش پر کوئی جگہ پتیوں سے خالی نہ تھی...مگر میرا بستر سفید تھا۔ اس پر پھول تو کیا اک پتی بھی موجود نہ تھی۔ پھولوں سے بھرے کمرے میں سفید بستر میت کی طرح لگ رہا تھا.....
"بہو"
"بہو ....."میری ساس کمرے میں آئیں اور مجھے کہنے لگیں
"امتحان کے لیے تیار ہو ....."
میرے ذہن میں پھر سے سوالات ابھرنے لگے....
امتحان؟
تمام عورتیں قہقہ لگاتے ہوے باہر نکلنے لگی...
باؤ جی آنے والے ہیں
میرے شوہر کو حویلی کی سبھی عورتیں باؤ جی بلاتیں تھیں ....مجھے تنہا چھوڑ کر کمرے کا دروازہ بند کر دیا گیا....موم بتیوں کے باعث کمرے میں گھٹن کا ماحول تھا ....
میں نے میز پر پڑے جگ کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کے دروازے پر دستک ہوئی...
میں نے خود کو سمیٹا اور گھونگھٹ میں بیٹھ گئی....سانسوں کی روانی بڑھنے لگی
"محترمہ !"
"زوئی! "
"میں اندر آ سکتا ہوں
اسے میرا نام بھی معلوم ہے ؟؟؟
یہ نام تو یونیورسیٹی کی دوستوں میں مشہور تھا بس ....
میں نے اپنے خاوند کو اب ہی ٹھیک سے دیکھنا تھا ....
ہم گاؤں والے بیاہ سے پہلے لڑکے لڑکی کا ملنا غلط سمجھتے تھے ....اور رشتہ کا فیصلہ بالکل والد صاحب کا تھا.....
"زوئی!"
اس نے میرے لہنگے کو پرے ہٹاٹے مجھے پھر سے پکارا....
اور سلام عرض کرتے ہوے میرے گھونگٹ کو ہٹایا
میں جو دونوں ہاتھ ڈربسے بستر میں گاڑھے ہوے تھی اور آنکھوں کو ایسے بند کیے ہوئی تھی جیسے کبھی کھولنی نہ ہوں ....
"زوئی میری طرف دیکھو
تم ......
تم بلا کی حسین ہو ....
میرے خوابوں کی خوبصورت تعبیر ....
آنکھیں کھولو"
میں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور پھر جھکا لیں .....
وہ مسکرایا
"ارے تم ۔۔۔
میں شوہر ہوں تمہارا ڈرو مت ...."
"یہ دیکھو تو کیا ہے ...
ویسے تمہارے حسین سے چہرے کی منہ دکھائی کے لیے یہ کوئی خاصی اہمیت نہیں رکھتے مگر خاندان کی ریت رواج میں خاصی اہمیت کے حامل ہیں"
میں نے اس کے ہاتھ میں لکڑی کے ڈبے کو دیکھا جس میں خاندانی کنگن موجود تھے ....
"اجازت دیجیے اس نا چیز کو آپ کو کنگن پہنانے کی ...."
میں نے گانا بندھی کلائی اس کے سامنے کر دی .....
"لیجیے باؤ جی ..."
وہ مسکرایا
"باؤ جی ؟؟؟؟"
"ارے تم میرا نام لو
سکندر ہوں میں
ضوفشاں !"
"س س سکندر !!!میں نے کانپتی آواز کے ساتھ اسے پکارا..."
اس نے میرے گانے کو اتارا اور میری جانب کلائی بڑھائی ...
جس میں بالکل میرے جیسا چمکیلے دھاگوں کا پھول تھا ۔
"اتارو اسے ....
اور so called سی رسم کو پورا کرو..."
شاید میری طرح اسے بھی اس کی چبھن irritate کر رہی تھی
"ارے ....
زوئی
تمہاری کلائی اتنی نازک ....
یہ خاندانی کنگن کا بار کیسے اٹھا پاؤ گی....؟؟؟"
"فی الحال تو مجھے یہ جوڑے اور یہ جیولری کا بھار خود سے جدا کرنا ہے ....'
"اففففف!!!!
میں نے بلا دھڑک یہ بات کہہ دی ...
ارے ہاں اٹھیں آپ لباس تبدیل کر لیں ....."
لباس تبدیل کرنے کے لیے میں نے کمرے کی دہلیز پر قدم رکھا تو مجھے عجب نظارہ دیکھنے کو ملا...
اک سفید لباس میں ملبوس شخص آنکھوں میں وحشت لیے صوفہ پر بیٹھا تھا....
میز پر پڑا شراب سے بھرا گلاس دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں نکل گئی ....
*امتحان*
شاید یہ امتحان تھا
مگر نہیں ابھی تو امتحان کا پہلا حصہ تھا ....
میں ڈرتے ڈرتے پلنگ کی جانب گئی
جہاں امتحان کا دوسرا حصہ میرا انتظار کر رہا تھا ....
"زوئی!"
اس بار یہ آواز وحشت بھری تھی
اس کے میٹھے لہجے میں سے شراب کی بو آنے لگی ...
اس نے بڑی بے دردی سے مجھے اپنی جانب دھکیلا
میری کلائی پر انگلیوں کے نشان چھپ گئے
نشے میں دھت
سکندر مجھے وحشی لگنے لگا
اس کا کچھ دیر پہلے کا لمس مختلف تھا
لمس کی خوبصورتی کم ہونے لگی
شراب کا زہر بڑھنے لگا...
اور پہلو شکستہ سی آواز نے سے پگھلنے لگا
رات ڈھلتی رہی
میری چاہت, رضا ,باہمی کچھ نہ تھی
کوئی مجھ پر مسلط ہوا اؤندھا پڑا تھا
مرے بس میں کچھ نہ تھا
حسین رات !
رات ڈستی رہی
مجھے...
ہاتھ ملنا تھا بس
سو میں ہاتھ ملتی رہی !
غلاظت سے لڑتے ہوئے
بستر سے اٹھی
جہاں خون ہی خون تھا
سفید چادر پر داغ تھا
جہاں محبت کے جذبوں کا بڑی بے دردی سے قتل ہوا تھا
یہاں خدا کو پکارنا بیوقوفی کی علامت تھی ...
سب حق کے بول بول کر کیا گیا تھا
امتحان کا نتیجہ تو صبح جہاں بیگم کو دینا تھا ....
اس بار چادر کے داغ کو میرے کردار کی گواہی دینی تھی
صبح کا پہر تھا ...
نتیجہ آنے کو تھا ...
سکندر بستر سے اٹھ کر سیدھا جہاں بیگم کے کمرے میں گیا۔
جہاں میرے کردار کا فیصلہ ہونا تھا
سب ٹھیک ہے ماں جی
یہ کہنا تھا حویلی میں ہر طرف شور مچنے لگا نتیجہ درست آیا ہے
نتیجہ درست آیا ہے
مٹھائیاں بٹنے لگیں
میں جو اک چھینٹا بھی کپڑے پر برداشت نہ کرنے کی عادی تھی
اتنے بڑے دھبے کو دیکھ کر بھی خاموش رہی ...
اب میرے پلنگ پر لال چادر ڈالی گئی جس سے تمام مہمانوں کے آ گےثابت ہونا تھا کہ دلہن با کردار ہے ...
بجو بد کردار کیوں تھی معلوم ہونے لگا
ان کی سفید چادر صبح کو بھی سفید ہی تھی
وہ چلاتی رہیں کہ میرا مرد نشے میں دھت کمرے میں آ کر سو گیا تھا .....مگر حویلی کے مردوں کو کہاں کوئی برا کہہ سکتا تھا ...
صد شکر میرے مرد کو پینے کی عادت تھی نشہ اس پہ خاصہ اثر نہیں کرتا تھا
سفید چادر کا داغ .....یعنی اب کی بار داغدار چادر کردار کی صفائی دے رہی تھی ....
مجھے امتحان پاس کر کے بھی خوشی نہ تھی
میں مر رہی تھی
اور اب حویلی میں ہر روز مرنا تھا
سکندر خان کی بیوی کو آخر خانی کا رتبہ ملنا تھا ....
وہ زوئی جو عورتوں کے حقوق پر لڑتی تھی مر چکی تھی..
کیونکہ ہمیں بس چادروں کی لاج رکھنی تھی ...
بیاہ سے پہلے بھی اور بیاہ کے بعد بھی