از : مسرورتمنا
" بیلا اری او بیلا۔۔۔۔۔کہاں ہے تو "
" سوہنا کنول آیا
میٹھی بیریاں لایا "
بیلا گیت گاتی ہوئی اماں کی پکار پر لپکی۔
" لے گرم بھٹے ، ایک تو لے ایک نگوڑی ماری نرگس کو دے دے
اور کہاں مری کھپی رہتی ہے تو۔ ایک پکار پر آیا کر۔ سسرال میں یہ لچھن رہے تو جوتے پڑیں گے ۔"
" اماں! یہ لو تمھارے بھٹے۔ اتنے طعنے مار کے تو کوئی نہیں کھلاتا اور تو ہمیشہ نرگس کو نگوڑی ماری کہتی ہے ، مجھے سسرال کا طعنہ دیتی ہے ، اس سے تو اچھا ہے کہ تو ہمیں زہر کھلا کر مار ڈال"
اماں نے اسکی طرف دیکھا " مجھے کوی شوق نہیں طعنہ شانہ دینے کا۔ وہ تو تجھے عادت ڈال ری ہوں کہ سسرال میں سہنے کی طاقت ہو جاوے "
" او اماں تم ابا کا بدلہ لیتی ہو نا ہم دونوں سے۔ تجھے راج کمار سا بیٹا جو نہیں ملا۔ ابا کہ رہے تھے دوسری شادی واسطے شرم نہیں آتی ابا کو۔ گھر میں لڑکیاں جوان اور وہ خود "
چپ کر اماں نے ادھر ادھر دیکھا.
" اے ہے بہو مجھے دیکھ کر لڑکی کو چپ کراتی ہے چھوڑ جانے دے ابھی میرا جھگڑا واسطے موڈ نا ہے۔"
" سن کل نرگس کو نہلا دھلا کر
تیار رکھنا۔ بڑا اچھا رشتہ ہاتھ لگا ہے فری کا۔ کچھ نہیں دینا بلکل بھی نہیں ۔جا بیلا نرگس کے کپڑے دیکھ لے جو اس پر کھلتے ہو وہی پہنا دینا۔"
بیلا نرگس کے پاس آئی تو وہ اداس تھی۔ سانولا رنگ کھڑے نقوش والی نرگس۔۔۔ بے پناہ کشش تھی اس میں مگر گھر والے کہتے رنگ گورا ہونا تھا جو کے بیلا تھی گوری چٹی خوبصورت پٹر پٹر بولنے والی۔
دوسرے دن لڑکے والے آئے تو بیلا چونک پڑی۔لڑکا کیا تھا آدھی عمر کا آدمی تھا۔شکل بھی واجبی تھی۔ اپنا مکان تھا، کماتا کھاتا تھا اور پرکھوں کی زمین کے علاوہ کھیت بھی تھے جو لہلہاتے رہتے تھے۔
انہوں نے نرگس کو پسند کرلیا
اس کی بیٹی بیلا کے عمر کی تھی۔بیلا نےگھر میں ادھم مچا دیا کہ یہ شادی نہیں ہوسکتی ۔
دادی نے کہا" چپ کر تیرے باپ کے پاس دینے کو نا ہے"
" اے دادی تو چپ کر میرے باپ کے پاس دینے کو نا ہے تو تیری بیٹیاں کیوں دوڑی چلی آتیں ہیں لوٹنے واسطے "
دادی نے گھور کر دیکھا.
" ابا آپ منع کر دو اس رشتہ سے۔
اس عمر میں وہ شادی کر رہا ہے۔
پتہ ہے اس کی لڑکی ہے۔ لڑکے واسطے دوجی شادی کر رہا ہے۔
ابا اگر نرگس کو بیٹا نا ہوا تو تو وہ تیسری کر لےگا۔تیری بیٹی کے ماتھے داغ لگ جائے گا۔"
اچانک وہ آگے بڑھا اور بیلا کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔