از : ایمن فردوس
آنکھیں۔۔۔
آنکھوں کو آنکھ یا چشم کے علاؤہ دوسرے لفاظ سے بھی عرفان کیا جاتا ہے ،
جیسے ، نگاہ ، بینائی ، بصارت ، نظر ،دید، وغیرہ ۔۔۔
آنکھیں دنیا کے تقریباً تمام اشرف المخلوقات کو ہوتی ہیں ،لیکن کیچوے بیچارے بصارت سے محروم ہیں ۔۔ آنکھیں انسان کے ناک کے دونوں دائیں اور بائیں جانب بالکل اوپری حصے پر ہوتی ہیں ، تمام جانداروں کی آنکھیں دو ہوتی ہیں۔۔۔ آنکھوں کے ذریعے ہم ہر چیز وں کو دیکھ پاتے ہیں ،یہ ہمیں بصارت فراہم کرتی ہیں ، سائنسی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو
جب روشنی ریٹنا سے ٹکراتی ہے (آنکھ کے پچھلے حصے میں ٹشو کی ایک ہلکی حساس تہہ)، خصوصی خلیے جنہیں فوٹو ریسیپٹرز کہتے ہیں روشنی کو برقی سگنلز میں بدل دیتے ہیں۔ یہ برقی سگنل ریٹینا سے آپٹک اعصاب کے ذریعے دماغ تک سفر کرتے ہیں۔ پھر دماغ سگنلز کو ان تصاویر میں بدل دیتا ہے جو آپ دیکھتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں
آنکھوں کا حلیہ بیان کیا جاۓ تو ، آنکھیں ایک معصوم شخصیت ہوتی ہیں ، آنکھوں پر پلکیں ہوتی ہیں، پلکوں سے مراد آنکھوں کے اوپر اور نیچے دونوں جانب چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں اوپری حصے پر بھویں ہوتی ہیں جو بھی بالوں کی ہلکی سی لکیر کی مانند ہوتی ہیں ۔۔۔
آنکھیں بہت سی قسم کی ہوتی ہیں ، جیسے چھوٹی آنکھیں ، بڑی آنکھیں ، ان میں بھوری آنکھیں اور گھارولی، لمبی اور موٹی آنکھیں وغیرہ ۔۔
اسی کے ساتھ ساتھ ،غزال آنکھیں ، معصوم آنکھیں ، طوفان آنکھیں ،انجان آنکھیں ، بیتاب آنکھیں،۔ مظلوم آنکھیں ، سیاہ آنکھیں ،روشن آنکھیں ، خاموش آنکھیں،بھیگی آنکھیں ، رسوا آنکھیں ،تلوار آنکھیں وغیرہ ۔۔
آنکھیں بہت سی قسم کی ہوتی ہیں ، جیسے چھوٹی آنکھیں ، بڑی آنکھیں ، ان میں بھوری آنکھیں اور گھارولی، لمبی اور موٹی آنکھیں وغیرہ ۔۔
اسی کے ساتھ ساتھ ،غزال آنکھیں ، معصوم آنکھیں ، طوفان آنکھیں ،انجان آنکھیں ، بیتاب آنکھیں،۔ مظلوم آنکھیں ، سیاہ آنکھیں ،روشن آنکھیں ، خاموش آنکھیں،بھیگی آنکھیں ، رسوا آنکھیں ،تلوار آنکھیں وغیرہ ۔۔
کمال آنکھیں ،جلال آنکھیں ، مثال آنکھیں ، جواب، خواب آنکھیں ، سوال آنکھیں ،تلاش آنکھیں ، اس کے علاؤہ آنکھ قاتل ،آنکھ دشمن ،آنکھ نم ،آنکھ اور نظر ،آنکھ اور بصرہ ،انکھ نظر ،انکھ کی فکر ،آنکھ کی جھلک، آنکھ کی ہوس،آنکھ کی حیا ،آنکھ کی وفا ،آنکھ کی سزا ،آنکھ کی ندا ،آنکھ کی قفس، آنکھ کی بینائی ،انکھ کی نمی ، آنکھ کی ٹھنڈک ،انکھ کی مستی ،آنکھ کی پتلی،، آنکھ کی عینک ،آنکھ کی کمی ،آنکھ کے اندھیرے ،انکھ کے عاشق ،آنکھ کے آنسو ،آنکھ کے موتی ،آنکھ کے عشک ،آنکھ کے موتی ،آنکھ کے میک اپ ،انکھ کے پردے ، آنکھ کے تارے ، آنکھ کے پیارے ،
آنکھ کا نور ،آنکھ کا ادب ،آنکھ کا خواب ،آنکھ کا خیال ،آنکھ کا جلال،انکھ کا کمال،آنکھ کا احتساب ،آنکھ کا نور ، آنکھ کا چین ، آنکھ کا قمر ، آنکھ کا چاند ،
نظر بھی آنکھ کا متبادل ہوتا ہے ، جیسے ،شکستہ نظر ، معصوم نظر ،نیچی نظر ،کمزور نظر ، کنواری نظر،شکستہ نظر ، بری نظر ، قریب نظر ،بعید نظر، نظر سے وارانہ ، نظر سے کاٹنا ، نظر سے نظر ملانا ، نظر لگنا ، نظر کی کمی ،نظر کی آگ وغیرہ
آنکھیں صرف دیکھتی نہیں بلکہ ، بولتی ہیں ، کبھی اشارتاً ، کبھی غصیلے لہجے میں ،کبھی محبت سے ،کبھی ہوس ، کبھی ان آنکھوں کی نمی سے دکھ درد اور غم بولتے ہیں تو کبھی یہی آنکھوں سے خواب اور امید کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں ،کبھی آنکھوں میں کامیابی کی چمک ہوتی ہے تو کبھی یہ شکستہ حال نظر آتی ہیں ،کبھی غصہ کی چادر اوڑھ کر محبت اور پیار کا اظہار کرتی ہیں تو کبھی ان ہی آنسوؤں کے بہتے موتیوں کو سمیٹنا مشکل ہوتا ہے ۔یہ درد کا احساس دلاتی ہیں ، یہ خواب دکھاتی ہیں ،یہ عقاب سے ملاتی ہیں۔۔۔
آنکھوں کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے بہت سے محاورے کہے گئے ،جیسے
آنکھ بچانا
آنکھ چرانا
آنکھ پھڑکنا
آنکھ بدلنا،
آنکھ سے گرنا ،
آنکھیں مٹکانا ،
آنکھوں کا تارا ہونا وغیرہ
یہی آنکھیں ہیں تو خواب ہیں ،انکھیں ہیں تو بینائی ہے ۔، آنکھوں سے مشاہدہ،انکھوں سے بصیرت ہے آنکھوں سے توجہ ہےاور آنکھوں کا اپنا ہی لہجہ ہے
یہی آنکھیں ہیں جو نابینا کا درد سمجھ سکتی ہیں، آنکھوں سے ادب کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کسی استاد ، والدین، مولانا ،اور بزرگ کہ مخاطب نے نگاہ نیچی رکھی تھی یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے ادبی کی مثال قائم کی گئی تھی
آنکھیں بہت حسین احساس ہوتی ہیں ، ان میں کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں حسین احساس کی بجائے خوف و دہشت کا خطرہ ہوتا ہے جنھیں جنات ، ،شیاطین کو دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔
آنکھوں کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے شعراء حضرات نے بھی اپنے قلم کو روک نہیں پائے ، اور وہی عاشق ،عشق اور محبت کے فلسفے کو اشعار کے ذریعے بیان کیا ،
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں
جگر مراد آبادی
کبھی کبھی تو چھلک پڑتی ہیں یوں ہی آنکھیں
اداس ہونے کا کوئی سبب نہیں ہوتا
بشیر بدر
دیکھی ہیں بڑے غور سے میں نے وہ نگاہیں
آنکھوں میں مروت کا کہیں نام نہیں ہے
آنکھ قاتل لب قاتل ترا تک تک قاتل
ایک میری جان کے لیے سینکڑوں قاتل قاتل
آئینہ ہے کہ آئینے کے مقابل قاتل
مجھ کو ڈر ہے کہیں لڑ جائیں نہ قاتل قاتل
اسی کے ساتھ ساتھ آنکھ سے متعلق انقلابی اشعار بھی کہے گئے ۔
آنکھیں طلب گار اور امید بھری بھی ہوتی ہیں ، تمام مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی گنہہ گار آنکھوں کو گنبدِ خضرا اور کعبہ شریف کا دیدار مقدر ہو ،آمین ۔لعلامہ اقبال کہتے ہیں کہ
رونقیں زندگی کی بہت دیکھ لیں، اب میں آنکھوں کو اپنی کروں گا بھی کیا
اب نہ کچھ دیدنی ہے، نہ کچھ گفتنی، مجھ کو آقا کی بس اک نظر چاہیے
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
یہ آنکھیں کم نظری کا شکار ہوجاءیں تو آنکھوں پر قریب نظری اور بعید نظری کی عینک لگ جاتی ہے ، اور یہی عینک ان آنکھوں کا سہارا ہوتی ہیں ۔
یہ آنکھیں بھی بے وفا بھی ہوتی ہیں ، بے حیا بھی ہوتی ہیں ، بے مروت اور بے کار بھی ہوتی ہیں ۔ آنکھیں ہمیشہ سچ نہیں دیکھ پاتیں ۔
آنکھیں مجرم ہوتی ہیں ،اور پھر رب العالمین سے جرم کا اور گناہوں کا اقرار کرنے کے بعد ، یہی آنکھیں شرمندہ بھی ہوتی ہیں ۔
آنکھیں بند کریں تو اندھیرے چھا جاتے ہیں ، لیکن وہیں خیال اور خواب ہمیں رنگین گلستان میں پہنچا دیتے ہیں۔
اور یہی آنکھیں مکمل نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہیں جاۓ تو موت کہلاتی ہیں ۔
یہی آنکھیں آج آشوبِ چشم میں مبتلا ہوگئی ہیں ،اور تکلیف کا باعث بنی ہوئی ہیں ،
اور یہی معتبر آنکھیں جن کے ذریعے آپ نے میرے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو پڑھ کر عزت بخشی ، ناچیز ایمن فردوس کی نرگسی آنکھیں آپ کی مشکور ہیں !!!