از : نصرت شمسی
ابا کو گزرے ابھی ایک ہی دن ہوا تھا۔گھر رشتے داروں سے بھرا ہوا تھا۔لیکن پھر ابا کی کمی ایسی تھی کہ سب کو کھل رہی تھی۔مجھے بھی ابا کی کمی اتنی شدت سے محسوس ہو رہی تھی کہ اتنی شاید زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اب یہ احساس تھا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آنے والے تھے۔
میں بستر پر لیٹے لیٹے ابا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ سوچتے سوچتے میں کروٹ لی تو نظر ابا کی چھڑی پر پڑی اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔
’’ابا کی چھڑی“ کتنے عرصے بعد یوں خاموش ساکت ایک کونے میں پڑی تھی۔یہ وہی چھڑی تھی جو مجھے سب سے زیادہ بری لگا کرتی تھی اور جتنی مجھے بری لگتی تھی ابا کو اتنی ہی عزیز تھی۔ہمیشہ اسے ابا کے ساتھ متحرک دیکھا۔اس چھری سے سب سے زیادہ پیچھا چھڑانا بھی میں ہی چاہتا تھالیکن کبھی چاہنے کے باوجود خود کو اس سے دور نہ کر سکااور آج اسی چھڑی پر ترس آرہا تھا کہ کیسی تنہا ہو گئی۔
جب سے ہوش سنبھالااسے ابا کے ساتھ دیکھا۔بہت عرصہ پہلے ابا کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جس کے بعد ابا ایک طویل عرصے تک بستر پر رہے پھر اللہ کا کرم ہوا اور بستر سے اٹھے تو یہ چھڑی ان کا سہارا بن کر ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔بس وہ دن تھا اور ان کی زندگی کا آخری دن……پھر دونون ایک دوسرے سے جدا نہ ہوئے۔
میں اٹھ کر چھڑی کے پاس آیا۔ اسے اٹھا کر اپنے بستر پر آگیا۔نہ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھاکہ میرے پاس چھڑی نہ تھی بلکہ ابا کا لمس تھا اور پھر میں اس چھڑی کے ساتھ سفر کرنے لگا۔
مدرسے سے جب جب شکایت آتی ابا اس چھڑی کو گھماکر اس طرح میری کمر پر رسید کرتے کہ میں بلبلاکر رہ جاتااور اگر کبھی بھاگنے کی کوشش کرتا تو یہی چھڑی اپنے منھ سے میری گردن پکڑ کر مجھے ابا کے قریب کردیتی۔پھر ابا اپنے ہاتھوں کو گھماتے اور اس کا نچلا حصہ میری تانگوں پر مار کر کہتے،
”بول اب بھاگے گا باپ سے……“
”نہیں نہیں ابا اللہ توبہ،معاف کردیں۔“
” چل بھاگ۔“
یہ وہ الفاظ ہواکرتے تھے جو اس وقت میرے لئے بیش قیمتی ہوا کرتے تھے۔دنیا کی ہر شئے اس کے آگے بیکار تھی۔
ابا کی چھڑی ابا کے جوتے پلنگ کے نیچے سے نکالنے میں ان کے لیے جن کے ہاتھ کا کام کرتی۔دھوپ میں بیٹھتے تو سورج کے سامنے چادر کے حجاب کو ادھر ادھر کرنے میں معاون ثابت ہوتی۔دن بھر تار پر پڑی چادر کو سورج کی چال کے ساتھ یہی چھڑی چلاتی رہتی۔اونچائی سے کوئی چیز اتارنا ہو تو پھر ابا کی چھڑی جن کا ہاتھ بن جاتی۔گھر سے بازار‘بازار سے گھر آتے جاتے چھڑکی کی ٹھک ٹھک کی آواز ہم لوگوں کے ذہنوں ایسی بیٹھ گئی تھی کہ ابا کی آمد پر اب ہمیں اطلاعی گھنٹی کی ضرورت نہ تھی۔ چھڑی گویا گھر کا ایک فرد بن گئی تھی جو مسلسل اپنی موجودگی کا احساس کراتی رہتی۔امی جمعہ کے جمعہ اسے نہلاتیں سوکھ جانے پر ہلکا سا تیل لگاتیں اور ذرا دیر دھوپ میں رکھ دیتیں۔سب سے زیادہ تو اس نے میرے بدن کی خدمت کی ہے۔کبھی کمر لال تو کبھی ٹانگ نیلی۔جو کبھی اس پر ہاتھ پڑ جاتا یا ابا کہتے ذرا چھڑی لانا تو،توبدن میں ایک خوف کی لہر دوڑ جاتی اور میں سہم کر دور کھڑا ہو جاتااکثر تو سہمنے کے بعد احساس ہوتا کہ اس وقت ابا کا مارنے کا ارادہ تھا ہی نہیں۔انھوں نے عادتاً اسے اٹھوایا تھا۔اس وقت میں اپنے خشک ہوتے خون کو پھر سے تر کرنے کے لیے اندر اندر خوش ہوجاتا اور شکرانے ادا کرتا۔ابا کا رومال ہمیشہ چھڑی کے اوپر پڑ کر سوکھا۔ایک آدھ بار تو ابا نے جوتے میں نکل آنے والی کیل کا سر بھی اسی سے کچلا اور پھر پہن کر چل دیتے۔کلف دار کپڑے گھنی داڑھی مونچھیں،اونچا قد،گلے میں رومال اور ہاتھ میں چھڑی،ان کی شخصیت کو با رعب بناتی۔لوگ دور سے دیکھ کر ہی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے اور ”سلام علیکم“ کی صدائیں آنے لگتیں۔
ابا کی اس چھڑی نے جہاں ساری عمر مجھے خوف کے سائے میں رکھاوہیں اکثر امان کا احساس بھی کرایا۔رات کو جب ابا گھر آتے تو چھڑی کی”ٹھک ٹھک“دور سے ہی ہوشیار خبردار کر دیتی اور میں اپنی شرارتوں کو سمیٹ کر بستر میں دپک جاتا۔اس وقت یہ چھڑی بلی کے گلے کی گھنٹی کا کام کرتی۔
بچپن سے جوانی تک آگیا لیکن اس چھڑی کا خوف کم نہ ہوااور آج جب ابا چلے گئے اور چھڑی بے جان سی ہو گئی تو پھر دل نے خواہش ظاہر کی کہ کاش ابا کے ہاتھ ہوں،چھڑی ہو اور میں ہوں۔