از : سلمی صنم، بنگلور
وہ نرم جھونکے کی طرح گھر میں داخل ہوئی ۔
وہی صبح تھی، وہی دن اور اس دن کے وہی تقاضے، وہی بوجھل لمحات، وہی گرہستی کا جان لیوا بوجھ جس کو ریزہ ریزہ ڈھوتے ہوئے وہ اکثر سوچتی کہ وہ سب کی ضرورت کیوں ہے؟
مگر یہ کیا ؟ گھر تو کافی صاف ستھرا لگ رہا تھا۔کوئی ملازمہ صفائی کررہی تھی
' اچھا تو نوکرانی رکھ لی'۔۔۔ایک سکون کا سانس لیتے ہوئے اس نے کچن کی راہ لی تو دیکھا وہاں بھی ایک ملازمہ ہے جو کھانا بنارہی ہے
' ابھی مجھے گئے تو کچھ دن ہی ہوئے ہیں اور اس گھرکا نقشہ ہی بدل گیا'۔اس نے حیرت سے سوچا۔'کاش نوکریوں کی یہ فوج پہلے ہی مل جاتی'۔
پھر اس نے ایک ایک کمرے میں جھانک کر دیکھا۔
بیٹی اپنے کپڑے خود پریس کررہی تھی ۔بیٹا اپنے کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹ رہا تھا۔ساس کسی خادمہ سے اپنے پیروں کی مالش کروارہی تھی۔اور شوہر صوفے پر نیم دراز موبائل میں گم تھا
' کیا وہ کہیں ہے ' اس نے حیرت سے سوچا ۔
کل تک تو وہ ہر ایک کے لئے تھی۔مگر آج کہاں تھی؟۔
اس کا گھر تو اس کے بغیر بھی چل رہا تھا۔اس نے کیوں سمجھ لیا تھا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا ۔کتنی محفلیں ، کتنے ہنگامے، کتنی آسانیاں،کتنے مشغلے، کتنی ساعتیں، کتنے مرحلے۔اس نے کیا کچھ نہیں کھو دیا تھا اس گھر کے لئے۔زندگی بھر دوسروں کے لئے وقف ہو کر وہ کبھی خود کی نہ رہی تھی ۔'کاش وہ ذرا سا ہنس لیتی، موج مستی کرلیتی، اپنی من مانی کر لیتی ، اپنے لئے جی لیتی۔زندگی گزر گئی تھی آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ کسی کی ضرورت نہیں تھی ۔
آج جب وہ یہ دنیا چھوڑ چکی تھی !!