از : شمیم صالحہ
گلاب نام تھا اسکا ۔۔جی وہ تھی بھی تو بہت پیاری۔ گلاب سی رنگت والا اسکا کھلا کھلا چہرہ جو پورے گھر کو مہکا تا تھا۔۔۔
تین بھایئوں کے بعد اسکا جنم جب ہوا تو گھر میی سبھی خوشی سے پھولے نہیی سماعت رہے تھے۔
بابا تو اس ننہی سی پری کو لیۓ رات رات بھر جاگتے کہ کہیی وہ نیند میی رونے نہ لگے۔
بہت لاڈ اور پیار سے اسے پالا پوسا اور خوب پڑھا لکھا کر اسکا بیاہ ایک امیر اور اونچے گھرانے میی کر دیا۔
شادی کے شروعاتی دن تو گلاب کے بہت اچھے سے گزرے ۔پھر رفتہ رفتہ اسے اپنے شوہر کی خامیوں کا پتہ چلنے لگا۔
وہ رات دیر سے آتا اور جب تک گھر پہ ہوتا صرف سگرٹ کے کش لیتا ہوا بالکولی میی کھڑا رہتا۔ ایسے ظاہر کرتا جیسے
صرف دو ماہ میی ہی گلاب سے اوب گيا تھا وہ۔
گلاب نے اپنے والدین اور بھایئوںںسے ساری بات کہہ دی۔
بہن کی محبت میی آکر اسکے بھائ سیدھے گلاب کے سسرال گۓ اور خلا نامہ دکھا دیا۔جس پہ گلاب کے دستخط موجود تھے۔
اگلے ہی لمہے گلاب کے شوہر نے بھی خلا نامہ پر دستخط کیا اور ساتھ ہی گلاب کے جو بھی زیورات تھے وہ انکے حوالے کر دیا۔
گلاب اب اپنے مایکے میی واپس آگئ ۔ کچھ دن تو سب معمول کے مطابق چلتا رہا پھر ایک دن گلاب کے لیۓ ایک پروپوزل آیا ۔۔
جسے گلاب کے بھائيوں نے واپس لوٹا دیا۔بہن کی محبت نے ان تینوں کو اتنا اندھا کیا کہ انہوں نے گلاب کا دوسرا نکاح نہ کرانے کی ٹھان لی اور گلاب کو عمر بھر اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔۔کسی نے بھی گلاب سے اسکی راۓ یا مرضی جاننے کی کوشش کبھی نہیی کی۔
دن گزرتے گۓ ، گلاب کے تینوں بھائ نے شادی کرلی،انکے اپنے بچے بھی ہوۓ ، اب گلاب سے دن میی ایک آدھ بار کوئی بات کر لیتا ہے مگر اسکا اکیلاپن کانٹنے کے لیۓ کوئی نہیی ہے۔۔والدین بھی دیار فانی سے کوچ کر گۓ ،
گلاب عمر کی ڈھلتی دھوپ کے ساتھ زرد پڑ گئ ہے اور اکیلے پن کا کیڑا اسے اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔۔
بہن سے بھایئوں کی محبت آج بھی اتنی ہی ہے ،بس دینے کے لیۓ وقت کی کمی ہے۔۔