ڈاکٹر رمیشا قمر
(لیکچرر شعبہ اردو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک)
بلا شبہ زندگی کے اندھیروں میں چراغ استاد جلاتا ہے ۔ تاریک راہوں میں وہی مشعل دکھا تا ہے۔ وہی منزلوں کا پتا دیتا ہے ۔۔وہی کشتی؍ زیست کو منجدھار سے نکال کر کنارے لگاتا ۔
استاد صحیح معنوں میں طالب علموں کا خیر خواہ اور ان کا رہنما ہوتا ہے۔ کسی قوم کا اصلی معمار وہی ہوتا ہے اس لیے کہ ملک وقوم کی عمارت کی اینٹ وہی تیار کرتا ہے۔وہی بنیاد رکھتا ہے اور اسی کے ہاتھوں عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ کسی بھی قو م کی تعمیر وتشکیل اس قوم کے اس طبقے پر منحصر ہے جس کا پیشہ درس وتدریس ہوتا ہے کہ وہی قوم کے نو نہالوں کا خضر ہوتا ہے۔ اسی کے پاس علم کی روشنی ہوتی ہے جو طالب علموں کے قلب و نظر کو روشن کرتی ہے جس کی بدولت طلبہ نیک و بد ، حق و باطل میں تمیز کر پاتے ہیں ۔ صحیح راستے کا انتخاب کر پاتے ہیں۔ خدا،انسان اور کائنات کے رشتے کو سمجھ پاتے ہیں ۔ انسانی قدروں کو بحال کر پاتے ہیں جن سے دنیا میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔انسانیت پروان چڑھتی ہے۔ اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا ہوتا اور انسان بے فکری سے زندگی گزار پاتا ہے ۔لب لباب یہ کہ انسان اور معاشرے کے تحفظ اور کی ترقی و ترویج کا دارومدار تعلیم پر ہے۔تعلیم کے ذریعے ہی تہذیبیں پروان چڑھتا ہے۔ اسی سے تمدن کی بنیاد پڑتی ہے۔ اور اسی سے معاشرے میں مثبت قدریں فروغ پاتی ہیں ۔
اسی کے ذریعے ہم اپنی زندگی کی تاریکی کو روشنی میں بدل سکتے ہیں اور یہ تعلیم ہی ہے جو ہمیں زندگی جینے کے طریقے و قرینے کے ساتھ درس انسانیت،ہمدردی و شفقت،خلوص و محبت،عجز وانکساری سکھاتی ہے ۔تعلیم کا سب سے اہم مقصد فرد کی شخصیت سازی اور کردار سازی ہے۔حصول علم کے بعد فرد فرد نہ رہے بلکہ وہ ایک اچھا وسچا انسان،حساس و ذمہ دار شہری اور انسانی و اخلاقی اقدار کا علم بردار بنے۔تعلیم کا انحصار اساتذہ پر ہے۔ جن کے پیش نظر صرف طالب علموں کی تعلیم ہی نہیں ان کی تربیت کے ساتھ ساتھ درس انسانیت بھی ہوتی ہے۔
استاد کو قو م کو معمار کہا جاتا ہے اور اساتذہ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ہمارے اس رنگا رنگی تہذیبوں،مذہبوں اور زبانوں کے ملک میں 5/ ستمبر کو یوم اساتذہ منایا جاتا ہے اور اس مخصوص دن اساتذہ کی خدمات کا،ان کی عظمت اور اہمیت کا اعتراف طالب علم بڑی مسرت کے ساتھ کرتے ہیں۔5/ ستمبر 1888ءیوم اساتذہ ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کی یوم پیدائش کے دن منایا جاتا ہے۔جو ہمارے ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ( 1962۔1967)اور مشہور ماہر تعلیم تھے۔صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل وہ کنگ جارج پنجم چئیر آف مینٹل اینڈ مورل سائنس کلکتہ یو نیورسٹٹی (1921۔1932)سے وابستہ بھی۔اور وہیں درس و تدریس کے فرائض خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرتے رہے۔
رادھا کرشنن جی کو درس وتدریس کے پیشے سے والہانہ لگاؤ تھا اور ان کی تمنا تھی کہ ان کو ایک استاد کی حیثیت سے یاد کیاجائے۔ اسی لئے 1952ء سے لگاتار یہ دن سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے اور ہمارے بھارت میں ہر اسکول میں اس دن یوم اساتذہ کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اساتذہ کے لئے اپنے احساسات و جذبات کو تحریر و تقریر کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے اور ان کے لئے تحائف بھی پیش کئے جاتے ہیں۔غرض اس دن کو اساتذہ کے لئے یادگار دن بنایا جاتا ہے۔
استاد اس چراغ کی مانند ہوتا ہے جو تاریک راہوں میں روشنی بکھیرتا ہے وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میںں محبت و دوستی کا پیغام پہنچانا ہے۔بقول شاعر:
جینے کا فن سکھایا، مرنے کا بانکپن بھی
عزت کے گر بتائے، رسوائی کے چلن بھی
کانٹے بھی راہ میں ہیں پھولوں کی انجمن بھی
تم فخر قوم بننا اور نازش وطن بھی
استاد کے مقام اس کی عظمت اور اس کے مرتبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔استاد اکا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔کسی بھی بچے کا مستقبل بنانے میں اساتذہ کا اہم رول ہوتا ہے۔جس طرح ایک کمہار مٹی کے ڈھیر سے خوبصورت برتن تشکیل دیتا ہے،ایک معمار اینٹ،گارے،پتھر،سیمنٹ اور ریت سے خوش نما محل تعمیر کرتا ہے۔ایک سنگ تراش پتھر کو تراش خراش کر حسین مورت کی شکل دیتا ہے اسی طرح استاد اپنی محنت سے بڑی ہنر مندی کے ساتھ قوم کا مستقبل سنوارتا ہے۔
استاد طالب علموں کا خیر خواہ ہوتا ہے وہ طرز معاشرت اور تہذیب وتمدن کی باوقار منزل تک پہنچانے میں طالب علموں کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کے ذہنوں کو سائنسی شعور کے نئے دریچوں سے آگاہ کرتا ہے اور ان کے اندر ہمت و جرات اور خود اعتمادی پیدا کرتا ہے۔حالی ؔ نے کیا خوب کہا ہے۔
یہ کامیابیاں،عزت یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقا م تم سے ہے
عالم انسانی میں کئی عظیم المرتبت شخصیات گزری ہیں جن کی سوانح حیات،تعلیمی فتوحات،تخلیقی کامیابیاں اور فنی کا مرانیاں وغیرہ کے متعلق پڑھ کر حیرت واستعجاب میں گھر جاتے ہیں۔ دراصل ان کامیابیوں کا سہرا بھی کسی نہ کسی استاد ہی کے سر ہوتا ہے ایک استاد ہی ہوتا ہے جو پوری دنیا کو ایک درس گاہ بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔
شاگرد اور استاد کا رشتہ دنیا کا سب سے اہم ترین اور قدیم ترین رشتہ ہے خود رسول ﷺ نے طبقہ اساتذہ کو ا ن الفاظ میں وقار و اعزاز عطا کیا کہ۔
”مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔“
ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔
”ابوک ثلاثہ“
تمہارے تین باپ ہیں ایک وہ جو تمھیں اس دنیا میں لایا،دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی اور تیسرا وہ جس نے علم دیا اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لئے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔
استاد اپنی زندگی میں مختلف ماہرین تعلیم، ڈاکٹرز، انجنئیرز، سائنسدان،ٹیچرز، فن کار، بے شمار انسان اچھے اور سچے شہری پیدا کرسکتا ہے۔استاد معاشرے سے، دنیا سے اور اپنے اطراف و اکناف رو نما ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات سے اکتساب کرتا رہتا ہے اور اپنے اکتسابی تجربات، سماجی مشاہدات کو اپنے طلبہ میں منتقل کرتا ہے، تا کہ طلبہ کی شخصیت منور اور تابناک ہو جائے اور وہ بے مثل طالب علم کے ساتھ ساتھ ایک اچھا اور سچا انسان بن کر سماج ومعاشرے کی تشکیل میں اپنا رول مثبت طریقے سے ادا کرسکے۔استاد کی عظمت کاا یک چھوٹا ساواقعہ بتاتی چلوں کہ علامہ اقبال جسے آج پوری دنیا شاعر مشرق کہتی ہے۔کہتے ہیں کہ۔
”علامہ اقبال کو انگریزی حکومت نے سر کا خطاب دینا چاہا تو اقبال نے یہ خطاب لینے سے انکار کردیا اور انگریزی حکومت نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے فر مایا۔
میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میر حسن کو”شمس العلماء“ کا خطاب دیا جائے۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا۔
ڈاکٹر صاحب آپ کو سر کا خطاب اس لئے دیا جارہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں آپ نے کئی کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کئے ہیں،بڑے بڑے نظریات تخلیق کئے ہیں لیکن آپ کے استاد نے کیا تخلیق کیا ہے؟
جواب میں علامہ اقبال نے کہا۔
”مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے“۔
اور اقبال کے اس جواب کوسن کر انگریز گورنر نے علامہ اقبال کی بات مان لی اور ان کے کہنے پر مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینے کا فیصلہ سنایا۔اس پر مستزاد علامہ اقبال نے آگے یہ بھی کہا کہ:
”میرے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینے کے لئے یہاں سرکاری تقریب ہی سیالکوٹ میں منعقد کی جائے یعنی میرے استا د کے گھر۔
اور اقبال نے جیسا کہا ویسا ہی کیا گیا میر حسن کو کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبال کے استاد نہ ہوتے لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میرحسن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔“
علامہ اقبال نے واقعی اپنے استاد سے محبت اور احترام کا عملی اور مثالی نمونہ پیش کیا ہے جو ہم سب کے لیے باعث تق؛ید ہے۔استاد کی تعظیم وتکریم ہمارا فرض ہے بقول شاعر:
وہی شاگرد پھر ہوجاتے ہیں استاد اے جوہر
جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں
دنیا کی عظیم شخصیت سکندر اعظم نے اگر اپنے آپ کو کسی سے کم جانا تو وہ شخصیت صرف استاد ہی کی تھی سکندر نے اپنی ایک گفتگو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ والدین سے زیادہ احترام میں اپنے استاد ارسطو کا کرتا ہو ں۔
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
یہاں میں نے استاد کی عظمت بتانا اس لئے ضروری سمجھا کہ استاد کی بدولت ہی آج ہم اس مقام پر کچھ بولنے،کچھ لکھنے کے قابل ہوئے ہیں استاد وہ رہنما ہوتا ہے جو بچے کی زندگی کو گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے کسی ماہر نے کہا ہے کہ:
”استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ پیدا کرتا ہے۔“
استاد کی عظمت ان دو اشعار سے واضح ہوجاتی ہے۔
استاد کی عظمت میں عظمت ہے زمانے کی
تعظیم ملے اس کوآداب سیکھانے کی
دنیا میں جو رہنا ہے تعلیم تو لینی ہے
ہر علم ضروری ہے یہ بات خدا نے کی
ایک استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے حسن تکلم،شیریں گفتاری اور درسی و تدریسی کمالات کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے طلباء کی صلاحیتو ں کو جلا بخشے۔ جن اساتذہ کو اپنے منصب اور عہدے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ صرف اسے روزی روٹی کے مسئلے کا حل سمجھ کر قبول نہیں کرتے بلکہ اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔جن میں مختلف واقعات، مشاہدات، تجربات،حوصلہ مندانہ جملے،مزاح کی چاشنی،طنز کی کاٹ،ڈانٹ،غصہ،نصیحت اور محبت شامل ہوتی ہے اور وہ اپنے طلبا ء میں اصول پسندی،نظم وضبط کا اہتمام،محنت ومشقت،انصاف وصداقت اور خلوص و محبت جیسے اوصاف کو پروان چڑھانے میں منہمک رہتے ہیں۔
حیات انسانی کے ہر شعبے میں ہر فن میں اور ہر میدان میں استاد کی ضرورت ہوتی ہے اور استاد ہی طلباء کی شخصیت سازی کرتا ہے۔ ان کی تہذیبی،تعلیمی اور اخلاقی نشوونما میں اہم کردار کرتا ہے۔شاید ان ہی جذبات و احساسات کے ساتھ ہندوستان بھر کے تعلیمی اداروں میں یوم اساتذہ بڑے ہی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔
افسوس کہ آج ایسے اساتذہ کا فقدان ہے اور ان میں کام کے تئیں ایمانداری،طلباء سے محبت،ان کی تعلیم و تربیت کے لئے فکر مندی کا احساس بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔موجودہ دور میں مادہ پرستی اور پرشکوہ عمارتوں نیز رنگین کتابوں کی بھر مار ہے مگر تعلیم وتدریس از خود مفقود ہے۔آج کے دور میں طلباء کو وہ ماہرانہ طریقہ تدریس اور استاد کا خلوص اور شفقت شاید ہی میسر ہو۔اور ایسے طالب علم بھی شاذ ونادر ہی ہیں جو اساتذہ کی عظمت کو جانتے مانتے اور ان کی تعظیم وتکریم کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں لوگ کئی صدیوں سے ”گرو بن گیان نہیں “ کے فلسفے پر کامل یقین رکھتے آئے ہیں۔اور دور حاضر میں اخلاقی اقدار کی شکست وریخت اور تمدنی اقدار زوال کے دہانے پر ہے اس کے باوجود ہمارے سماج میں آج بھی معلم کی اپنی شناخت باقی ہے۔
اساتذہ وہ عطر دان ہے جو طلبہ میں علم کی ایسی خوشبو بکھیرتے ہیں جس کی مہک دل و دماغ کی وادیوں کو معطر کرتے ہوئے ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔
موجودہ تناظر میں اگر ہم تعلیمی سسٹم کا جائزہ لیں تو ہمارا تعلیمی نظام ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جارہا ہے۔ آج ہمارا تعلیم کا مقصد صرف کامیابی حاصل کرنا ہوگیا ہے اور ایسے تعلیمی اداروں میں جہاں تعلیم کا مقصد سند حاصل کرنا ہو، وہاں ڈگری حاصل کرنے والے طلبا ء بے روزگاری،نا آسودگی اور عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں۔ اخلاقی انحطاط اور ظلم و رشوت کے بازار میں خود کو بے بس و لاچار محسوس کرنے لگتے ہیں اور ایسے میں یہ نام نہاد تعلیم یافتہ افراد اپنی جیبوں میں کاغذی ڈگری لئے تعلیمی قابلیت اور نئی مہارتوں کا جنازہ نکالتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے وقت میں ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر بنائیں،اساتذہ اپنے فرض کو پہچانیں اور طالب علموں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت کرنا بھی اپنا فرض عین سمجھیں۔قوم وسماج کی اصلاح کے گر بھی سکھائیں،طالب علموں کے لئے علم ودانش کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں ان کے تخلیقی گوشوں کو نکھاریں ان کی زندگی کو سنوار کر انھیں اس قابل بنائیں کہ وہ ہمارے ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کریں۔