از : عبدالقیوم افسرؔ
جو تیرا عشق سر میں آگیا تھا
زمانے کی نظر میں آ گیا تھا
سحر انگیز باتیں تھیں تمہاری
میں سنتے ہی اثر میں آ گیا تھا
کسی شیطان کی تمثیل ہی تھا
تکبر جب بشر میں آگیا تھا
نشانہ کر رہے تھے لوگ اس کو
ثمر جب سے شجر میں آ گیا تھا
میں پھولوں کا مسافر تھا کہ اک دن
مرے رستے میں پتھر آگیا تھا
اسے پتھر عطا کر دیتے افسرؔ
کوئی سودا جو سر میں آگیا تھا