از : مجید آتش
اگر عشق نبی حاصل نہیں ہے
تو پھر ایمان بھی کامل نہیں ہے
عبادت میں جو لگتا دل نہیں ہے
رہے سینے میں اس قابل نہیں ہے
جو کار خیر میں شامل نہیں ہے
سکون دل اسے حاصل نہیں ہے
اسی میں چھید کرنا جس میں کھانا
ہمارے خون میں شامل نہیں ہے
بھلاؤں کیسے لمحہ بھر مرا دل
تمہاری یاد سے غافل نہیں ہے
بچھڑ کر تم سے لمحہ بھر مرا دل
تمہاری یاد سے غافل نہیں ہے
خدا کا شکر ہے اب تک طبیعت
گناہوں کی طرف مائل نہیں ہے
بگاڑے آخرت دنیا کی خاطر
نہیں ہے وہ بشر عاقل نہیں ہے
گہر کیسے ملے کوئی صدف سے
ہماری آنکھ جب جل تھل نہیں ہے
بھروصہ مت کرو اس پر منافق
بھروسے کے ذرا قابل نہیں ہے