از : مرزا صہیب اکرام
بیٹا جوان ہوا تو اشتیاق حسین کو لگا کہ اب اس کے مشکل دن ختم ہونے کو ہیں ۔ کھیتوں میں مشتاق بھی اپنے باپ کے ساتھ کام کرتا ۔مشتاق چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اس لیے وہ سب سے خاص تھا ۔
وہ ابھی 18 سال کا تھا ۔ اشتیاق احمد کے پاس ترکے میں ملی دو ایکڑ زمین تھی ۔اس کے علاؤہ دو ایکڑ زمین بٹائی پر اس نے لے رکھی تھی ۔اس طرح گھر کا گزارا ہو رہا تھا ۔
گاؤں کے ماحول اور حالات کی وجہ سے بیٹیوں نے تو پانچویں کے بعد اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا تھوڑی دینی تعلیم کی کوشش کی تھی گاؤں میں ناظرہ پڑھنا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی ۔
مشتاق تین بہنوں سے چھوٹا تھا ۔ بڑی تین بہنوں کے تو چھوٹی عمر میں ہی ہاتھ پیلے ہو چکے تھے بس ایک بہن جو مشتاق سے چند سال چھوٹی تھی وہی رہتی تھی ۔
غربت کے حالات میں یہ خاندان اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے ساتھ زندہ تھا۔ اشتیاق حسین نے بیٹے کو پڑھانے لکھانے کی پوری کوشش جاری رکھی ہوئی تھی ۔ بیٹا بھی ذہین تھا اس لیے وہ اب اسکول سے کالج تک پہنچ گیا تھا ۔
گاؤں کے ماحول سے ہمیشہ ڈری سہمی رہتی عزرا اپنے خاوند سے کہتی کہ مجھے یہاں بہت ڈر لگتا ہے ۔ ہم شہر کیوں نا چلے جائیں تو اشتیاق اس کو دلاسہ دیتا کہ یہاں تو سب اپنے ہیں ۔اور شہر میں اخراجات کون اٹھائے گا ۔یہاں تو جیسے تیسے کر کے گزارا ہو رہا ہے ۔ وہ بیچاری یہ سن کر خاموش ہو جاتی ۔
ایک دن مشتاق اپنی چھوٹی بہن ذکیہ کو مدرسے سے واپس لا رہا تھا جب محلے سے دور چند اوباش نوجوانوں نے آوازیں کسیں۔ مشتاق کا آج پہلا موقع تھا اس لیے وہ ان سے الجھ پڑا۔ بہن نے بہت روکنا چاہا مگر وہ اسے روک نا سکی ۔
بات چیت سے نوبت ہاتھا پائی پر پہنچ گئی مشتاق نے اس لڑکے کی پٹائی کردی جس نے ذکیہ کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی اسی دوران چند بزرگ بیچ میں کود پڑے اور مشتاق کو سمجھا بجھا کر گھر بھیج دیا ۔مشتاق غصے سے بھرا واپسی کے لئے چل پڑا ۔
ماں نے واقعہ سنا تو اس کی جان پر بن آئی ۔وہ رونے بیٹھ گئی ۔ اشتیاق حسین بھی اندر سے پریشان تھا کیونکہ جن سے جھگڑا ہوا تھا وہ گاؤں کے کھاتے پیتے گھر کے لڑکے تھے بلکہ ایک لڑکا جس پر مشتاق نے ہاتھ اٹھایا تھا چودھری کے گھر مہمان تھا
بیٹا کیا ضرورت تھی ان لوگوں سے الجھنے کی ۔ اشتیاق نے بیٹے کو سمجھایا
ابا کیا غریب کی عزت کا کوئی مول نہیں ہوتا ۔ مشتاق نے کہا
بیٹا عزت اور ذلت کیا ہوتی مجھے نہیں معلوم ۔ بس یہ یاد رکھو کہ ہم نے یہاں رہنا ہے تو اتنا تو برداشت کرنا پڑے گا ۔انہوں نے آوازیں ہی تو کسی تھی ۔ اگر تم چپ چاپ گذر جاتے تو بات وہیں ختم ہو جاتی ۔
میں غلط ہوتے دیکھ کر کیوں چپ رہتا ابا ۔ وہ میرے یا تمہارے ہوتے آواز لگاتے ہیں تو اکیلی جاتی کے ساتھ جانے کیا کریں ۔کیا عزت صرف چوہدری کے گھر میں بستی ہے ۔ مشتاق نے جذباتی ہو کر کہا
بیٹا غریب کی عزت صبر میں ہے۔ ہم جیسے لوگ دنیا میں بس سر چھپاتے ہیں اور نگاہ نیچی رکھ کر زندگی گزارتے ہیں ۔ تم بھی یہ بات سمجھ لو ۔ اشتیاق حسین نے کہا
دو تین دن خیریت سے گزر گئے لیکن ایک دن شام کے وقت گاؤں میں قیامت ٹوٹی جب مشتاق احمد کو کسی نے گولی مار دی ۔
غریب کے آنگن میں قیامت ٹوٹ پڑی ۔ جوان لاش نے پتھروں کو بھی توڑ دیا ۔ مارنے والے تو مار کر دندناتے ہوئے چلے گئے ۔
پولیس گاؤں میں موجود تھی ۔تحقیقات کا آغاز ہوا ۔غریب خاندان نے بیان لکھوائے ۔ضروری کاروائی کے بعد مظلوم لاشہ دفن کر دیا گیا ۔
ملزم نامزد کر دئیے گئے ۔کیس چل پڑا۔ ایک جانب سارے گاؤں کی چوھدراہٹ اور دوسری طرف ایک غریب تنہا اپنے حق کے لیے لڑنے لگا۔
دھمکیاں زور زبردستی کے باوجود کیس چلتا رہا ۔ وقت گزرتا رہا ۔ سالوں بیت گئے ۔ ماں انصاف کی آرزو میں ایک دن گذر گئی ۔
ذکیہ کو دوسرے گاؤں سادگی سے بیاہ دیا گیا ۔ پہلے مشتاق احمد کی زمین بکی اور کے بعد گھر بکا۔ وہ دن بھر مزدوری کرتا اور جتنے پیسے کما پاتا اس سے وہ وکیل کی فیس بھرتا جاتا ۔
تھکا ہارا غریب ہر پیشی پر اسی امید سے جاتا کہ شاید اب انصاف مل جائے گا ۔وکیل اسے ہمت دیتا کہ ہائی کورٹ میں انصاف مل جائے گا۔
آخر کار وہ دن آ پہنچا ۔ مشتاق حسین اپنے بیٹے کی قبر پر پہنچا ۔ہھر اس نے بیوی کی قبر پر حاضری دی ۔ آج اسے پندرہ سال ہو گئے تھے ۔ اس کا بڑھاپا بھی اسے چڑا رہا تھا ۔ وہ کمزور و نحیف سا بوڑھا تھا ۔ جس کے چہرے پر صدیوں کے غم و الم چمک رہے تھے ۔ اسے حالات نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا ۔
وہ عدالت پہنچا ۔ تبھی رعونت سے اکڑے قاتلین گروہ در گروہ داخل ہوئے ۔ ان کی گردنیں تنی ہوئی تھی چہروں پر گہرا سکون ، جیسے وہ کسی دل فریب کھیل سے لطف اندوز ہونے آئے ہوں۔
جج نے تمام شہادتوں اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ سنانا شروع کیا ۔ اور مشتاق حسین کی سکت جواب دے گئی ۔
اس کی زندگی کے تمام اثاثے آج روندے جا رہے تھے ۔ تمام مجرم باعزت بری ہو گئے تھے ۔ مشتاق حسین کی جوانی اس کے بیٹے کی زندگی، بیوی کی خوشیاں ، بیٹیوں کی خواہشات سب ہی انصاف کی دیوی دیکھنے سے قاصر رہی ۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا کمرہ عدالت سے باہر نکلا ۔ مشتاق حسین فکر مت کرو ہم اس سے بھی بڑی عدالت میں جائیں گے وکیل نے پیچھے سے اسے تسلی دی ۔
ہاں اب بات اور انصاف بڑی عدالت میں ہوگا ۔مشتاق حسین بڑبڑایا۔
مجرم عدالت کے کمرے سے نکل کر اپنی گاڑیوں میں بیٹھے رہے تھے جب گاڑی کے اوپر کچھ بھاری بھرکم بوجھ آ کر گرا ۔
یہ انصاف کا وزن تھا جو مجرموں کی جانب جھک گیا تھا ۔ یہ مشتاق حسین کا آخری فیصلہ تھا وہ اب اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر جا چکا تھا ۔ اسے دنیا نے مایوس کر دیا تھا ۔وہ اپنا مقدمہ اور بے بسی دونوں آخری عدالت کے حوالے کر چکا تھا ۔