Type Here to Get Search Results !

کرونا راج

از  :  رانا حماد



کرونا کا جس قدر بھی ذکر کیا جائے اسی قدر نت نئے اندیشے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ کچھ بھی ہو کرونا کی ساری شرانگیزیاں و ستم سامانیاں ایک طرف، اور اس کی بدولت حاصل ہونے والی افادیتوں سے بھی کوئی ذی نفس انکار کی جرات نہیں کر سکتا۔ کورونا کی وجہ سے ہونے والے مال و جان کے نقصان کے جتنے تخمینے پیش کئے گئے ہیں ان سب سے قطع نظر، اگر اس سے حاصل ہونے والے حادثاتی فوائد کا چار یا پانچ فیصد بھی احاطہ کر لیا جاتا تو یقین مانیے کے عوام و خواص بصد شوق مستقبل میں خود سے ان ناگہانی مراعات  کا پر زور مطالبہ کرتے اور مزید ان کے حصول کی جستجو میں گاہے بگاہے پر فریب و جاں گداز سے بہانے گھڑتے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو میرے اس بے باک تجزیے اور انداز پر فوری طور پر شدید اعتراض ہونے لگے، یا آپ کو یہ غیر انسانی سوچ کا نتیجہ معلوم ہو، اور عین ممکن ہے کہ اب تک تصور ہی تصور میں آپ نے مجھے ایک زناٹے دار طمانچہ بھی رسید کر ہی دیا ہو مگر ذرا رکیے اور تھوڑا دم لیجئے،

اس سے پہلے کہ آپ کوئی شدید ردعمل ظاہر کریں یا اپنی سوچ کا کوئی کاٹ دار نشتر میں حوالے سے اپنے ہی دل میں اتار لیں، میں آپ کو اس ضمن میں کچھ ایسے غیر محسوس و غیر معروف حقائق سے روشناس کرواتا ہوں تاکہ آپ کو میرے ایسے اندازوں کا اندازہ صحیح طریقے سے ہوسکے۔ 

سب سے پہلے میرے ایک رقیب نما عزیز جن کا تعلق نوکری پیشہ طبقے سے ہے ان کے احوال پر نظر ڈالتے ہیں۔ موصوف ہمیشہ اپنی نوکری اور نوکری کے تمام عوامل و جزئیات سے سخت نالاں اور حواس باختہ رہتے تھے۔ ان سے جس وقت بھی رابطہ ہوتا موصوف ہر بات میں گھوم پھر کر اپنی ملازمت میں آئے روز بلکہ قدم قدم پر تواتر سے وقوع پذیر ہونے والے حادثات و واقعات اور ان سے پیدا ہونے والی جاں بلبی کا ایسا دل خراش منظر کھینچتے کہ ہمیں ان سے بحال ہونے والے ہر ہر رابطہ ان سے ہونے والا آخری رابطہ کے گمان کے قریب کر دیتا۔

ایک دن جب کورونا کی وجہ سے لگنے والے عالمی لاک ڈاؤن جسے "کرو نا راج" کہنا زیادہ مناسب ہوگا میں ان سے فون پر حال احوال کی دریافتگی اور تبادلے کی وجہ سے ٹیلی فونک  رابطہ ہوا تو جناب انتہائی مسرور و شادمانی کی کیفیت میں ڈوبے ہوئے ہونے کا اظہار کرتے رہے۔ 

 چہ جائیکہ کہ مالی حالت کمزور قدرے کمزور ہو گئی تھی مگر فارغ البالی کی نعمت پر ان کو ہفت اخلاق کی دولت و رونق کی تمام رعنائیاں ہیچ معلوم ہو رہی تھی۔ اپنی عیش کوشیوں اور مسلسل استراحت پردازی  کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ وقتی طور پر ہمیں بھی ان پر رشک آ گیا،  بہرحال، اس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جتنی جلدی اکثر لوگوں کو فارغ البالی و خالی الذہنی  راس آتی ہے اتنی جلدی کسی اور حالت و کیفیت کا رگ و پے میں سرایت کر جانا شاید ممکن نہیں ہوپاتا۔ 

ایک اور واقعے کی روداد ہمیں ہماری ہمشیرہ نے سنائی۔ جس نے جہاں ہماری حس ظرافت کو تازگی بخشی وہی تقدیر پر ایمان اور بھی پختہ ہوگیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ ہماری بڑی باجی بینک منیجر کے عہدے پر فائز ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں ان کا واسطہ ہر طرح کے مزاج اور طبقے کے لوگوں سے پڑتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہماری باجی جس بینک میں مینجر ہیں وہاں ایک خاتون انتہائی محتاط مزاج کی بھی اپنا اکاؤنٹ رکھتی ہیں ، وہ خاتون اپنی  محتاط مزاجی کی وجہ سے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لینے 

کی حامل ہیں۔ 

کرونا سے پہلے بھی وہ جب کبھی اپنے کسی کام سے بینک تشریف لا تین تو اپنے انداز اور لوازمات سے لوگوں کو صفائی ستھرائی کا ان کہا سا پاٹ پڑھا جاتیں، ہاتھوں میں دستانے، منہ پر ماسک، اٹھنے بیٹھنے میں تکلف، کہیں کچھ مٹی وغیرہ کے ذرات یا جراثیم نہ ہوں، دستاویزات وغیرہ کو بھی اس درجے نا پسندیدگی ، بے دلی اور احتراز سے کنارے کنارے سے تھامتیں کہ گویا کہ ہر شے میں ان کی بیماری کا سامان موجود ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ خلدِ بریں سے ڈائریکٹ اتر کر آتی ہوں اور یہ خیال رہتا ہوں کہ کسی قسم کی آلودگی یا جراثیم نہ لگ جائیں ، غرض کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دہر ناپائیدار کی فضائیں انہیں کسی طور موافق نہیں آے گیں۔ 

خیر قصہ مختصر،  کرونا راج کے بعد میں جب بینک کھلے تو پھر بھی کافی عرصہ جلوہ افروز نہ ہوئیں، جب اتنا عرصہ گزر گیا کہ جب غیر کا خیال بھی انسان کے ذہن میں آجاتا ہے تو ایک دن اچانک بینک میں وارد ہوئیں، اتنے دنوں کی غیر حاضری کے 

استفسار پر بتایا کہ کمبخت کرونا کا مرض لاحق ہوگیا تھا، تأسف سے مزید تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لاکھ احتیاط کر لو ہونی کو کون ٹال سکتا، ویسے ہونی ٹلے یا نہ ٹلے شعر کا مفہوم اور وسعت کے ساتھ سمجھ آ گیا کہ اکثر لوگوں کی کشتی وہیں ڈوبتی ہے جہاں پانی کم ہوتا ہے۔ 

یا یوں کہہ لیجیے کہ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں۔

اگر آپ مزید غور کریں تو معاشرے میں رائج فضول اور بے معنی رسومات کہ جن کو کوئی اخلاقی نظریہ یا مثبت شعاری ختم تو کجا ذرا سا بھی سدھار نہ سکا تھا کورونا راج نے ان سب کا ایسا ناطقہ بند کیا کہ بہت سے لوگوں کو دیکھ کر یا ان کے مجبوراً یکسر تبدیل ہو جانے کا سن کر ان کے بارے میں جنت سے بس ایک قدم پیچھے ہونے کا گمان ہونے لگا۔ 

لوگ بے ہنگم اور بد نظم ٹولیوں کی صورت میں جمگٹھا لگانے اور ایک دوسرے بلکہ تیسرے چوتھے یہاں تک کہ زندہ و مردہ کو بھی اپنی نیکیاں بانٹنے سے بہت حد تک محروم ہوگئے۔ 

کورونا راج ان افراد کے لیے تو بے حد فائدہ مند ثابت ہوا جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے مگر ان کو باہم مجبورا کسی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے اکٹھا ہونا پڑتا تھا ۔ بہت سے لوگ اس سے بھی بڑھ گئے وہ یوں کہ ایک طبقہ فکر کے لوگوں نے کرونا کے وجود کو سرے سے عدم ہی قرار دے دیا، اور نہلے پہ دہلا کہ کرونا راج کے طفیل 

حاصل ہونے والی ہر طرح کی مراعات کا بھی خوب بلکہ بے جا فائدہ اٹھایا، کرونا کی عدم موجودگی کو ثابت کرنے پر ایسے ایسے لطیف و نفیس دلائل ہر شناسا و ناشناس کو دۓ کہ بہرہ بھی سنتا تو اپنے سر کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر بلا دریغ جنبش دینے لگتا۔ اور بعض اوقات تو اپنے موضوع کی فہم پاشی کے دوران ایسی خود محوری و خود پسندی کی خاص کیفیت طاری ہو جاتی کہ سامعین کو اپنی کم علمی اور کج فہمیوں پر احساس کمتری ہونے لگتا۔

کرونا راج میں آدم بیزار اور گوشہ نشینی کی طبیعت رکھنے والے لوگوں کے راحت و سکون و لطف کے تو کیا ہی کہنے، ان کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا بلکہ یہ کہنا قطعاً مبالغہ نہ ہو گا کہ جتنا حظ کرونا راج سے اس مزاج کے لوگوں نے اٹھایا شاید ہی 

دنیا کے کسی بہت امیر ترین آدمی نے اپنے محل میں بھی اٹھایا ہوگا اور نہ ہی کبھی اٹھا سکیں گیں۔  بعض ریا کاری سے بھری اور لغو محض روایات تو ایسی زمین بوس ہوئی ہیں کہ ڈھونڈنے سے بھی ان کے کھنڈرات تو کیا آثار بھی دریافت نہ ہو سکے۔

حاصل کلام و بیان یہ ہے کہ کرونا  راج کی وجہ سے اکثر لوگوں کو ایک دوسرے کی قدر ہویٔ اور 

رشتوں کی اہمیت بھی سمجھنے اور سمجھانے میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے سننے میں آیا۔ 

کرونا نے ہمیں انسانیت کے بھولے ہوئے بہت سے اسباق دوبارہ پڑھا دیۓ ۔صحیح بات ہے کہ دنیا کی ہر خیر میں شر اور شر میں خیر ہوتی ہے یا شاید عام انسان شر کا تجربہ کر کے ہی خیر کا انداز ہ اور شکر صحیح معنوں میں کر سکتا ہے،  بے شک ہم سب اپنے رب کی رحمتوں میں ہی 

جیتے ہیں اور مرتے ہیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.