نعیم سلیم، مالیگاؤں
اس دن میری مت ہی ماری گئی تھی جب کلاس ٹیچر نے اعلان کیا کہ دس دن بعد ہونے والے انٹر کلاس تقریری مقابلے میں کون حصہ لے گا.؟ پوری کلاس میں سناٹا چھا گیا.مجھ سے یہ بے عزتی برداشت نہیں ہوئی.بلاسوچے سمجھے کھڑا ہوگیا. میرے دوستوں نے (خود کے بچ جانے کی خوشی میں) ایسے تعریفوں کے پل باندھنے شروع کر دئے. جو ایک ہی بارش میں بہہ جائے. سر یہ مجاہد بہت اچھی تقریر کرتا ہے. اس کا انداز بہت اچھا ہے. ادائیگی تلفظ لاجواب ہے. وغیرہ وغیرہ. ا ور میں خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا. حالانکہ آٹھویں کلاس پہنچنے تک تقریر کرنا تو دور کبھی سٹیج پر دو منٹ کے لئے انعام لینے تک نہیں آیا. (کوئی کارنامہ انجام دیں گے تو انعام ملے گا ناں.. ہاں ایک مرتبہ شرارت کی سزا کے طور پر اسٹیج پر پورے بیس منٹ مرغا بننا یاد ہے.) واہ میرے دوستو کس قدر سفید جھوٹ بول کر مجھے چنے کے درخت پر چڑھا دیا.
کلاس ٹیچر نے عنوان بتایا، ایک کاغذ تھما کر پڑھانے لگے. تقریباً سات منٹ کی تقریر تین صفحات پر پھیلی ہوئی تھی. دیکھتے ہی پیروں تلے زمین کھسک گئ. سرسری نظر ڈالی پھر ہمت جٹاکر کہا...
میں تقریر نہیں کرونگا....
کیوں..؟
سر میں نے کبھی تقریر نہیں کی ہے.....
مجاھد تم مجاھد ہو یہ بزدلی کی بات ہے اور ہماری کلاس کی عزت کا بھی سوال ہے... تم یقیناً بہتر طور پر تقریر کرلو گے... ابھی دس دن ہیں ہر طرح سے تیاری کا وقت ہے.. میرے پاس کوئی جواب نہ تھا. بادل نخواستہ حامی بھر لی، اپنی جگہ بیٹھ گیا. چھٹی کے بعد دوست اکٹھا ہوئے اور مجھے پرسہ.... نہیں..... مشورہ دینے لگے. یار ٹینشن مت لے تقریر کافن موضوع پر لائبریری میں کتاب ہے اسے پڑھ لینا. جبکہ اس وقت میں دل ہی دل میں بلائیں ٹالنے والی دعائیں پڑھ رہا تھا.. ایک دوست نے کہا یار میرے پڑوس میں ایک مولانا صاحب رہتے ہیں.. زبردست تقریر کرتے ہیں. ان سے مل لیں گے. تو کوئی کچھ اورمشورہ دے رہا تھا..
دوسرے دن کتابیں چھان کر کچھ ضروری نکات نوٹ کیا. شام میں مولانا سے ملاقات کا وقت لیا، پہنچے.مقصد بتایا تو پہلے انہوں نے اس موضوع سے تھوڑا ہٹ کر ایک گھنٹہ تقریر کی..ملک کے کن کن کم آباد بلکہ غیر آباد علاقوں میں اپنی خطابت کے جھنڈے گاڑے.. سب پر روشنائی ڈالی. جب میں نے دبے لفظوں میں عنوان کے تعلق سے انہیں یاد دلایا تو منہ میں بھری پیک کی پچکاری سے دیوار پر شاہکار بناتے ہوئے فرمایا. برخوردار ادھر ہی آرہا ہوں ذرا تمہید سمجھ لو تو آسانی رہے گی... یا اللہ اگر یہ تمہید تھی تو...... ...... پھر سمجھانے کے انداز میں گویا ہوئے.. جب تم تقریر کرنے کے لئے اسٹیج پر آؤ تو یوں سمجھنا سب سے زیادہ علم تمہارے ہی پاس ہے.....( یہی غلط فہمی تو اکثر امتحانات میں نقصان پہنچاتی ہے.) سارے سامعین ان پڑھ جاہل گنوار ہیں..اور تم انہیں کچھ سیکھا نے آئے ہو. (یہی سمجھ کر تو اسکول میں منعقدہ تقاریب میں ہر مقرر ہم بچوں کے سامنے گھنٹوں اپنی علمیت بگھارتا ہے).
اس طرح تمہارے اندر احساس کمتری کا جذبہ نہیں آئے گا..
(انہیں کیا پتہ کہ ہم میں احساس برتری کوٹ کوٹ کر بھری ہے..)
اور پھر چہرے کا اتار چڑھاؤ، حرکات سکنات، آواز،لہجہ ہر چیز کے متعلق تفصیل سے سمجھایا. دو گھنٹہ حضرت سے تقریر کا گر سیکھا. اطمینان سے گھر لوٹ آئے. اب تھوڑی جان میں جان آئی.. اگلا مرحلہ تقریر یاد کرنے کا تھا... تین دن گزر چکے تھے سات دنوں میں تقریر یاد کرنی تھی.. ایک ایک پیراگراف یاد کرنا شروع کیا. چار دن میں یاد ہوگئ. اب تین دن بچے تھے. ایک دوست جسے روزانہ سناتا تھا. اس نے کہا یار ذرا ایکشن کرکے بتاؤابھی تک زبانی سنا رہے تھے.کلاس میں سب کے سامنے جھجھک اور تقریر عام ہوجانے کا بھی ڈر تھا... گھر اور اسکول کے درمیان قبرستان تھا. اچانک ذہن گیا کہ ہم اپنے فن خطابت کا جادو ہزاروں (سوئے ہوؤں) کے بیچ جگا سکتے ہیں. چنانچہ قبرستان کے انتہائی سنسان حصے میں ایکشن کے ساتھ تقریر کی. وہ تو اچھا ہوا کہ مُردوں نے آرام میں مخل ہونے پر کوئی جوابی کارروائی نہیں کی ستائش کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.. ورنہ مقابلہ درکنار اپنے ہی لالے پڑجاتے.....
ایک دن پہلے کلاس میں کلاس ٹیچر نے سنی. کچھ اصلاح اور مفید مشوروں سے نوازا...
مقابلہ شروع ہوا تالیوں کی گھڑ گھڑاہٹ نے دل کی دھڑکنوں میں اور اضافہ کردیا.میرے نام کا اعلان ہوا ڈرتے جھجھکتے سٹیج پر پہنچا.... لوگ مجھے ایسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے جیسے قبرستان سے بھاگاہوا مردہ آگیا ہو.......
السلام علیکم یا اہل القبور.... جیسے ہی سلام کیا پورا مجمع کھلکھلا اٹھا... ٹیچرز نے بچوں کو خاموشی کا اشارہ کیا..... دوبارہ سلام کیا.. خطبہ و عنوان پیش کیا.........
ذہن سے سب منتشر ہورہا تھا. پیر ایسے لرز رہے تھے. جیسے وائبریشن موڈ پر موبائل..... پوری قوت جمع کر کے مخاطب کیا معزز قارئین.... نہیں نہیں... سوری سامعین.. آواز نکلی بھی تو اتنی باریک کہ پھر پورے مجمع سے کھی کھی کھی کی آوازیں بلند ہوئیں.. .اس پر توجہ نہ دیتے ہوئے اب تقریر شروع کر دی..
قوت علم وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
جب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
ابے شوکت تیرا نام آیا تیرے اوپر کیا شعرمارا ہے یار.....
اگلی صف سے آواز آئی... میں نے کنکھیوں سے دیکھا تو کوئی شوکت نام کا بچہ اپنی کالر ٹائٹ کررہا تھا...
میری تقریر کی ٹرین اب پٹری پر رینگنے کے بعد دوڑنے لگی تھی. پورا مجمع ہمہ تن گوش تھا. جس سے میں بھی جوش میں آگیا. اور ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے شدید انداز میں یہ شعر پڑھا
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
سامعین کی آنکھیں پھیل گئیں کہ اب مصرعہ ثانی عطا ہوگا....
اور مصرعہ ثانی یوں عطا ہوا... کہ
بحر ظلمات میں گھوڑادئے دوڑے ہم نے........
ادھر شعر مکمل ہوا ادھر پورا مجمع ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگیا. میں نے جھینپ کر اسٹیج پر پلٹ کر دیکھا تو مہمانان کرام بھی اپنی ہنسی ضبط کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے.. بے اختیار آنکھوں میں آنسو آ گئے. کلاس میں ٹیچرز کی نقل اتارنا ذہین بچوں کی تذلیل سب آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا.. دل ہی دل میں ان باتوں سے بچنے کی دعا مانگی.... ناظم تقریب ٹیچر نے مائیک سنبھالا. سب خاموش ہوگئے تو کہا پیارے بچو اسٹیج پر آکر دو لفظ بولنا بھی بہت بڑی بات ہے اس بچے نے تقریر کرنے کی ہمت تو کی. اس طرح حوصلہ افزائی کے ساتھ ہی انعامات سے بھی نوازا گیا. تو ساتھیو یہ تھی ہماری پہلی تقریر کی روداد.... . آخری اسلئے نہیں کہ
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں...