نعیم سلیم مالیگاؤں
کہتے ہیں عشق اور مشک چھپانے سے بھی نہیں چھپتے..نجانے کتنی ہی نسلیں گزر گئیں جنھوں نے یہ مقولہ پڑھا یا سنا مگر مشک کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے.....اسلئے سوچتا ہوں کہ اس میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوئے عشق اور سیاست چھپانے سے نہیں چھپتے یوں کرلیا جائے تو کیسا رہے گا؟ .کیونکہ جب مشک دیکھا ہی نہیں تو سونگھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.. بھلے سے عشق اور مشک میں جو بہناپا لگتا ہے وہ عشق اور سیاست میں سوتناپا (سوتن پن) محسوس ہو....خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.. اب گدھے اورزعفران یا بندر اور ادرک میں کیا مطابقت ہے.جو عشق اور مشک میں ہی ضروری ہو.عشق اور سیاست میں نہیں؟
آپ خود غورفرمائیں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ لوگ محض بدنامی کے ڈر سے عشق نہیں کرپاتے تھے.چند ہی گنے چنے عاشق و معشوق چھپ چھپا کر اپنا عشق پروان چڑھاتے تھے...سیاست کا بھی یہی حال تھا بڑی مشکل سے کوئی سیاست میں آنا پسند کرتا تھا.عوام الناس کو عشق میں بدنام ہونے پر جو رسوائی کا ڈر تھا وہی ڈر سیاست میں داخل ہونے کا تھا اسلئے عشق اور سیاست خاص الخاص لوگ ہی کیا کرتے تھے.جیسے جیسے زمانہ بدلا ترقیاں ہوتی گئیں...لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا...اور....وہ عشق کے معاملات میں بیباکی سے کام لینے لگے....ادھر سیاست میں بھی کیرئیر بنانے کا رجحان بنتا گیا.کہتے ہیں جب فلم مغل اعظم ریلیز ہوئی تو اسکے مشہور زمانہ گیت" جب پیار کیا تو ڈرنا کیا "سے تحریک پاکر عشق کے بخار میں مبتلا سیکڑوں جوڑے گھروں سے فرار ہوئے اور سماج کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا...تو دوسری طرف ایمرجنسی کے دور میں مختلف پارٹیوں کے ذمہ داران جیل میں ایک ساتھ قید ہوئے تو انہوں نے بھی سیاست میں انقلاب بر پا کردیا...اور غلامی کی سیاست سے پرے اپنا وجود منوانے لگے.
گزرے دور میں سہولیات کا فقدان تھا اسی وجہ سے عشق بھی واسطے سے ہوتا تھا..محبوب کی سہیلی یا کٹنی سے قاصد کا کام لیا جاتا تھا...اسی طرح ایک پارٹی کے ذمہ داران دوسری پارٹیوں کے ابھرتے ہوئے لیڈران و ورکرس کو قاصد کے ذریعے اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیتے تھے.......کبھی قاصد پیغام پہنچاتے پہنچاتے خود محبوب بن جاتا تھا.تو کبھی قاصد مخالف پارٹی کے لیڈر کو اپنی پارٹی میں لانے کیلئے نکلتا مگر خود شکار ہوکر اُنکی پارٹی میں شامل ہوجاتا.
اس دھوکہ دھڑی سے عشق و سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا نتیجے میں قاصد بے اعتبار ہوگئے تو ان کا وجود بھی ختم ہوگیا.
عشق میں عاشق ومعشوق اپنی جا ن دینا پسند کرتے تھے مگر ایکدوسرے کی جدائی گوارانہ ہوتی..ادھر سیاست میں بھی ایسے ایسے لوگ آئے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ایک ہی پارٹی کی خدمت میں لگادی مخالف پارٹیوں کے روپوں پیسوں اور عہدوں کو ٹھو کر ماردیا خود برباد ہوگئے مگر پار ٹی تبدیل نہیں کی.
. پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کا مزاج بنا تو عاشق ومعشو ق نے بھی ساتھ جینے مرنے کی قسموں کو توڑ دیا.قسمیں تو کھاتے رہے مگر ایک ہی جنم میں سات جنموں کا عشق الگ الگ معشوق کے ساتھ پروان چڑھتا رہا...ادھر سیاست میں بھی وفاداری کی جگہ مصلحت اور دور اندیشی نے لے لی پارٹیاں بدلنا عیب نہیں سمجھا گیا.
.ایک وقت ایسا بھی آیا جب خواتین کے رسالوں میں چھپنے والی کہانیوں سے تحریک پاکر عشق اپنے خاندان میں ہی پنپنے لگا.بعد میں اختلافات ہونے پر خاندانوں میں دراڑیں پڑیں.اسی طرح ایک ہی سیاسی پارٹی میں اتنی آپسی محبت بڑھی کہ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا کہ اگر دو نہ ہوئے تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے عوام بھی اور پارٹی بھی.
جب زمانہ اور ترقی پر آیا تو عشق کے نام پر ایسی ڈھٹائی ہونے لگی کہ ایک لفظ( لو) سے عشق کی شروعات اور ایک لفظ (بریک اپ) سے سارے کئے کرائے پر پانی اور جھاڑو پھیرنا آسان ہوگیا. بالکل اسی طرح رات میں ایک پارٹی کے اسٹیج پر دھواں دھار تقریر اور صبح حریف پارٹی والوں کے ساتھ اسی کے خلاف پریس کانفرنس پر..
پھر یورپی معاشرے سے متاثر آزاد خیال مردو خواتین عشق کو تھوڑا سائڈ میں کرکے فرینڈشپ کے نام پر آزادانہ میل ملاپ میں یقین کرنے لگے.اسی طرح سیاست میں بھی عوامی طعنہ کہ "دکھاوے کیلئے لڑتے ہیں اندر سے ایک رہتے ہیں" سے بیزار ہوکر پارٹی اختلافات سے پرے لیڈران نے مختلف قومی معاملات میں مشترکہ مفادات کے نام پر ایک ساتھ اسٹیج شئر کرکے پیغام دے دیا کہ ہاں "دیکھ لو ہم ایک ہیں "...
اور آج....آج کے حالات تو مت پوچھیے کہ عشق اور سیاست کے نام پر کیا کچھ نہیں ہورہا ہے جب تک عاشق ومعشوق ایکدوسرے سے بور نہیں ہوتے ساتھ رہتے ہیں پھر دونوں خود ایکدوسرے کے نئے پارٹنر کا انتظام کرکے کہتے ہیں..انجوائے یار.....
اِدھر سیاست میں جب تک ایکدوسرے سے فائدہ پہنچتے رہتا ہے تو ساتھ دیتے ہیں بور ہوجانے پر دوسری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں پھر کیا پوزیشن اور کیا اپوزیشن. وطن عزیز کے تازہ ترین سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا کی بے ایمانی، اکثریت کے تعصب، ووٹنگ مشینوں سے دوشیزاؤں کی طرح چھیڑ چھاڑ،بلاوجہ کے مذہبی اشتعال جیسی وجوہات کی بنا پر بنام اکثریت چند افراد کی حکومت ہے. جبکہ اپوزیشن آکسیجن پر ہے. نتیجے میں سیاست کی بساط ہی الٹ گئی ہے. اب نہ تو عشق میں کوئی اصول نہ سیاست میں.کیا کریں زندگی ہے ہی اتنی طویل کہ ایک کے ساتھ گزارا بہت کٹھن اور دشوار ہے...اور اتنی مختصر بھی ہے کہ اکثر لوگ اپنی خواھشات پوری کرتے کرتے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں مگر ارمان پورا نہیں ہوپاتا.....