Type Here to Get Search Results !

لاج

از:صائمہ نور

وہ جناح انٹرنیشنل کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ سے ہوتا ہوا کسٹم تک پہنچا پھر بیلٹ پر آیا۔۔۔اسے ہر جگہ اجنبی چہرے نظر ا رہے تھے۔۔۔وہ چاہ کر بھی کسی اپنے کا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اجنبیت کی یہ رسم خود اسکی ڈالی ہوئی تھی،وہ پچھلے پندرہ سالوں سے اجنبیوں کے دیس میں رہ رہا تھا۔۔۔اجنبی بن کر۔۔۔کتنا روکا تھا اسے سب نے۔۔۔مگر وہ، وہ تو ستاروں کی تلاش میں تھا ،اسے بلندیوں کو چھونا تھا،اسے دنیا فتح کرنا تھی دربدری جس کی پہلی شرط تھی۔اسے کءخواب پورے کرنے تھے جس کے لئے اسے کءتعبیریں چھوڑنی پڑیں۔۔۔ جس میں پہلی تعبیر اسکی چچا زاد تھی،جو بچپن سے اس سے منسوب تھی،صرف لفظی تعلق ہی نہیں تھا دونوں دلوں کے رشتے سے بھی بندھے تھے، مگر وہ اپنی منزل کی تلاش میں ہر بندھن سے آزاد ہو گیا تھا۔۔ پھر اسے لوٹنا ہی پڑا کہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی سینے میں "دل "ہی دھڑکتا ہے اور دل کو "آباد"رکھنے کے لئے "محبت"اور اپنوں کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔ خاندانی رنجشیں ,وقت کی لگائی ہوئی گر ہیں وقت کے ساتھ ہی کھلتی ہیں ،پندرہ سال کے بعد اسے اجازت ملی تھی یہ دہلیز پار کرنے کی۔وہ کتنی مسافتیں طے کر کے لوٹا تھا۔خالی دل ،خالی ہاتھ ،سونی آنکھیں،وہ مان کہاں تھا اب؟مگر اسے وہ مان نظر آیا کھانے کی میز پر، اپنے من پسند “کریلے گوشت”دیکھ کر وہ چونکا۔ "اس کے علاوہ کسے خبر تھی ؟کیا۔۔۔وہ ابھی تک؟" پھر وہ دکھائی دی ویسی کی ویسی ان چھوئی ،یعنی اس دہلیز نے بھی اسکی لاج رکھی تھی۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.